دربار صحافت

ہم سے پہلے …. جاوید چوہدری

ہم سے پہلے …. جاوید چوہدری

بھارت کے کسی صحافی نے اٹل بہاری واجپائی سے جنرل پرویز مشرف کے بارے میں پوچھا ‘واجپائی نے مسکرا کر جواب دیا ’’مشرف کو سینس آف ہسٹری نہیں تھی‘‘ آپ کو یہ جواب یقینا عجیب محسوس ہوگا لیکن آپ جب گہرائی میں جا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا لیڈروں اور قوموں کے لیے سینس آف ہسٹری لازم ہوتی ہے‘ آپ اگرتاریخ کے بہاؤ کو نہیں سمجھتے تو آپ حال سے بھی ناواقف ہوتے ہیں اور آپ مستقبل بھی تعمیر نہیں کر سکتے‘ آپ خلاء میں گردش کرتے رہتے ہیں‘ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور دوسری تلخ حقیقت یہ ہے ہم اور ہمارے لیڈر دونوں سینس آف ہسٹری سے محروم ہیں چنانچہ ہم ستر برس سے اندھوں کی طرح ہاتھی کی دم کو پورا ہاتھی سمجھ رہے ہیں اور یہ ہمارا بنیادی مسئلہ ہے۔

میں اپنی جذباتی قوم کو پوری ’’سینس آف ہسٹری‘‘ نہیں دے سکتا تاہم میں دونقطے پیش کرسکتا ہوں‘ ہم ان نقطوں پر غور کر کے اپنے بے شمارفکری قبلے درست کر سکتے ہیں‘ ہم پہلے جمہوریت کی طرف آتے ہیں‘ پاکستان میں ستر برسوں میں 23 سویلین وزیراعظم آئے‘ چھ وزراء اعظم نگران اور 17 باقاعدہ وزیراعظم بنے‘ ان17 وزراء اعظم میں سے کوئی اپنی مدت پوری نہیں کر سکا‘ یہ تمام لوگ خوفناک انجام کا شکار بھی ہوئے‘ آپ خان لیاقت علی خان سے شروع کر لیجیے‘ یہ چار سال وزیراعظم رہے ‘ راولپنڈی میں شہید کر دیے گئے‘ خواجہ ناظم الدین دو سال وزیراعظم رہے‘ ہٹا دیے گئے اور باقی زندگی مشرقی پاکستان میں گمنامی میں گزار دی ‘ محمد علی بوگرہ سال سال کے دو دورانیے میں دو سال وزیراعظم رہے‘ ہٹا دیے گئے اور خاموشی سے ڈھاکا میں فوت ہوگئے ‘ چوہدری محمد علی ایک سال وزیراعظم رہے۔

ہٹا دیے گئے اور باقی زندگی عسرت میں گزار دی‘ حسین شہید سہروردی ایک سال وزیراعظم رہے‘ ہٹا دیے گئے‘ مایوس ہو کر وطن چھوڑا اور لبنان میں انتقال کر گئے‘اسماعیل احمد چندریگر دو ماہ وزیراعظم رہے‘ ہٹا دیے گئے اور مایوسی میں لندن میں فوت ہوئے‘ فیروز خان نون دس ماہ وزیراعظم رہے‘ ہٹا دیے گئے‘ سیاست سے کنارہ کش ہوئے اور اپنے گاؤں نورپور نون میں انتقال کر گئے‘ نور الامین 13 دن کے لیے وزیراعظم رہے‘ ہٹا دیے گئے اور راولپنڈی میں گمنامی میں انتقال کر گئے‘ ذوالفقار علی بھٹو پہلے تین سال سات ماہ وزیراعظم رہے پھر چار ماہ کے لیے وزیراعظم بنے‘ ہٹائے گئے اور پھانسی چڑھا دیے گئے‘ محمد علی جونیجو اڑھائی سال وزیراعظم رہے‘ ہٹا دیے گئے اور مایوسی میں انتقال ہوا‘ بے نظیر بھٹو دو بار وزیراعظم بنیں دونوں بار اڑھائی اڑھائی سال بعد ہٹا دی گئیں‘ جلا وطن رہیں اور آخر میں شہید ہو گئیں‘ میاں نواز شریف دو بار وزیراعظم بنے‘ دونوںبار اڑھائی اڑھائی سال بعد ہٹا دیے گئے‘ جلاوطن ہوئے‘ واپس آئے‘ تیسری بار وزیراعظم بنے اور ہٹائے جا رہے ہیں۔
Advertisement

