دربار صحافت

کلثوم نواز وزیر اعظم۔ آصف زرداری صدر۔ نیا فارمولہ

جاتی عمرا کی خبریں تو یہی ہیں کہ میاں نواز شریف کسی بھی قسم کا سرنڈر کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ایک اندازہ تو یہی تھا کہ جی ٹی روڈ یاترا کے بعد میاں نواز شریف کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ وہ بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ بلکہ خبریں تو یہ ہیں کہ جی ٹی روڈ مارچ کے بعد وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جنہوں نے انھیں گھر بھیجا ہے وہ بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ اس لیے اب انھیں گھر بھیجنے والی قوتوں کے پاس نواز شریف کی شرائط ماننے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ نواز شریف پوری قوت سے ٹکرانے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ وہ مشاورت بھی انھیں سے کر رہے ہیں جو ان کے ہم خیال ہیں۔ جن کو ان سے اختلاف ہے ان کو مشاورتی اجلاسوں میں بلایا بھی نہیں جا رہا۔ اسی لیے چوہدری نثار علی خان سمیت کئی بڑے نام نظر نہیں آرہے۔

اگر یہ مان لیا جائے کہ نواز شریف نے لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو سوال یہ ہے کہ ان کی حکمت عملی کیا ہے۔ ان کا روڈ میپ کیا ہے۔ منصوبہ کیا ہے۔ میاں نواز شریف ایک دوہری حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔ وہ ایک طرف سڑکوں پر رہنے کا پلان بنا رہے ہیں، دوسری طرف وہ پارلیمنٹ کے اندر لڑائی لڑنا چاہتے ہیں۔ جی ٹی روڈ کے سفر نے نواز شریف کو یہ حوصلہ دے دیا ہے کہ انھیں سڑکوں پر آنے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کام وہ اکیلے کر سکتے ہیں۔

لیکن آئینی ترامیم کے لیے انھیں کم از کم پیپلزپارٹی کی اشد ضرورت ہے اس کے بغیر یہ کام مکمل نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ بلاول بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ نواز شریف سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ نواز شریف سے ملاقات تو دور کی بات فون بھی نہیں سنیں گے۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آصف زرداری ایسا کوئی اعلان نہیں کر رہے ہیں۔ وہ لاہور پہنچ گئے ہیں۔ ذمے دار ذرایع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ بیک چینل پر بات طے بھی ہو رہی ہے اور اس بات کے قوی امکان ہیں کہ پیپلزپارٹی اور نواز شریف کے درمیان ایک معاہدہ ہو جائے۔

نواز شریف پہلے مرحلہ میں چاہتے ہیں کہ وہ کلثوم نواز کو رکن قومی اسمبلی منتخب کروائیں۔ یہ نواز شریف کے نئے روڈ میپ کے لیے اشد ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ کلثوم نواز کے کاغذات پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہو گئی ہے لیکن ن لیگ کے ذرایع یہی کہہ رہے کہ اللہ کی طرف سے سب خیر ہے اور الیکشن کمیشن سے کاغذات پاس ہو جائیں گے۔ مسئلہ عدالت میں ہو گا۔ لیکن میں اپنے پہلے کالم میں وہ منظر نامہ لکھ چکا ہوں جس میں کلثوم نواز کی نا اہلی پر بات کی گئی ہے۔لیکن اب وہ منظر نامہ دیکھ لیں جس میں کلثوم نواز کے کاغذات منظور ہو جاتے ہیں اور وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہو جاتی ہیں۔

میرے خیال میں اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ اگر کلثوم نواز رکن قومی اسمبلی منتخب ہو جاتی ہیں تو وہ فوری طور پر وزیر اعظم بن جائیں گی۔ ان کو رکن قومی اسمبلی صرف رکن رکھنے کے لیے نہیں منتخب کروایا جا رہا ہے ان کی اگلی منزل وزارت عظمیٰ ہے۔ ان کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد پارٹی کے اندر سے یہ مطالبہ شروع ہو جائے گا کہ انھیں فوری طور پر وزیر اعظم بنایا جائے۔ ان کے وزارت عظمیٰ پر پہنچ جانے کو میاں نواز شریف کی ایک بڑی کامیابی سمجھا جائے گا۔ بلکہ ان قوتوں کی ہار سمجھی جائے گی جنہوں نے اتنی محنت سے میاں نواز شریف کو وزیر اعظم ہاؤس سے نکالا ہے۔ خود میاں نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ وہ کچھ بھی کر لیتے انھوں نے نکلنا ہی تھا۔ اس لیے اب یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ وہ قوتیں کلثو م نواز کو بطور وزیر اعظم کیسے مان لیں گی۔ لیکن بہر حال اگر میاں نواز شریف محاذ آرائی کے اس ماحول میں بھی کلثوم نواز کووزیر اعظم بنوالیتے ہیں تو یہ ان کی ایک بڑی کامیابی ہو گی جس کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ یہ ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ ہے ۔ اس لیے اس کا فیصلہ بھی چند روز میں ہو جائے گا۔

