خبرنامہ

اور فاٹا زیر ہو گیا..کالم.. اسداللہ غالب

میرے سامنے جو اخبارات ہیں، ان میں ایک کے سوا سبھی آرمی چیف کی شہہ سرخیوں سے لبریز ہیں۔
میرے پاس فطری طور پر یہی موضوع ہے جس پر قلم اٹھاؤں، ویسے تو میری کل ایک جید عالم دین سے ملاقات ہوئی ہے جو امریکہ اور مشرف کا کٹر حامی ہے، جہاد کا سخت مخالف ہے، امن کا پرستار ہے۔ حافظ سعید اور ساجد میر کے قبیلے کا ہے مگر انہیں اچھا نہیں سمجھتا، اس پر لکھوں گا تو اس کی قیمت مزید بڑھ جائے گی۔وہ امریکیوں کی آنکھوں میں مزید جچنے لگے گا، اخبار نویس کو اسی طرح کے الٹے سیدھے موضوع درکار ہوتے ہیں مگر جب آرمی چیف میڈیا پر چھائے ہوئے ہوں تو میں اپنے ملاقاتی پربعد میں بھی لکھ سکتا ہوں،ہو سکتا ہے،ا س دوران وہ اپنے خیالات پر نظر ثانی کر لے۔
موضوع تو ایک ا ور بھی ہے، سردیاں آ گئی ہیں ، بجلی کا استعمال کم ہو گیا ہے مگر لوڈ شیڈنگ نے قیامت ڈھا دی ہے، مسلسل چار روز سے صبح آٹھ سے دو بجے تک چھ گھنٹے بجلی بند رہتی ہے، اس دوران سب کچھ ٹھپ۔میری کل کائنات تو انٹر نیٹ ہی ہے، یہ بھی بجلی کے ساتھ ساتھ چلتاا ور بند ہوتا ہے۔اس اندھا دھند لوڈ شیڈنگ کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی، دو بجے کے بعد گھنٹہ پروگرام بھی جاری رہتا ہے۔ گھنٹہ گھر تو فیصل آباد میں ہے مگر لوڈ شیڈنگ نے یہ گھنٹہ گھر ہر گھر کا مقدر بنا دیا ہے۔ لوگوں کی نظریں ہمہ وقت گھڑی پر جمی رہتی ہیں۔میں فیروز پور روڈ پر رہائش پذیر ہوں ، یہاں صنعتیں بھی ہیں ، بازار بھی اور دیہاڑی مزدور بھی۔کوئی ہم سب کا والی وارث نہیں، بجلی کا کوئی افسر فون تک نہیں اٹھاتا۔پہلے چھ ماہ کے وعدے تک انتظار کیا، پھر دوسا ل کے وعدے کو نگاہ میں رکھا مگر اب سرکاری بولی یہ ہے کہ سن اٹھارہ میں بجلی آئے گی، اور اگر نہ آئی تو کون کسی سے پوچھ سکتا ہے، اس وقت تک حکومت کی ٹرم ختم ہو چکی ہو گی۔
میں کسی روز تفصیل سے اس امر کا جائزہ لینا چاہتاہوں کہ دہشت گردی نے ہمارا زیادہ نقصان کیا یا اندھیر گردی نے، اور جنرل راحیل سے بھی یہ سوال کروں گا کہ اگر وہ دہشت گردی کے خاتمے کے بجائے سارازور اندھیر گردی کے خاتمے پر لگاتے تو کیا یہ ملک کے لئے زیادہ اچھا نہ ہوتا، جنرل کیانی کہا کرتے تھے کہ امریکہ اگر پاکستان میں بجلی کا بحران حل کر دے تو ہمارے عوام واقعی سے امریکہ کو اچھا سمجھنے لگ جائیں مگر امریکہ کو کیا پڑی تھی کہ وہ ہمارا بھلاکرتا،ا س نے ہماری فوج کو دہشت گردی کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا۔ ادھر راحیل شریف بھی سانحہ پشاور کے بعد تل گئے تھے کہ وہ ان خون آشام بلاؤں کا قلع قمع کر کے رہیں گے ،سو اس طرح کچھ کچھ یہ مسئلہ تو حل ہو گیا ہے۔اور آج میرا موضوع بھی یہی ہے۔
شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کم وبیش ایک برس سے جاری ہے، اور اس میں کامیابی حاصل کی جا چکی ہے، اس کا اندازہ ا س امر سے ہوتا ہے کہ میران شاہ کے بازار میں جہاں خود کش جیکٹیں اور موت مسلط کرنے والے بم فروخت ہوتے تھے، وہاں جدید تریں سہولتوں سے لیس ایک ہسپتال کا افتتاح کیا گیا ہے، یہاں ایک کیڈٹ اسکول بھی قائم ہو گا،آرمی چیف نے یہیں کہیں ان قبائلیوں سے خطاب بھی کیا ہے جو وقتی طور پر گھر چھوڑ گئے تھے مگر اب واپس گھروں کو آ رہے ہیں۔یہ ایک شاندار کامیابی ہے اور ہر لحاظ سے قابل فخر بھی۔
