دربار صحافت

وقار انبالوی….شوکت علی شاہ

وقارانبالوی ایک طویل عرصہ تک ’’نوائے وقت‘‘ سے منسلک رہے۔ بابا جی کا ادبی اور صحافتی قد کاٹھ اتنا بڑا تھا کہ کئی اخباروں نے بھاری رقوم پیش کیں لیکن انہوں نے حرص واَز کے سمندر میں ڈوبنا گوارا نہ کیا۔ کہتے ’’نوائے وقت محض ایک اخبار نہیں ہے‘ یہ ایک نظریہ ہے جو دراصل نظریہ پاکستان سے جُڑا ہوا ہے۔ نظامی برادران کا اوڑھنا بچھونا پاکستان ہے۔ حمید نظامی مرحوم نے قیامِ پاکستان کیلئے جدوجہد کی تو مجید نظامی ساری عمر استحکام پاکستان کیلئے کوشاں رہے‘ کئی انقلاب آئے۔ آمریت کی آندھیاں چلیں۔ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے اُنکی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن اُنکے پائے استقامت متزلزل نہ ہوئے۔ مجید نظامی درویش منش انسان تھے۔ قلندرانہ طریق تھا۔ چاہتے تو دیگرانکی طرح ایک کمرشل ایمپائر کھڑی کرسکتے تھے۔ لیکن ساری زندگی نہایت سادگی کے ساتھ بسر کی‘‘۔
بابا جی محض صحافی نہ تھے۔ایک منجھے ہوئے ادیب‘کہنہ مشق شاعر اور اُردو زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں کو خوب سمجھتے تھے۔ عمروں میں نمایاں تفاوت کے باوصف وہ میرے دوست تھے۔ استاد بھی تھے۔ نوائے وقت میں ’’سر راہے‘‘ لکھتے۔ ادارتی بورڈ میں بھی شامل تھے۔ نوے سال کی عمر میں بھی ’چال جیسے کڑی کمان کا تیر‘16میل ہر روز پیدل چلتے۔ اپنے گائوں سہجووال سے ویگن پر بادامی باغ اڈے پر آتے۔ وہاں سے نوائے وقت کے دفتر تک پیدل آنا اور جانا۔ اسی میں اُنکی صحت کا راز مضمر تھا۔ دفتر سے واپسی پر میرے پاس آجاتے اور پھر لمبی گپ شپ ہوتی۔ جب رحلت فرمائی تو میں انگلینڈ میں تھا۔ میں نے اُس وقت ایک خاکہ لکھا ۔ نوجوان قارئین کیلئے اُسے ایک بار پھر پیش کیا جارہا ہے۔میں اس وقت لندن کے ’’ہالی ڈے ان‘‘ ہوٹل کی کافی شاپ میں بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا کہ اردو اخبار میں خبر پڑھی ’’اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی‘‘ مشہور صحافی‘ ادیب‘ شاعر‘کالم نگار‘وقار انبالوی رحلت فرما گئے۔
شدت غم سے میرا سارا وجود لرز گیا اور ہاتھ میں پکڑی چائے کی پیالی گرتے گرتے بچی۔ کچھ دیر بعد ہی ایسے محسوس ہوا جیسے بابا جی میرے سامنے کھڑے ہیں اور نیم خندہ لبی کے ساتھ فرما رہے ہیں۔’’چائے کی یہ نیم گرم بغیر چینی کے بدمزہ پیالی ختم کر ڈالو۔ کیا تمہارے چائے نہ پینے سے لوٹ آئوں گا؟ کیا میرے جانے سے دنیا کے ہنگامے دم توڑ دینگے؟ نظام کائنات میں خلل پڑجائیگا؟ تم تو گواہ ہو کہ اس دن کا انتظار میں نے برسوں کیا۔ ایک بھرپور اور طویل سفر کے بعد میں تھک سا گیا تھا۔ دوست احباب بھی غالباً اکتا گئے تھے۔ ہر روز ایک زہر خند مسکراہٹ کے ساتھ پوچھتے۔ ’’بابا کب جارہے ہو؟ کیا سینچری مکمل کرنے کا ارادہ ہے؟ جواں مرگی کی قدر صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو زندگی کے خار زار پرپا پیادہ ایک طویل عرصہ تک آبلہ ہوئے ہوں۔