میاں نواز شریف کے آئینی ترامیم کے پیکیج کا خواب پیپلزپارٹی کی مدد کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔ کہتے ہیں سیاست میں ضرورت اور موقع کی قیمت ہوتی ہے ۔ اس لیے اس وقت پیپلزپارٹی کی بڑی قیمت ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف سابق صدرآصف زرداری کو پاکستان کی صدارت کی پیش کش کر رہے ہیں۔ ممنون حسین کی جگہ آصف زرداری کو دوبارہ صدر بنانے کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ ن لیگ آصف زرداری کو بتا رہی ہے کہ ان پر بھی حملہ ہونے والا ہے۔ اس حملہ سے بچنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہ دوبارہ ملک کے صدر بن جائیں۔ صدر بننے سے انھیں دوبارہ استثنیٰ مل جائے گا۔ ان پر کوئی مقدمہ قائم نہیں ہو سکے گا اور وہ ہر قسم کے حملہ سے محفوظ ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ اسمبلیاں تو اپنی مدت پر ختم ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ وزیر اعظم بھی گھر چلے جائیں گے۔ لیکن اگر آصف زرداری اس وقت صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہوں گے۔ اس طرح وہ 2022 تک محفوظ ہو جائیں گے۔ معاملہ اتنا سنجیدہ ہے کہ بلاول بھی لاہور پہنچ گئے ہیں۔

یہ تاثر ہے کہ بلاول اس ڈیل کے خلاف ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری کے صدر بننے کوبلاول اپنے سیاسی مستقبل کی راہ میں رکاوٹ دیکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اگلے انتخاب کے بعد خود کو وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں بلکہ وہ خود کو کم از کم قائد حزب اختلاف دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں شاید ان کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی جب آصف زرداری صدر بن جائیں گے تو ان کے سیاسی مستقبل پر اس کا کیا سیاسی اثر ہو گا۔اس لیے اگر بلاول مان گئے تو ڈیل ہو سکتی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن تو پہلے ہی نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ اسفند یار ولی خان کی تو سیٹیں کم ہیں لیکن وہ بھی ساتھ ہیں۔ شیر پاؤ بھی ساتھ ہیں۔ محمود اچکزئی بھی ساتھ ہیں۔ ایسے میں اگر پیپلزپارٹی مان جائے تو نواز شریف ایک آئینی پیکیج کے لیے ایک بھر پور ماحول بنانے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ ایم کیو ایم کو بھی منانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا وزیر اعظم بننے کے فوری بعد دورہ کراچی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ کراچی کے لیے 25 ارب کا پیکیج بھی اسی لیے ہے۔ گورنر سندھ کی جانب سے ایم کیو ایم کا کراچی مینڈیٹ تسلیم کرنے کی پریس کانفرنس بھی ایم کیو ایم کو منانے کی کوشش ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فاروق ستار سیاسی فیصلے کرنے میں کس حد تک آزاد ہیں ۔ یہ دیکھنے کی بات ہے۔ لیکن ن لیگ ان کو اس آئینی پیکیج پر منانے کی کوشش کر رہی ہے۔

میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ میں بھی دوبارہ درخواستیں دائر کر دی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ میاں نواز شریف کو چاہے عدلیہ سے جتنے بھی گلے شکوے ہیں لیکن وہ ملک کے عدالتی نظام کے کسی بھی قسم کے بائیکاٹ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ بلکہ وہ عدالت سے ریلیف لینے کا ہر موقع استعمال کریں گے۔ ان کی ان درخواستوں کے مستقبل کے حوالہ سے قانونی ماہرین زیادہ پر امید نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہر آپشن کو آخری حد تک استعمال کرنا چاہیے۔