ذرا اعداد و شمار آپ بھی ملاحظہ فرما لیجئے، آپ کے دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن ہو جائیں گے۔
قریب قریب تین لاکھ خاندان اجڑ گئے تھے، جن میں سے ایک لاکھ سے زائد اپنے گھروں میں آن بسے ہیں، واپس آنے والوں کی یہ شرح اڑتیس فی صد ہے۔شمالی وزیرستان میں پندرہ فی صد، جنوبی وزیرستان میں پندرہ فی صد،کرم ایجنسی میں پینتیس فی صد،اورکزئی ایجنسی میں چونتیس فی صد،اور خیبر ایجنسی میں اٹھہتر فی صد، خیبر ایجنسی کا کنٹرول تو سول انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا ہے، خدا کرے یہاں سوات والا تجربہ نہ دہرایا جائے کہ فوج کو پھر یہاں چھاؤنی ڈالنی پڑے، یہ کراچی تو ہے نہیں جہاں زرداری ، چانڈیو،خورشید شاہ، کائرہ یا قائم علی شاہ سیکورٹی اداروں کی قسمت کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ یہ تو علاقہ غیر ہے، ویسے کراچی بھی علاقہ غیر سے کیا کم ہے ۔ مگر وہاں8 جمہوریت ہے اور فاٹا میں جمہوریت کو قدم رنجہ فرمانے میں مزید ایک صدی درکار ہے، شاید جب چین اپنا کوریڈور مکمل کر لے تو ان کے رنگ میں یہ لوگ رنگے جائیں۔
مہاجرین کی واپسی کی رفتار پر آرمی چیف نے اطمینان کا اظہار کیا ہے اوریہ اعلان بھی کیا ہے کہ کوئی طاقت ضرب عضب کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو برباد کر کے رکھ دیں گے، ان کے سہولت کاروں کی بھی بیخ کنی کی جائے گی اور ان کو سرمایہ فراہم کرنے والوں کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ دہشت گردوں کا نیٹ ورک اور ان کے سہولت کاروں کا جال تو الا ماشاللہ ملک بھر میں پھیلا ہو اہے اور نیشنل ایکشن پلان آرمی چیف کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ہر جگہ ان کاپیچھا کریں، صدر اوبامہ تو کہتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے دنیا کے ہر ملک کو نشانہ بنا سکتے ہیں تو کیا ایک آرمی چیف کو اپنے ملک کے اندر یہ اختیار حاصل نہیں۔بالکل ہے، نیشنل ایکشن پلان یہ اختیار دیتا ہے ا ور پارلیمنٹ نے بھی اس پر مہر ثبت کی ہے ، اب یہ الگ بات ہے کہ چوں چراں ضرور کی جا رہی ہے مگر فوج اور رینجرز اس پر کیوں کان دھریں گے، وزیر اعظم نے بھی اس صورت حال پر غور کرنے کے لئے اعلی سطحی اجلاس بلایا، جس میں تمام صاحبان اختیارموجود تھے۔اس اجلاس کی اندر کی خبریں باہرآ گئی ہیں۔
کون ہے جو دہشت گردی کا خاتمہ نہیں چاہتا، جان تو ہر ایک کو پیاری ہے مگر دہشت گردوں کے سہولت کاروں ا ور سرمایہ کاروں کے پیٹ میں مروڑ ضرور اٹھ رہا ہے، وہ اپنا گریبان بچانا چاہتے ہیں ا ور ان کا نظرآنے والا گٹھ جوڑ بن چکا ہے۔ اس کی باز گشت پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی جہاں حکومتی نمائندے مشاہدہ اللہ خان نے کہا کہ ملک حالت جنگ میں ہے اور سندھ حالت بھنگ میں ہے، اگرچہ یہ ریمارکس کاروائی سے حذف کر دیئے گئے مگر میڈیا نے انہیں نمایاں طور پر شائع کیا۔ اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملات کس حد گمبھیر ہو گئے ہیں۔ فوج کے لئے ایسے ہی حالات چلینج کی حیثیت رکھتے ہیں اور جنرل راحیل جو میجر شبیر نشان حیدر کے بھائی ہیں ، ہر چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لئے بے چین ہیں۔
December 21, 2015