میر ظفر اللہ جمالی واحد بلوچ وزیراعظم تھے‘پونے دو سال بعد ہٹا دیے گئے اور مایوسی‘ تاسف اور گمنامی میں زندگی گزار رہے ہیں‘ شوکت عزیز تین سال وزیراعظم رہے‘ ملک سے باہر گئے اور دوبارہ واپس نہیں آئے‘ یوسف رضا گیلانی چار سال وزیراعظم رہے‘ ہٹا دیے گئے‘ عدالتوں میں کیس بھگت رہے ہیں اور راجہ پرویز اشرف آٹھ ماہ وزیراعظم رہے ‘ یہ بھی اس وقت نیب کے مقدمات فیس کر رہے ہیں‘ وزراء اعظم کی اس ہسٹری سے تین سینس ملتی ہیں‘ اول‘ہمارا کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرتا‘ یہ ہٹایا جاتا ہے اور یہ ہٹائے جانے کے بعد عبرت اور مایوسی کی زندگی گزارتا ہے‘دوم‘ ہمارا ہر وزیراعظم عدالتوں میں دھکے ضرور کھاتا ہے اور یہ دھکے کھاتے کھاتے آخر میں گمنامی میں مر جاتا ہے اور سوم ملک کے 17وزراء اعظم میں سے گیارہ انتقال کر چکے ہیں‘ قوم ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے علاوہ کسی کی قبر سے واقف نہیں‘ یہ تمام قصہ پارینہ بن چکے ہیں‘ آپ اب دوسری سینس آف ہسٹری ملاحظہ کیجیے۔

پاکستان میں چار مارشل لاء لگے‘ جنرل ایوب خان‘جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے‘ جنرل یحییٰ خان کے سوا تین جرنیلوں نے دس دس سال حکومت کی‘ جنرل ضیاء الحق کا اقتدار شہادت کے بعد ختم ہوا جب کہ باقی تینوں جنرلز عوامی تحریک کے ذریعے فارغ ہوئے ‘ تینوں کے خلاف مقدمے بنے لیکن کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوا‘ کسی کو سزا نہیں ہوئی‘ پاکستان میں جب بھی فوجی حکومت آئی خطے میں کوئی نہ کوئی جنگ ضرور ہوئی ‘امریکا نے پاکستان کو اپنا اتحادی بنا کر اس جنگ میں ضرور جھونکا اور آخر میں پاکستان اور فوجی آمر دونوں کو اکیلا چھوڑ دیا‘ جنرل ایوب کے دور میں امریکا اور سوویت یونین کی ’’کولڈ وار‘‘ہوئی‘ پاکستان روس کے خلاف امریکا کا اتحادی بنا‘ ہم نے اپنے فوجی اڈے تک دیے اور ایوب خان کے دور میں 1965ء کی جنگ بھی ہوئی‘ امریکا نے یحییٰ خان کو چین کے لیے استعمال کیا‘ 1971ء کی جنگ ہوئی‘ پاکستان ٹوٹ گیا اور امریکا نے یحییٰ خان کو بھی اکیلا چھوڑدیا‘ جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان وار ہوئی‘ امریکا نے پاکستان کو جی بھر کر استعمال کیا اور اکیلا چھوڑ دیا اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ہوئی‘پاکستان اس بار بھی امریکا کااتحادی بنا اور خوفناک نقصانات اٹھائے۔

ہم اگر تاریخ کی ان دونوں سینسز کو سامنے رکھیں تو ہم بڑی آسانی سے چند نتائج اخذ کر سکتے ہیں‘ ہمارا پہلا نتیجہ یہ ہو گا پاکستان میں کوئی جمہوری وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکتا‘ اقتدار سے رخصت ہونے والا ہر وزیراعظم گمنامی‘ جلاوطنی اور مقدمے بھگتے گا اور اگریہ خاموشی اختیار نہیں کرے گا تو اس کی قبر پر گز گز لمبی گھاس اگ آئے گی‘دوسرا نتیجہ‘ فوجی اقتدار کم از کم دس سال پر محیط ہو گا‘ ان دس برسوں میں کوئی نہ کوئی جنگ ضرور ہوگی‘پاکستان اس جنگ کا اتحادی بنے گا ‘ امریکا آخر میں پاکستان اورفوجی آمر دونوں کو تنہاچھوڑد ے گا‘ پاکستان پر مزید امریکی پابندیاں لگیں گی‘ ملک مزید کمزور ہو گا‘ جمہوری حکومت آئے گی‘ نئے لیڈر ڈویلپ ہوں گے‘ یہ ایک دو برسوں کے اقتدار کے بعد اختیار مانگیں گے ‘یہ ہٹا دیے جائیں گے‘ یہ مقدمے بھگتیں گے‘ یہ جلاوطن ہوں گے اور یہ تڑپتے سسکتے ہوئے گمنامی میں انتقال کر جائیں گے ‘ تیسرا نتیجہ ‘ ملک میں ہر ’’تبدیلی‘‘ کے بعد پہلے سے زیادہ کم عقل‘ نالائق‘ ناتجربہ کار اور کرپٹ لوگ اوپر آئیں گے‘ یہ لوگ بھی جب ضمیر کا بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک جائیں گے۔

