دربار صحافت

ڈاکٹر سرفراز نعیمی از جمیل اطہر

ناگواری جھیلنے کا صلہ

ڈاکٹر سرفراز نعیمی از جمیل اطہر

ڈاکٹر سرفراز نعیمی، لاہور میں اہل سنت والجماعت کے نہایت اعتدال پسند اور میانہ رو عالم دین، حضرت مولانا مفتی محمد حسین نعیمی کے صاحبزادے تھے، وہ اپنے عظیم والد کی طرح عقیدہ و مسلک کے پکے اور اپنے اسلاف کی روایات کے سچے علم بردار، اللہ تعالی نے انہیں دینی علوم کے ساتھ ساتھ اعلی دُنیوی تعلیم کی نعمت سے بھی سرفراز کیا تھا۔ ہمارے دوست جناب مصطفی صادق نے جب سردار فاروق احمد خان لغاری کو (جو اس وقت صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منصب پر فائز تھے) اسلامی نظریاتی کونسل کی رُکنیت کے لئے اُن کا نام تجویز کیا اور ان کا سوانحی خاکہ اُن کے سامنے رکھا تو وہ دینی علوم اور جدید تعلیم کے متعلق ان کی اہلیت و صلاحیت جان کر حیرت میں ڈوب گئے۔
ڈاکٹر سرفراز نعیمی اُن معدودے چند علماء میں شامل تھے جنہوں نے اصطلاحاً نہیں بلکہ عملاً درویشی کی زندگی بسر کی، میں نے جب رائل پارک میں روزنامہ ’’تجارت‘‘ کا دفتر قائم کیا تو ایبٹ روڈ سے داخل ہونے والی تجارت سٹریٹ میں بائیں ہاتھ پر ایک چھوٹے سے پریس کے باہر میں نے بارہا اُنہیں اپنے موٹر سائیکل کو تھامے کھڑا دیکھا۔ اس پریس یا دفتری خانہ میں وہ طباعت کا کوئی کام کراتے تھے یا کتابوں کی جلد بندی لیکن سادگی کا یہ پیکر کسی کروفر اور کسی محافظ کے بغیر اس پریس کے باہر اکثر دکھائی دیتا۔ اس پریس میں غالباً بیٹھنے کی کوئی جگہ بھی نہیں تھی۔ اس لئے وہ باہر کھڑے ہو کر ہی پریس کے عملہ سے محو گفتگو رہتے۔
ڈاکٹر صاحب سے میری نیازمندی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب صُوفی غلام سرور نقشبندی مجددی نے امام ربانی حضرت مجدد الف ثانیؒ کے افکار اور تعلیمات کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے ’’حضرت مجدد الف ثانی سوسائٹی‘‘ کی داغ بیل ڈالی جو ہر سال امام ربانی کانفرنس کا انعقاد کرتی ہے اور 28 صفرالمظفر کو حضرت مجدد الف ثانیؒ کے عُرس کے موقع پر ممتاز اہل علم اور اہل قلم سے مضامین لکھواکر اخبارات و رسائل میں ان کی اشاعت کا اہتمام کرتی ہے۔ اس طرح کی ایک کانفرنس میں ہم نے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو بھی شرکت کی دعوت دی۔ اُنہوں نے ازراہ کرم یہ دعوت کسی تأمل کے بغیر قبول کرلی او رکانفرنس میں شریک ہوئے۔ اُنہیں دوبارہ فون کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی اور نہ ہی یاد دھانی کے لئے کوئی آدمی بھیجنا پڑا۔ وہ اپنے موٹر سائیکل پر فلیٹیز ہوٹل پہنچے۔ پارکنگ میں موٹر سائیکل کھڑی کی، ہوٹل کے اندر تشریف لائے، نہ اُن کے دائیں طرف کوئی نعرے بلند کرنے والا تھا اور نہ ہی اُن کے بائیں جانب حضرت اور اعلیٰ حضرت پکارنے والے عقیدت مندوں کی کوئی جماعت تھی، اللہ اللہ یہ کیسے عالم دین ہیں جن کے پاس پجارو ہے نہ پراڈو جو جامعہ نعیمیہ سے موٹر سائیکل پر باہر نکلتے ہیں، اپنے کام خود کرتے ہیں، لوگوں میں عام آدمی کی طرح گُھل مل کر رہتے ہیں۔ علم کا کوئی تکبر نہ مولانا مفتی محمد حسین نعیمی رحمتہ اللہ علیہ کی مسند کے جانشین ہونے کا کوئی زُعم۔ میں ذکر کررہا تھا حضرت مجدد الف ثانی کانفرنس میں اُن کی شرکت کا، اُنہوں نے اپنے مقالہ میں حضرت کے کارناموں کا ہی ذکر نہ کیا بلکہ معاشرے میں موجود خرابیوں اور مفاسد کی بھی نشان دہی کی اور یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے زمانے میں ہمارا معاشرہ جن بُرائیوں میں مبتلا تھا وہ اب بھی کسی نہ کسی شکل بلکہ بعض مواقع پر بدتر یا بدترین صورت میں معاشرے کو ابتری کا شکار کر رہی ہیں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ مجدد الف ثانیؒ اپنے زمانہ ہی کے لئے نہیں تھے بلکہ آج کا دور بھی کسی شیخ احمد فاروق سرہندی کی تلاش میں ہے جو گُرز لے کر نکلے اور توہمات اور بد عقیدگی کے ان بُتوں کو پاش پاش کرے جنہوں نے ہمیں قرآن و سنّت کی اصل تعلیمات سے دُور کررکھا ہے مجھے اُن کے یہ ارشادات اتنے اچھے لگے کہ میں نے بے اختیار اُن کا مقالہ اپنی کتاب ’’شیخ سرہند‘‘ میں شامل کیا۔
ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے سادہ طرز زندگی کے کئی نقوش ذہن میں پہلے سے موجود تھے لیکن ایک گہرا اور انمٹ نقش اُنہوں نے اُس وقت چھوڑا جب مصطفی صادق اور میں موٹروے پر کار کے ذریعے اسلام آباد سے لاہور آرہے تھے اور چائے پینے کے لئے بھیرہ کے مقام پر رُکے، ہم نے دیکھا کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی بھی ایک بس سے اُترے، ہماری ان کے ساتھ علیک سلیک ہوئی، ہم نے اکٹھے چائے نوش کی اور ڈاکٹر صاحب سے دریافت کیا کہ وہ اسلام آباد کس مقصد سے گئے تھے اور بس سے سفر کیوں کررہے ہیں؟ ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا، ’’میں ایک میٹنگ میں شرکت کے لئے آج صبح جہاز کے ذریعے لاہور سے اسلام آباد گیا تھا اور مجھے آج شام کی پرواز سے لاہور واپس جانا تھا مگر یہ میٹنگ توقع سے کہیں پہلے ختم ہوگئی اور میں نے شام کی پرواز کے انتظار میں کئی گھنٹے اسلام آباد میں گزارنے کے بجائے بس میں واپس لاہور جانے کافیصلہ کیا۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب کو کار میں لاہور چلنے کی دعوت دی جو اُنہوں نے بخوشی قبول کرلی۔ اس سفر میں کئی موضوعات پر اُن سے گفتگو کرنے اور اُن کے ملفوظات سے استفادہ کا موقع ملا۔ ہم اپنی گفتگو میں خوب منہمک تھے اور گاڑی سمن آباد موڑ کے قریب پہنچ چکی تھی میں نے مصطفی صادق صاحب سے سرگوشی کی کہ ہم ڈاکٹر صاحب کو گڑھی شاہو میں جامعہ نعیمیہ چھوڑ آتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کو بھی ہمارے اس ارادے کی بھنک پڑ گئی، اُنہوں نے اصرار کیا کہ ہم انہیں سمن آباد موڑ پر ہی اتار دیں۔ ہماری خواہش کے باوجود وہ اس امر پر آمادہ نہیں ہوئے کہ ہم اُن کی خاطر گڑھی شاہو کا سفر کریں، ہم نے اُنہیں سمن آباد موڑ پر اُتارا۔ اُنہوں نے وہاں سے رکشا لیا اور نہ ٹیکسی لی، لپک کر وہ ایک بس میں سوار ہوگئے۔ یہ تھے ہمارے محبوب رہنما اور قائد۔ شمع تحفظ ختم نبوت کے پروانے۔ڈاکٹر سرفراز نعیمی۔ وہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں جیسی زندگی گزارنے والے ایک عاشق رسولؐ تھے، وہ اپنے بعد آنے والوں کے لئے ایسی شاندار مثالیں چھوڑ گئے ہیں جن پر اہل سنت والجماعت کے وابستگان ہمیشہ فخر و ناز کرتے رہیں گے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب بعض غیر ملکی اخبارات نے کارٹونوں کے ذریعے توہین رسالت کا ارتکاب کیا تو اہل لاہور اور اہل پاکستان کے جذبات و احساسات بہت مشتعل تھے، ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے اللہ کے محبوبؐ کے عشق سے سرشار ہو کر اس تحریک کی جرأت مندانہ قیادت کی۔ اس وقت کے صوبائی گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول اس پر بہت سیخ پا ہوئے اور انہوں نے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو ضلعی خطیب کے منصب سے برطرف کردیا۔ اس واقعہ کے چند روز بعد لاٹ صاحب نے لاہور کے ایڈیٹروں کو مدعو کیا اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر اسلامیان لاہور کے غم و غصہ پر حکومت کے نقطہ نظر کا اظہار کیا، میں نے گورنر صاحب کی گفتگو سُنی اور اُن سے عرض کیا کہ جناب ! آپ نے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو خطابت سے ہٹادیا، وہ تو تمام مکاتیب فکر کے علماء میں سب سے زیادہ علم و دانش کے مالک ہیں اور اُنہوں نے ہمیشہ مسلکوں اور فرقوں میں اتحاد و یک جہتی کے لئے کام کیا ہے۔ آپ نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف یہ اقدام کرکے اچھا نہیں کیا، اُنہیں جس قدر جلد ممکن ہو اُن کے منصب پر بحال کردیں بلکہ آپ خود اُن کے گھر جاکر برطرفی کے اقدام پر اُن سے معذرت بھی کریں۔ گورنر صاحب کے لئے یہ گفتگو بڑی غیر متوقع اور حیران کُن تھی، اُن کا خیال تو یہ تھا کہ سب لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملائیں گے اور اس اقدام پر انہیں داد دیں گے۔ میرے بعد جناب مصطفی صادق اور جناب مجیب الرحمن شامی نے بھی ڈاکٹر صاحب کے بارے میں کلمہ خیر کہا اور اُن کے عمومی رویوں کو قابل تعریف اور قابل رشک قراردیا۔
ڈاکٹر سرفراز نعیمی سے میری آخری ملاقات باغ جناح کی مسجد دارالسلام میں اُس وقت ہوئی جب وہ جناب مجید نظامی کی اہلیہ ریحانہ مجید نظامی کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے وہاں تشریف لائے تھے۔ نماز سے قبل وہ لوگوں میں گِھرے ہوئے تھے۔ اچانک ان کی نظر اس خاکسار پر پڑی، وہ اپنی دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف لپکے، بغل گیر ہوئے، خیریت دریافت کی اور دُعاؤں سے نوازا۔
شہید پاکستان کا اعزاز پانے والے ڈاکٹر سرفراز نعیمی، علماء، مصلحین، صحافیوں اور دانش وروں کے اُس قافلے میں شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے پاکستان کی رفعت اور اسلام کی عظمت کے لئے اپنی جانیں نچھاور کردیں۔ جامعہ نعیمیہ، راغب نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے نصب العین کا پرچم تھامنے والے لاکھوں اہل سنت کی صورت میں وہ زندہ ہیں اور شہید کے متعلق ہمارا دین یہی تصور دیتا ہے کہ وہ زندہ و پائندہ ہیں۔ بارگاہ ایزدی میں دُعا ہے کہ سب سے اعلیٰ اور سب سے برتر بارگاہ میں بھی انہیں شہید الفت اور ہلالِ شجاعت کے مقام و مرتبہ پر فائز ہونے کا شرف اور سعادت نصیب ہو۔ آخر میں تنویر نقوی کا ایک شعر عرض کروں گا۔
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سُرخی ہے، آزادی کے افسانے کی