دربار صحافت

نظام کی کنجی اب بھی نواز شریف کے پاس ہے۔مزمل سہروردی

نواز شریف کی نا اہلی کے بعد چند سوال سیاسی منظر نامہ پر گردش کر رہے ہیں۔
کیا ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ ہے۔ کیا نظام کو لپیٹنے کے کسی سکرپٹ پر عمل ہو رہا ہے۔ کیا واقعی کسی ٹیکنوکریٹ سسٹم کی تیاری ہے۔ کیا فوج براہ راست آسکتی ہے۔کیا فوج نے بالواسطہ آنے کا کوئی روڈ میپ بنایا ہے۔اسٹبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے۔
ان سب سوالوں کا جواب کیسے جانا جا سکتا ہے۔ سیاست عمل اور رد عمل کا کھیل ہے۔ اس وقت ایک عمل ہو گیا ہے نواز شریف کو اہل خانہ سمیت نا اہل کر دیا گیا ہے۔ اب نواز شریف کی باری ہے ۔ نواز شریف کا ردعمل ہی اگلی سیاست کا رخ تعین کرے گا۔ اگر میاں نواز شریف نے مزاحمتی سیاست کا فیصلہ کر لیا ہے تو یقیناًنظام کو بھی خطرہ ہو گا ۔ اور جمہوریت کو بھی خطرہ ہو گا۔ لیکن اگر میاں نواز شریف نے تحمل کا مظاہر ہ کیا تو نظام بچ سکتا ہے۔
ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق میاں نواز شریف ایک دوہری حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ اپنی نااہلی کے بعد انہوں نے نئی حکومت کی راہ ہموار کی۔ نیا وزیر اعظم نامزد کیا۔ نئی کابینہ بھی نامزد کر دی۔ ان کے یہ اقدامات واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ نظام کو چلانا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی اطلاعات ہیں کہ میاں نواز شریف جی ٹی روڈ سے ٹرک پر بیٹھ کر لاہور واپسی کا ارداہ رکھتے ہیں۔ اس بات کی پلاننگ کی جا رہی ہے کہ نواز شریف ٹرک پر بیٹھ کر جی ٹی روڈ سے لاہور روانہ ہو نگے۔ پورے جی ٹی روڈ پر ہر جگہ ان کے شاندار استقبال کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اور لاہور پہنچنے پر ایک شاندار جلسہ کی بھی تیاری ہے۔ کیا اسٹبلشمنٹ کو یہ قابل قبول ہو گا۔ کیا نواز شریف کی جی ٹی روڈ کی یاترا نواز شریف کی جانب سے اپنی مخالف قوتوں کو چیلنج سمجھا جائے گا۔ اور اس چیلنج کے رد عمل میں نظام کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
لیکن نواز شریف خاموش بھی تو نہیں بیٹھ سکتا۔ خاموشی نواز شریف کے لئے سیاسی طور پرزہر قاتل ہے۔ اگر وہ خاموش رہ گئے تو ان کا ووٹ بنک ان کے ہا تھ سے نکل جائے گا۔ اور ان کی سیاست کا سورج ڈوب جائے گا۔ لیکن اگر وہ شور مچائیں گے تو انہیں نا اہل تو پہلے ہی کر دیا گیا ہے اس کے بعد سزاؤں کا عمل بھی تیز ہو جائے گا۔ لہذا اگر ان کو اگلے انتخابات سے قبل سزا بھی ہو گئی تو پھر بھی ان کی سیاست ختم ہو سکتی ہے۔ لہذا نواز شریف ایک یسے دو راہے پر ہیں جہاں وہ جس طرف بھی جائیں گے ان کے سیاسی مستقبل کو خطرہ ہو گا۔
ایک رائے یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ اب میاں نواز شریف وزیر اعظم نہیں ہیں۔ وہ اب ایک عام شہری ہیں۔ ایسے میں وہ آزاد ہیں۔ اور بطور وزیر اعظم ان کے ہاتھ اور پاؤں میں جو زنجیریں تھیں وہ اب کھل چکی ہیں۔وہ اب اپنی بات کھل کر کر سکتے ہیں۔ ایسے میں ان کے قریبی ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ انہیں نیب کے بائیکاٹ کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ لیکن کیا وہ پاکستان میں رہتے ہوئے نیب کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ کیا اس کے لئے انہیں ایک مرتبہ پھر جلا وطنی سے نہیں گزرنا ہو گا۔
