دربار صحافت

وقار انبالوی…..شوکت علی شاہ

ونانی شہزادوں کا جنگ میں شریک ہونا اخلاقی تقاضوں کی وجہ سے نہ تھا بلکہ محض ہیلن کے جسم کو حاصل کرنے کی ہوس تھی جو انہیں کشاں کشاں ٹرائے تک لے گئی۔ اس کے برعکس سیتاپتی ورتن اور ستی ساوتری تھی جس نے ایک راکشش کے آگے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اور رام جی نے اپنے آدرشوں اور وقار کی خاطر جنگ لڑی۔ رام اور راون محض دو نام نہ تھے بلکہ وہ نیکی اور بدی کی طاقتوں کے نمائندے تھے۔ اس سلسلے میں ان کے شوق اور تجسس کا یہ عالم تھا کہ نوجوانی کے دنوں میں بھیس بدل کر ایک طویل عرصے تک سیتلا مندر میں رہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ گوپیوں کے درمیان یہ گوپلو کہاں سے آ گیا ہے۔
بابا جی کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور مشاہدہ نہایت عمیق‘ ہر چند کہ انگریزی زبان سے ان کی رسمی علیک سلیک تھی۔ اردو‘ ہندی‘ سنسکرت‘ عربی‘ فارسی پر انہیں بڑا عبور حاصل تھا۔ پنجابی ہوتے ہوئے بھی ایسی شستہ اردو بولتے کہ اہل زبان عش عش کر اٹھتے۔ صرف صاحب علم ہی نہ تھے‘ عالموں کی قدر بھی کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بڑا بے لاگ تبصرہ بھی کرتے۔
توکل اور قناعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ سادہ لباس پہنتے‘ سادہ غذا کھاتے۔ ایک لمبا کھدر کا کرتا یا پاجامہ نما شلوار اور دیسی چپل اور صدری۔ پان کے شوقین تھے۔ اپنا پاندان رکھتے اور لکھنوی انداز میں چھوٹی چھوٹی گلوریاں بنا کر وقفے وقفے سے کلے میں دباتے رہتے۔ ان کے توکل کا یہ عالم تھا کہ ایک دن میرے دفتر تشریف لائے اور زیورات کی پوٹلی میز پر رکھتے ہوئے بولے۔ ایک شادی میں شرکت کرنی ہے اور بیگم ایک عزیز کے ہاں انتظار کر رہی ہے جلدی سے کوئی اچھی سی ٹیکسی منگوا دو۔
میں نے کہا ’’آپ اور یہ زیورات کا ڈبہ؟‘‘
ہنس کر بولے ’’عورت کیلئے زیورات کے مقابلے میں خاوند ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ تین دفعہ فون کر چکی ہے کہ لاکر سے زیورات نکلوا کر جلد پہنچو۔‘‘
میں نے ہیڈ کانسٹیبل کو بھیج کر ٹیکسی منگوائی۔ کوئی ایک گھنٹے کے بعد گھبرائے ہوئے آئے اور کہنے لگے۔ شوکت غضب ہو گیا ہے۔ زیورات کی تھیلی ٹیکسی میں رہ گئی ہے۔ ٹیکسی کا نمبر بھی یاد نہیں بیگم سخت پریشان ہے اور مجھے جلی کٹی سنا رہی ہے۔‘‘
بات بڑی پریشان کن تھی لیکن اتنے بڑے شہر میں ہزاروں گاڑیوں میں سے بغیر نمبر جانے گاڑی کو تلاش کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ میں نے کہا۔
’’بابا جی زیورات کا ان حالات میں ملنا کسی معجزے سے کم نہیں پھر بھی کوشش کر دیکھتے ہیں‘‘
کچھ دیر سوچتے رہے پھر مسکرا دیئے‘ بولے۔ ’’تمہاری بات درست ہے۔ زیورات کا ملنا عام حالات میں شاید ممکن نہ ہو لیکن اگر حق حلال کی کمائی کے ہیں تو ضرور مل جائیں گے۔ نہیں تو میں سمجھوں گا کہ میں نے اپنی ڈیوٹی میں تساہل برتا ہے۔ چلو اب منگواؤ نان اور سری پائے‘‘