بابا جی سے میری دوستی بہت پرانی تھی اور پہلی ملاقات بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی۔ میں ان دنوں اسسٹنٹ کمشنر فیروزوالا تھا اور گورنر پنجاب جنرل سوار خان کی ہدایت پر ماحولیاتی آلودگی دور کرنے کیلئے شیخوپورہ روڈ پر اپنی نگرانی میں کام کرارہا تھا۔ ہم نے ملحقہ دیہات سے ہزاروں لوگوں کو اپنی مدد آپکے تحت اکٹھا کیا اور پھول دار پودے لگانے‘ نالیوں کو صاف کرنے اور گڑھوں کو بھرنے پر لگا دیا۔ کام بہت زور شور سے جاری تھا۔لوگ ڈھول کی تال پر بیلچے اور کدالیں پکڑے کام میں جتے ہوئے تھے۔ہرطرف گردوغبار کے بادل چھائے ہوئے تھے کہ ایک شخص میری طرف تیزی سے بڑھا اور بغیر کسی تعارف یا تمہید کے بولا۔’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘
’’آپ کو کیا نظر آتا ہے؟‘‘ میں نے سوال کا رخ اسی کی طرف موڑ دیا۔
’’تم کون ہو؟ اور کیا ہو؟‘‘ اسکا لہجہ بڑا کھردرا تھا۔
’’یہ سوال آپ سے بھی پوچھا جاسکتا ہے؟‘‘
’’میں وقار انبالوی ہوں‘‘۔
’’انبالے میں وقار کب سے آیا ہے؟‘‘ میں نے مصنوعی حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔
’’اسکا پتہ تمہیں کل چل جائیگا۔‘‘ وہ سٹپٹا کر بولے۔
اور واقعی دوسرے دن جب نوائے وقت کا کالم ’’سرراہے‘‘ پڑھا تو اس میں بابا جی نے ہماری خوب بھد اڑائی تھی۔ اکبر الٰہ آبادی کے ایک شعر کے حوالے سے لکھا تھا کہ والی ٔ کابل امان اللہ کی ہندوستان آمد پر افسروں کو ڈھیلے جمع کرنے میں اتنی تگ و دو نہیں کرنا پڑتی تھی جتنی خاک اے سی فیروزوالا اور اسکے مجسٹریٹ سوار خان کی متوقع آمد کے سلسلے میں دکھا رہے ہیں۔ شام کو بابا جی نے مجھے فون کیا اور بولے کیسی رہی؟
’’صفائی ہوگئی ہے‘‘ آپ نے تو ہزار ہا آدمیوں کا کام اکیلے کر ڈالا۔ بابا جی بے ساختہ مسکرائے۔
بابا جی بڑے صاف گو انسان تھے۔ حاسد اسی صاف گوئی کو ان کی تلخ مزاجی گردانتے تھے۔ ویسے بابا جی کی حق گوئی کا عالم یہ تھا کہ زہرہلاہل کو زہر ہلاہل تو کہتے ہی تھے۔ قند کو بھی قند نہیں رہنے دیتے تھے۔ کیسی ہی شیریں رسیلی چیز ہوتی بابا جی کی نوک زبان سے لگ کر کڑوی کسیلی بن جاتی لیکن اس تلخ نوائی کے پیچھے کوئی کدورت نہ ہوتی۔ یہ تو ان کا انداز تکلم تھا وہ دبنگ انسان تھا۔طریق قلندرانہ تھا۔ جہاں جرأت رندانہ اور روشِ فقیرانہ یکجا ہوجائیں تو انسان اندیشہ ہائے سود و زیاں سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ بابا جی کی فطرت کا خمیر انہی عناصر سے اٹھا تھا۔ انکی ساری زندگی اسی اکھڑ پن سے عبارت تھی۔ شاید وہ ’’انانیت‘‘ کے اس موڑ پر پہنچ چکے تھے جہاں سے لوٹنا تو درکنار پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی بس میں نہیں رہتا۔