اگر نواز شریف کوئی مزاحمتی تحریک چلانا چاہتے ہیں تو یہ تحریک کس کے خلاف ہو گی۔ مرکز اور پنجاب میں ابھی بھی ان کی جماعت کی حکومت ہے۔ ان کا نامزد کردہ وزیر اعظم ہے۔ انہی کی کابینہ ہے۔ پنجاب میں انکا وزیر اعلیٰ ہے۔ایسے وہ کس کے خلاف احتجاج کریں گے۔ کیا وہ اپنی حکومت کی مدد سے اسٹبلشمنٹ کو سڑکوں پر چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیا یہ ایک خطرناک کھیل نہیں ہو گا۔ کیا سڑکوں پر شروع ہونے والا یہ کھیل نظام کو ختم کرنے کا جواز نہیں بن جائے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کو اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کے لئے اپنی سیاسی تنہائی بھی ختم کرنا ہو گی۔ انہیں پیپلزپارٹی کا ساتھ درکار ہو گا۔ جماعت اسلامی کو واپس اپنے ساتھ لانا ہو گا۔ دیگر جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ لانا ہو گا۔ وہ اکیلے اسٹبلشمنٹ کو چیلنج نہیں کر سکتے۔ جس طرح پہلے بھی اسٹبلشمنٹ سے لڑنے کے لئے ایک چارٹر آف ڈیموکریسی تشکیل دیا گیا تھا ۔ اسی طرح اب بھی نواز شریف کو ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کی ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ مائنس نواز شریف کے بعد مائنس عمران خان اور مائنس زرداری کی بھی بات ہو رہی ہے۔ ویسے تو جہانگیر ترین پر بھی خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ایسے میں کیا نواز شریف اپنی ذ ات سے بالاتر ہو کر باقی سیاسی قائدین کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہو گا۔
اس وقت ملک کی سیاسی بساط کا مستقبل نواز شریف کے ہاتھ میں ہے۔ جمہوریت کی کنجی نواز شریف کے پاس ہے۔ اگر نواز شریف نے تحمل کا مظاہر ہ کیا۔ تو نظام چل سکتا ہے۔ لیکن اگر نواز شریف اپنی عوامی طاقت کے بل بوتے پر اسٹبلشمنٹ کو بند گلی میں لیجانے کی کوشش کریں گے تو عمل کے مقابلے میں رد عمل ہو گا۔ لیکن دوسری طرف اسٹبشمنٹ کو بھی یہ بات سمجھنی ہو گی انہیں نواز شریف کو اپنے ووٹ بنک کو سنبھالنے کی اجازت دینا ہو گی۔ اگر نواز شریف کے ووٹ بنک کو ختم کرنا مقصود ہے تو اس کے لئے نظام کو لپیٹنا ہوگا۔ نظام کو چلتا رکھ کر نواز شریف کے ووٹ بنک کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف کی ناا ہلی کے بعدان پر سیاست کرنے کے حو الہ سے قدغن موجود ہے۔ اس قد غن کے عملدرآمد کے لئے ان کے سیاسی مخالفین دوبارہ عدالت عالیہ سے رجوع کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔لیکن کیا ایسی کسی پابندی پر عملدرآمد ممکن ہے۔
کیا ایسی پابندی ممکن ہے۔ کیا جو بھی نواز شریف کو ملے گا اسے بھی نااہل کر دیا جائے گا۔ کیا نااہلی کا مطلب سیاسی بائیکاٹ بھی ہے۔ کیا نواز شریف کے بطور عام شہری حقوق اور فرائض بھی ختم ہو گئے ہیں۔ کیا نوا ز شریف اب کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ایسا کیسے ممکن ہے۔ کیا میڈیا پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی کہ وہ نواز شریف کی سیاسی سرگرمیوں کی کوریج نہ کرے۔ کیا ہم نواز شریف کا حا ل بھی الطاف حسین والا کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے۔
نواز شریف کے ساتھ جو ہوا ہے۔ وہ صرف ان کے ساتھ ہی نہیں ہو گا۔ عمران خان بھی اسی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ عائشہ گلا لئی کا معاملہ سب کیے سامنے ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا کہ نواز شریف کی نااہلی کا فائدہ عمران خان کو ہو گا ۔ تو یہ غلط ہے۔ جن کو مضبوط نواز شریف قابل قبول نہیں تھا۔ انہیں مضبوط عمران خان کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے۔ اس لئے عمران خان بھی اسی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ جہاں تک زرداری کا تعلق ہے تو انہیں چھوٹے صوبے سے ہونے کا فائدہ ہے۔ سندھ کو عد م استحکام کرنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ جب تک سندھ پیپلزپارٹی کے پاس ہے تب تک زرداری محفوط ہیں۔ اسی لئے پہلے عمران خان کی باری کہی جا رہی ہے۔
کیا ملک میں سیاستدانوں کی بڑے پیمانے پر نااہلی کا خطرہ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ صرف نواز شریف کی نااہلی کا تو الٹا نواز شریف کو ہی فائدہ ہوگا۔ اس لئے نواز شریف کی نااہلی سے جن مقاصد کا حصول درکار ہے اس کے لئے مزید نااہلیاں درکار ہیں۔ لیکن نواز شریف کا رد عمل ہی یہ بھی طے کرے گا کہ مزید نا اہلیا ں بھی ہو سکتی ہیں کہ نہیں۔ اس طرح پاکستان میں جمہوریت اور موجودہ نظام کا مستقبل کیا ہو گا۔ اس کا تمام تر دارومدارنواز شریف کے عمل اور رد عمل پر ہے۔