ہم کھانا کھا ہی رہے تھے کہ چپڑاسی نے آ کر کہا کوئی ٹیکسی ڈرائیور آیا ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے زیورات کی تھیلی بابا جی کو دیتے ہوئے کہا۔ ’’حضرت شکر کریں کہ پچھلی سیٹ پر میری نظر پڑ گئی نہیں تو اب تک پتہ نہیں یہ کہاں پہنچ جاتی۔‘‘
’’یہ کہیں بھی نہیں جا سکتی تھی۔‘‘ بابا جی نے تھیلی لیتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ ’’دیکھا! کہا نہیں تھا کہ حلال کی کمائی کی چیزیں گم نہیں ہوتیں۔‘‘ بابا جی نے ٹیکسی ڈرائیور کو سو روپے کا انعام دینا چاہا لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر اسے روپے پیسے کا لالچ ہوتا تو اتنی دور سے ہزاروں روپے کے زیورات کیوں لوٹانے آتا۔‘‘
’’لے لو‘‘ میں نے ازراہِ تفنن اسے مشورہ دیا۔ بڑے بڑے جغادری ان سے سوا روپیہ تک نہیں نکلوا سکے۔‘‘
’’دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر۔‘‘ بابا جی نے طنز کا رخ میری طرف موڑ دیا۔
’’ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ ہر شخص سے اس کی ذہنی سطح اور قابلیت کے مطابق بات کرتے۔ علمی اور ادبی محفلوں میں بڑے بڑوں کو چپ کرا دیتے۔ اس اعتماد اور وثوق سے تقریر کرتے کہ سامعین عش عش کر اٹھتے اور انہیں یہ کہنا پڑتا کہ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔ عام آدمی سے اس کے لب و لہجے میں گفتگو کرتے۔ جوانوں کی محفل میں جوان نظر آتے۔ ایسی ایسی پھلجڑیاں چھوڑتے کہ محفل کشتِ زعفران بن جاتی۔ ساتھ ساتھ ڈالڈا اور پاؤڈر ملک کی زد میں آئے ہوئے نوجوانوں کو چند نسخے اور راز کی باتیں بھی بتاتے جاتے۔‘‘
آخری عمر میں انہوں نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ واپسی پر کھجوریں‘ تسبیح اور آبِ زم زم خاص طور پر میرے لئے لے کر آئے۔ کھجور کے دانے کو چکھ کر میں نے کہا مجھے تو یہ مکران کی بیگم جنگل (کھجور کی ایک قسم) لگتی ہے۔ آخر آپ کا یہ بیگمات کا شوق نہیں گیا۔
بابا جی نہایت عمدہ شعری ذوق رکھتے تھے۔ برجستہ اور برمحل شعر کہنے میں ان کا جواب نہیں تھا۔ خود بھی بہت اچھے شعر کہتے۔ ہر چند کہ انہوں نے زیادہ شعر نہیں کہے لیکن ان کے فن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اس شعر کو …؎
اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے
اک ضربِ ید اللّٰہی، اک سجدئہ شبیری
لوگ علامہ اقبال کا شعر سمجھ کر پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ اخبار کیلئے لکھے جانے والے قطعات نے البتہ ان کی شاعری کو ضرور متاثر کیا۔ ایک دن خود ہی اس کی وضاحت کرتے ہوئے بولے۔ قطعات میں ہر روز اچھا شعر نہیں لکھا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ تو موضوع کا خشک پن ہے اور دوسرے فرمائش ہوتی ہے کہ اس موضوع پر قطعہ فوراً موزوں کر دیجئے۔ اب ظاہر ہے کہ اس قسم کے اشعار پڑھ کر وجدان پر گھنٹیاں ہی بجیں گی شہنائی کی آواز نہیں آئے گی