انکے مزاج کا یہ عالم تھا کہ اپنی اولاد سے بھی بے سبب نہ ملتے۔ ان کا ایک بیٹا ائیر فورس میں کمانڈر تھا۔ دوسرا وائس آف امریکہ میں کام کرتا تھا۔ بیٹی برکلے یونیورسٹی میں پڑھاتی تھی۔ ایک دن میں پوچھ بیٹھا کہ بچوں سے آپ کی ملاقات کب ہوتی ہے؟ ایک کرب آمیز مسکراہٹ کے ساتھ بولے ’’بڑے…کے بچے ہیں۔ مصالحہ کچھ زیادہ ہی لگ گیا ہے۔ بڑا ائیرفورس والا کہتا ہے کہ ابا جی جب میں خط نہ لکھوں تو سمجھ جائیں کہ ہم سب خیریت سے ہیں۔
’’تو پھر؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’تو پھر وہ یقیناً سب خیریت سے ہوں گے۔‘‘
بابا جی مشق انانیت میں اپنی ذات کو بھی معاف نہ کرتے تھے۔دوسروں کو چھوڑ دینا تو بہت دور کی بات تھی۔ ایک بار مجھے چندمجرموں کی سرکوبی مطلوب تھی۔ بابا جی سے ذکرہوا تو بولے جنرل کے ایم عارف سے بات کرتے ہیں۔ تمہاری طرح وہ بھی میرا شاگرد رہا ہے۔ مارشل لاء کا دور تھا۔ جنرل عارف‘ ضیاء الحق مرحوم کے بعد سب طبل و علم کے مالک و مختار تھے۔ بابا جی نے انہیں فون کیا تو انکے پی اے نے چند منٹ انتظار کرایا۔ شاید جنرل صاحب دوسرے فون پرکسی سے بات کررہے تھے۔ جنرل صاحب نے جیسے ہی ’’ہیلو‘‘ کہا بابا جی برس پڑے ’’میں اس عارف سے بات کرنا چاہتاہوں جو کبھی علم دوست تھا‘ شاعر تھا‘ خلیق اور ملنسار تھا۔ جس نے میرے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا۔ آپریٹر نے مجھے کسی جنرل سے ملادیا ہے جس کی روش حاکمانہ ہے۔ طور طریق شاہانہ ہیں۔ اب جنرل صاحب ہیں کہ بار بار معذرت کررہے ہیں۔ آپریٹر کی سرزنش کرنے کا یقین دلا رہے ہیں۔ ’’حکم‘ ارشاد‘‘ کی گردان کر رہے ہیں لیکن بابا جی کا پارہ جو ایک سو ڈگری پر پہنچا ہوا تھا نیچے نہ آیا اور طیش میں فون بند کردیا۔ غیظ کے اس عالم میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ فون کرنے کا مدعا کیا تھا۔
’’اجنبی اپنے دیس میں‘‘ کا مسودہ مکمل ہوا تو صرف و نحو کے سلسلے میں انہیں دکھایا۔ وہ ہمیشہ شفقت سے پیش آتے تھے۔ لیکن مسودے کا پہلا صفحہ دیکھتے ہی اسے میز پر پٹخ دیا اور ہفتوں سرزنش کرتے رہے کہ ’نہ‘ کے ساتھ ’ہی‘ کیوں لگاتے ہو؟ ایک دن تنگ آکر میں نے کہا۔ اگر میں’’نہ‘‘ اور ’’ہی‘‘ کے جوڑ میں مضمر خرابیوں سے آگاہ ہوتا تو آپ جیسے اکھڑ شخص سے دوستی کیوں کرتا؟
بابا جی مسکرا پڑے اور بولے ۔’’ہاں یہ بات تو ہے۔‘‘ انہوں نے بڑی شفقت اور محنت کے ساتھ سارا مسودہ پڑھا اور چند واضح غلطیوں کی نشاندہی کی۔
بالآخر مسودہ مکمل ہوا تو پوچھنے لگے۔ ’’کتاب کس پبلشر سے چھپوائو گے؟‘‘
عرض کیا ’’میں اس کوچہ میں بالکل نو وارد ہوں اور کسی پبلشرکو نہیں جانتا۔
’’فکر نہ کرو۔‘‘ وہ میرے کندھے کو تھپتھپا کر بولے۔ اردو بازار میں میرا ایک پبلشر دوست ہے وہاں چلتے ہیں اس سے زیادہ دیدہ زیب کتاب اور کوئی نہیں چھاپتا۔‘‘ (جاری)