دربار صحافت

پروفیسرسید کرامت حسین جعفری از جمیل اطہر

پرانی مرسڈیز اور جمہوریت

پروفیسرسید کرامت حسین جعفری از جمیل اطہر

پروفیسر سید کرامت حسین جعفری اپنے زمانے کے نہایت ممتاز اورقابل احترام ماہر تعلیم تھے ۔ میری اُن سے پہلی ملاقات نہایت دلچسپ ماحول میں ہوئی۔ میں گورنمنٹ کالج لائل پور میں نیا نیا داخل ہوا تھا اور میرے مضامین جغرافیہ، معاشیات ، علومِ اسلامی، اُردو اور انگریزی تھے۔ یہ 1958ء کا ذکر ہے، پروفیسر جعفری چند ماہ پہلے ہی گورنمنٹ کالج لائل پور کے پرنسپل مقرر ہوئے تھے ۔میں حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ روز نامہ ’’ آفاق‘‘ میں بحیثیت سب ایڈیٹر بھی کام کررہا تھا ۔ پروفیسر جعفری نے معاشیات کی سوسائٹی کے ایک اجلاس سے خطاب کیا، ان کا موضوع تھا ’’ معاشرے پر خاندانی منصوبہ بندی کے اثرات ‘‘ انہوں نے انگریزی میں خطاب کیا۔ میں بھی اس اجلاس کے سامعین میں شامل تھا ۔ میں نے ان کی تقریر کے نوٹس لکھے اور اس کے چیدہ چیدہ نکات ایک خبر کی صُورت میں’’آفاق ‘‘ میں شائع کردیئے۔ یہ اخبار ان کی نظر سے گذرا۔ انہوں نے وہ خبر پڑھی اور کچھ کچھ حیرت بھی ہوئی کہ ان کی تقریر کی تمام اہم باتیں صحیح صحیح خبر میں شامل کی گئی تھیں ۔اُردو کے لیکچرار مرزا محمد منور پرنسپل صاحب کے دفتر میں ان سے ملنے گئے تو انہوں نے بڑے تعجب سے ان سے دریافت کیا کہ کیا معاشیات کی سوسائٹی کے اجلاس میں کسی اخباری نمائندے کو بھی بُلایا گیا تھا ۔ مرزا صاحب نے کہا ۔۔۔۔۔۔ میرے خیال میں تو نہیں ۔ جعفری صاحب نے کہا پھر ’’آفاق‘‘ میں یہ خبر کیسے شائع ہوگئی۔ اس پر مرزا صاحب نے انہیں بتایا کہ یہ کام ان کے ایک شاگرد کا ہوگا جو رات کو ایک اخبار میں کام کرتا ہے ۔ جعفری صاحب نے مرزا صاحب سے کہا کہ آپ اس لڑکے کو میرے پاس بھیجیں۔ مرزا صاحب کلاس میں آئے ۔ اُردو کی یہ کلاس موسم سرما میں کسی کمرے کی بجائے کالج کی گراؤنڈ میں ہوتی تھی ۔ مرزا صاحب کو چند روز قبل ہی میں نے بتایا تھا کہ مجھے دُھوپ میں بیٹھنا کچھ تکلیف دیتا ہے، اس سے میرے جسم پر کچھ سُرخی نمودار ہوجاتی ہے اور میں یہ دُھوپ مشکل سے ہی برداشت کرپاتا ہوں۔ مرزا صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ہر صبح اپنے جسم پر سرسوں کے تیل کی مالش کیا کروں، اس سے یہ مشکل حل ہوجائے گی۔ میں نے اسی گفتگو میں برسبیلِ تذکرہ یہ بھی عرض کیا تھا کہ میں رات کو روزنامہ’’آفاق‘‘ میں کام کرتا ہوں اور رات گئے تک کام کرنے کی وجہ سے مشکل سے ہی اپنی کلاس میں بروقت پہنچ پاتا ہوں ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مرزا صاحب نے جعفری صاحب کو ان کے استفسار پر میرے بارے میں بتادیا۔ مرزا صاحب نے مجھے ہدایت کی کہ میں کلاس چھوڑ کر پرنسپل صاحب کے پاس جاؤں اور ان سے ملوں اور یہ نہ بتایا کہ مجھے کس وجہ سے پرنسپل صاحب کے کمرے میں طلب کیا گیا ہے ، میں ڈرتے ہوئے پرنسپل صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں بتایا کہ میں مرزا محمد منور کے حکم پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔پرنسپل صاحب نے نہایت شفقت سے میرا نام دریافت کیا، میرے والد صاحب کا نام پُوچھا اور یہ بھی سوالات کئے کہ والد صاحب کیا کرتے ہیں اور میرے کیا مشاغل ہیں۔ والد صاحب کا نام لیتے ہوئے میں نے سرہند شریف سے اپنے خاندان کے تعلق کا بھی ذکر کیا۔ جعفری صاحب نے میرا بہت حوصلہ بڑھایا اور یہ بات بھی بتائی کہ ان کے اپنے بیٹے اقبال جعفری ایک صحافی ہیں اور’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں کام کرتے ہیں۔ مجھ سے انہوں نے یہ بھی پُوچھا کہ مجھے کالج میں کوئی مسئلہ تو پیش نہیں آرہا اور مجھے اپنی فیس میں کوئی معافی وغیرہ تو نہیں چاہئے۔ میں نے ان کے جذبے کو سراہا اور عرض کیا کہ مجھے اخبار سے جو تنخواہ مل رہی ہے اس سے میری ضروریات پُوری ہورہی ہیں اور میرے تعلیمی اخراجات کا میرے والدین پر بھی کوئی بوجھ نہیں ہے ۔ پرو فیسر کرامت حسین جعفری سے میری یہ ملاقات میری زندگی میں بہت د خیل رہی اور میں نے کامرانی کی کئی منزلیں ان کی رہبری کے سائے میں طے کیں ۔ پروفیسر کرامت حسین جعفری نفسیات اور فلسفہ کے استاد تھے۔ اس وقت کے واحد انگریزی اخبار’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے ادارتی صفحہ پر ہر ہفتے نفسیاتی مسائل پر ان کا ایک کالم شائع ہوتا تھا جو بہت دلچسپی سے پڑھا جاتا تھا ۔ ان کی گفتگو میں طنزو مزاح کا عنصر بھی بہت غالب ہوتا تھا ۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لائل پور کے ایک جلسۂ تقسیم اسنادو انعامات میں جسٹس ایم آرکیانی کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا۔ اس وقت جسٹس کیانی کا شمار طنز و مزاح کے بادشاہوں میں ہوتا تھا ۔ وہ مشکل سے مشکل بات لطیف پیرائے میں بیان کردیتے تھے ۔ ان کا ایک فقرہ بہت دیر تک زبان زدِعام رہا کہ ’’ماضی کے حکمران سبز باغ دکھاتے تھے، مگراب ہمارے حکمران کا لا باغ دکھاتے ہیں‘‘۔ یہ اشارہ تھا گورنر ملک امیر محمد خان کی طرف جو نواب آف کالا باغ تھے اور جنہیں ایوب خان نے پنجاب میں مخالف اثرات کو زائل کرنے اور مخالفانہ آوازوں کو طاقت سے دبانے کا فریضہ سونپا تھا۔ انہی کے دور میں نواب آف کالا باغ کے ضلع میاں والی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مد مقابل مولانا عبدالستار نیازی پر لاہور کے لکشمی چوک میں لکشمی بلڈنگ کے باہر قاتلانہ حملہ کیا گیا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بچ رہے ۔ خیر تو ذکر ہورہا تھا گورنمنٹ کالج کے جلسہ تقسیم اسناد اور انعامات کا ! اس جلسہ میں پرنسپل صاحب نے جو خطبہ پیش کیا وہ جسٹس کیانی سے بھی بڑھ کر شگفتہ اور لطیف پیرائے میں بیان ہوا ۔ میں نے اپنے ہفت روزہ’’ جانباز‘‘ میں جو’’وفاق‘‘ کا ڈیکلریشن نہ ملنے کے باعث ایک دوست میاں وزیر محمد جالندھری سے مستعار لیا گیا تھا اس جلسہ پر ایک جامع رپورٹ شائع کی اور اس میں اس سُرخی کے ساتھ کہ ’’ ایک اور کیانی ابھر رہا ہے‘‘ پروفیسر صاحب کی شگفتہ بیانی کو خراج تحسین پیش کیا۔ جب یہ رپورٹ شائع ہوئی تب پھر مجھے جعفری صاحب نے اپنے دفتر میں بُلایا اور ہفت روزہ ’’ جانباز‘‘ کے بارے میں پُوچھا کہ یہ کب سے شائع ہونے لگاہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ وزیر محمد جالندھری کا ڈیکلریشن ہے جو گوجرہ میں نیوز ایجنٹ ہیں اور میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اپنے قیام کے دوران یہ پرچہ مرتب کرنے میں ان کی مدد کرتا رہا ہوں۔ اس تعلق کے باعث انہوں نے ہمیں ( مصطفی صادق اور میں) یہ اخبار اس وقت تک شائع کرنے کی اجازت دے دی ہے جب تک ہمیں اپنا ڈیکلریشن نہیں مل جاتا۔ جعفری صاحب نے دریافت کیا کہ اپنے ڈیکلریشن کے حصول میں کیا رکاوٹ ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہم نے ڈیکلریشن کی درخواست ’’آفاق‘‘ کے ہی اپنے ایک رفیق کار حافظ بشیر سہیل کے نام سے داخل کی ہے اور جب سی آئی ڈی کا آدمی ان کے کوائف کی تصدیق کے لئے ہماری قیام گاہ پر آیا تو حافظ صاحب نے سی آئی ڈی انسپکٹر کے ہر سوال کا اُلٹ جواب دیا اور اس انسپکٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ درخواست دہندہ ’’ مخبوط الحواس‘‘ ہے اور میری اطلاع کے مطابق اخبار مصطفی صادق نام کے ایک صاحب نکالنا چاہتے ہیں جو جماعت اسلامی کے لیڈر ہیں۔ ایوب خان کے دور میں کسی شخص کا تعلق جماعت اسلامی سے ظاہر ہونا اس کے تمام اوصاف پر پانی پھیردیتا تھا ۔ اس بنا پر حکومت نے ڈیکلریشن دینے سے انکار کردیا ۔ جعفری صاحب نے کہا اتفاق سے میری چند روز قبل ہی ڈپٹی کمشنر سید محمد قاسم رضوی سے ملاقات ہوئی ہے جس میں انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا لائل پور میں کوئی ایسا شخص ہے جو یہاں سے معیاری روز نامہ اخبار نکال سکتا ہو اور پھر خود ہی یہ جواب دیا کہ یہ کام صرف خلیق قریشی کرسکتے ہیں ، مگر ان کا اخبار خود ان کی توجہ سے محروم ہے ۔ جعفری صاحب نے مجھے یقین دلایا کہ وہ اب ڈپٹی کمشنر صاحب سے دو بارہ ملاقات کریں گے ، ان کے چہرے سے یہ عیاں ہورہا تھا جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ یہ مسئلہ تو اب حل ہوگیا۔ دو روز بعد جعفری صاحب نے مجھے بُلایا اور کہا کہ سید محمد قاسم رضوی سے مصطفی صادق صاحب اور تم مل لو، وہ کہتے ہیں کہ ڈیکلریشن کی پُرانی درخواستوں کو بُھول کر ایک نئی درخواست دے دو ، میں ڈیکلریشن کی منظوری دے دُوں گا ۔ پھر ایسا ہی ہوا ، ہم قاسم رضوی صاحب سے ملے ان کی خدمت میں نئی درخواست پیش کی لیکن حافظ صاحب کے ہی نام پر۔۔۔۔۔۔ اور چند روز بعد ہمیں ہفت روزہ’’ وفاق‘‘ شائع کرنے کی اجازت مل گئی۔ ظاہر ہے یہ ڈیکلریشن ہمیں جعفری صاحب کی نظرِ کرم سے حاصل ہوا اور جب تک وہ حیات رہے ہمیں ان کی شفقت حاصل رہی ۔ کچھ عرصہ بعد جعفری صاحب کا لاہور تبادلہ ہوگیا ، وہ ایم اے او کالج کے پرنسپل مقرر کئے گئے ۔ پروفیسر مرزا محمد منور بھی گورنمنٹ کالج لائل پور سے تبادلہ کراکے گورنمنٹ کالج لاہور آگئے اور میں بھی لائل پور سے سرگودھا ، سرگودھا سے ملتان ہوتا ہوا 1965ء میں لاہور آگیا ۔ نئی انارکلی سے باہر کچہری روڈ پر مکتبہ کارواں اس وقت لاہور کے اہلِ علم اور اہلِ قلم کی نشست گاہ تھی ۔ مکتبہ کارواں کے مالک چوہدری عبدالحمید علم و ہنر کی قدر کرنے والے شخص تھے۔ ان کا تعلق پنجاب کی ایک اہم سیاسی شخصیت میاں عبدالباری مرحوم سے تھا جو پاکستان بننے کے بعد پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے وہ کئی بار پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے اور کئی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ چوہدری عبدالحمید، میاں عبدالباری کے داماد تھے ۔ مکتبہ کارواں کی اوپر کی منزل پر تیسرے پہر جو جو نشستیں ہوتی تھیں ان میں جو لوگ شریک ہوتے تھے ان میں پروفیسر کرامت حسین جعفری، مرزا محمد منور ، آغاشورش کاشمیری،’’ نوائے وقت ‘‘ کے اداریہ نویس بشیر احمد ارشد، چیف نیوز ایڈیٹرظہور عالم شہید ، اسسٹنٹ ایڈیٹر اکرام رانا ، ممتاز اقتصادی ماہر محمود مرزا ایڈووکیٹ، احسان دانش اور کبھی کبھار فیض احمد فیض بھی ! یہ لوگ ملکی ، قومی اور ملی مسائل پر غور و فکر بھی کرتے تھے ، مسائل کی سنگینی پر تڑپتے بھی تھے اور اس بات پر فکر مند بھی رہتے تھے کہ پاکستان کس طرف بڑھ رہا ہے۔ میرا زیادہ وقت چونکہ روز نامہ ’’ وفاق‘‘ کے دفتر میں گزرتا تھا اور کم و بیش سولہ گھنٹے میں وہاں کام کرتا تھا ۔ اس بنا پر میں ان نشستوں میں کبھی شریک تو نہ ہوا مگر اس کی خبریں میرے کانوں تک پہنچتی رہتی تھیں۔ پھر یہ نشست گاہ پروفیسر کرامت حسین جعفری کی تجویز پر مکتبہ کارواں سے محمود مرزا ایڈووکیٹ کے ہاں چلی گئی۔ اس اثناء میں جعفری صاحب کی نظر کافی کمزور ہوچکی تھی اور وہ کسی مدد گار کے بغیر وہاں نہیں آسکتے تھے لیکن محمود مرزا بہت دیر تک جعفری صاحب کی میز بانی کرتے رہے اور ان کو اپنی مجلسوں کی رونق بنائے رکھا۔ پروفیسر کرامت حسین جعفری کے ضمن میں یہ واقعہ بہت رُوح فرسا ہے جو پروفیسر ایس ایم شریف نے بیان کیا جو ایک زمانے میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے طالب علم تھے ۔ ان کو سید کرامت حسین سے بہت قربت تھی۔ وہ راوی ہیں کہ ایک روز دوپہر کے وقت دروازے کی گھنٹی بجی، میں باہر آیا تو جعفری صاحب سامنے کھڑے تھے ۔ چہرے سے پریشانی عیاں تھی ۔ میں نے انہیں کمرے میں بٹھایا، حال احوال پوچھے، فرمانے لگے ، میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا انہیں آرام کے لئے تنہا چھوڑا اور شام کو جب وہ بیدار ہوئے تو میں ان کے ساتھ سامنے والے باغ میں ٹہلنے لگا ۔ فرمانے لگے ! شریف بس اب تم چند دنوں میں سُن لو گے کہ جعفری مرگیا، میں نے یہ جملہ سُنا تو بہت پریشان ہوا ۔ میں نے کہا کہ جعفری صاحب یہ مایوسی کیسی اور کیوں۔ آپ کو تو میں نے ہمیشہ مسکراتے ، ہنستے ہنساتے دیکھا ہے۔ فرمانے لگے، میں صحیح کہہ رہا ہوں، میں نے پھر وجہ دریافت کی فرمانے لگے ! میں گھر پر تھا ، دروازے کی گھنٹی بجی، میں باہر آیا تو پولیس کے دو سپاہی کھڑے تھے ۔ کہنے لگے ۔۔۔ باوا تیرا نام ہے کرامت حسین جعفری؟ میں نے ان کی توُ تڑاخ سُنی، گھبراگیا ، کہنے لگے تجھے پولیس نے تھانے میں بُلایا ہے ، چل ہمارے ساتھ! میں ان کے ساتھ چل دیا ، وہاں پہنچتے ہی ایس ایچ او نے آڑے ہاتھوں لیا اور کہا ’’تُوں ایں کرامت حسین؟ سانوں وخت پایا ای‘‘(تم کرامت حسین ہو جس نے ہمیں مصیبت میں ڈال رکھا ہے)، میں نے جواب دیا یہ نام میرا ہی ہے لیکن میں نے آپ کو کیا مصیبت ڈالی ہے۔ تھانیدار بو لا توُ اردو ڈائجسٹ میں مضامین لکھتا ہے۔’’ خبر دار آئند ہ ایہوجئی حرکت کیتی ! تیرے چِٹے وال ویکھ کے چھڈ دتا اے‘‘ یہ کہتے ہوئے جعفری صاحب کی آنکھیں ڈُب ڈبا گئیں ، وہ خاموش ہوگئے ۔ ان پر کیا بیتی ہوگی جس کا انہوں نے اتنا اثر لیا۔ ٹھیک تین روز بعد خبر آگئی کہ کرامت حسین جعفری داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں۔ میں اپنے استاد ، مربی اور محسن سید کرامت حسین جعفری کے جنازے میں تو شریک نہ ہوسکا مگر رسمِ قُل میں شرکت کے لئے جب ماڈل ٹاؤن میں ان کی قیام گاہ پر حاضر ہوا تو میں نے اس وقت کی بے شمار نامور شخصیتوں کو جعفری صاحب کو ایصال ثواب کے لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھا ۔ ان میں دورِ حاضر کے اردو کے سب سے بڑے شاعر فیض احمد فیض بھی تھے جو قیام پاکستان سے قبل ایم اے او کالج امرتسر میں پروفیسر کرامت حسین جعفری کے رفیق کار رہے تھے