یہ جب ملک اور سسٹم سے مخلص ہو جائیں گے تو یہ بھی ہٹا دیے جائیں گے اور ان کی جگہ ان سے بدتر لوگ سامنے آ جائیں گے‘آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ کسی دن پارلیمنٹس کا ڈیٹا جمع کر لیجیے آپ کو ہر نئی پارلیمنٹ پرانی پارلیمنٹ کے مقابلے میں زیادہ نالائق اور زیادہ کرپٹ لوگوں کا مجمع ملے گی‘ آپ کو ملک میں ہر وہ شخص بھی زیادہ دیر تک مسند اقتدار پر نظر آئے گا جس نے کچھ نہیں کیا اور ہر اس شخص کی مدت کم ہوگی جو کچھ کرنے کی غلطی کر بیٹھا ہو‘ ایوب خان کے مارشل لاء سے پہلے سات لوگ مسند اقتدار تک پہنچے‘ ان میں سے ایک نے آئین بنانے کی غلطی کی اور وہ عبرت کی نشانی بن گیااور چوتھا نتیجہ ‘ہماری ستر برس کی تاریخ نے ہماری جمہوریت اور فوج دونوں کے درمیان اختلافات پیدا کیے‘ دونوں کے درمیان خلیج پیدا ہوئی اور جمہوریت اور فوج دونوں اس خلیج سے کمزور ہوتے چلے گئے‘اس خلیج نے ہمارا بیوروکریٹک سسٹم بھی تباہ کر دیا‘ ملک میں احتساب اور انصاف کا جنازہ بھی نکل گیا اور ملک میں سیاسی چیلوں کا ایک ایسا غول بھی پیدا ہوگیا جو ہر وقت اقتدار کی خوراک کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے‘ یہ لوگ پرانا تالاب سوکھنے سے پہلے اڑ جاتے ہیں اور جہاں نئے چشمے کے آثار پیدا ہوتے ہیں یہ وہاں ڈیرے ڈال لیتے ہیں‘ ان سیاسی چیلوں نے پورے ملک کا کلچر خراب کر دیا ‘ ہم سب مفاد پرست ہو چکے ہیں اور ہم سب روز داؤ لگانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں‘ ہمارا پورا معاشرہ گل سڑ چکا ہے۔

ہمارے پاس اب کیا آپشن ہیں‘ ہمارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ ہم یہ سلسلہ اسی طرح چلنے دیں اور قدرتی عمل کے بعد تاریخ کے خاموش قبرستان میں دفن ہو جائیں یا پھر ہم تاریخ کا دھارا بدل دیں‘ ہم اگر دوسرا آپشن لیتے ہیں تو پھر ہمیں یہ بات پلے باندھنا ہو گی کہ یہ ملک فوج کے بغیر بچ نہیں سکتا اور یہ جمہوریت کے بغیر چل نہیںسکتا چنانچہ دونوں طاقتوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا‘ دوسرا‘ فوج اور عدلیہ کسی قیمت پر سیاست میں مداخلت نہ کریں‘ سیاسی جنگیں ہونے دیں‘ یہ جنگیں سیاست کو خود بخود ٹھیک کر لیں گی اور تیسرا‘سیاسی قائدین قسم کھا لیں یہ پارٹی کو پارٹی کی طرح چلائیں گے‘ یہ اسے جاگیر یا فیکٹری نہیں بنائیں گے‘ یہ دوسروں کوغیر جمہوری طریقے سے ہٹائیں گے بھی نہیں اور عوام بھی یہ فیصلہ کر لیں ہم اپنے ووٹ کو جائے نماز کی طرح پاک رکھیں گے‘ یہ ملک بچ جائے گا ورنہ دوسری صورت میں ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں بچے گا اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا احتساب اور انصاف کے بغیرکوئی ملک ترقی نہیں کرتا‘ ترقی بالٹی کی طرح ہوتی ہے اور کرپشن اور ناانصافی اس بالٹی کے سوراخ ہوتے ہیں‘ ہم جب تک یہ سوراخ بند نہیں کریں گے ہماری بالٹی اس وقت تک نہیں بھرے گی چنانچہ میاں نواز شریف کی موجودگی میں ہو یا پھر ان کے بعد ہو ہمیں بہرحال احتساب اورانصاف کا مضبوط سسٹم بنانا ہوگا‘ ایک ایسا سسٹم جو اگر مشرق کو مغرب کہہ دے تو پھر مغرب مشرق ہو جائے‘ کوئی اس ہونے کو روک نہ سکے اور ہم اگر یہ نہیں کرتے تو پھر ہمارے ساتھ وہ ہو کر رہے گا جو ہم سے پہلے تاریخ میں ہم جیسی قوموں کے ساتھ ہوتا رہا تھا۔

………………..
کالم سہیل وڑائچ