خبرنامہ

اے خدا میرے بچے سلامت رہیں۔۔اسداللہ غالب

ہ دعا پاکستان آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ہے۔
اور یہی دعا میری بھی ہے۔ملک بھر کے عوام کی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ کہ کہ کسی بیمہ کمنی کا اشتھار چھپتا تھا جس کا عنوان تھا خدا کرے میرے ابو سلامت رہیں۔نہ جانے اس دور کے ابو کو کیا خطرات لاحق تھے، شوگر نہیں تھی، دل کا عارضہ نہیں تھا، کینسر نہیں تھا اور ڈینگی کاتو کسی نے نام تک نہ سنا تھا، پھر بھی یہ اشتھار بہت زیادہ چھپا، بیمہ کمپنی نے اس جذباتی اشتھار کا بہت زیادہ فائدہ بھی اٹھایا ہوگا۔
پھر یہ اشتھار بند ہو گیا مگر کچھ لوگوں کے بچوں کی زبان پر یہی دعا تھی کہ خدا کرے میرے ابو سلامت رہیں، یہ ابو وہ تھے جو کما کما کر سوئس اکاؤنٹ بھر رہے تھے،لندن، دوبئی، نیویارک، پیرس میں جائدادیں خرید رہے تھے، ظا ہر ہے ان کے بچوں نے تو یہی دعا کرنی تھی کہ اے خدا میرے ابو سلامت رہیں۔وہ ٹیرر کورٹس کے عذاب سے محفوظ رہیں۔
اب حالات میں سنگین تبدیلی عمل میں آ گئی ہے جس کی بنا پر جنرل راحیل کے ہونٹوں پر نئی دعا ہے اور ہر پاکستانی کے ہونٹوں پر یہی دعا ہے کہ اے خدا میرے بچے سلامت رہیں۔
یہ دعا مانگنے والے جانتے ہیں کہ نائیجیریا کے ایک اسکول سے بوکوحرام کے دہشت گرد ایک ہی ہلے میں اسکول سے دو سو کم سن طالبات کو اٹھا کر گھنے جنگلوں میں لے گئے تھے۔اس سے پورے ملک کے بچوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور اب تک پورے ملک کے دس لاکھ بچوں نے اسکول سے منہ موڑ لیا ہے، ملک کے دو ہزار سے زاید اسکول مکمل طور پر تالہ بند ہیں اور جہاں کوئی اسکول کھولنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں کے ٹیچروں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ اب تک کوئی چھ سو ٹیچر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
یہ کیفیت اور قیامت صرف نائجیریا کا ہی مقدر نہیں آس پاس ، نائیجر ، کیمرون، چاڈ بھی متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں، یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ان ملکوں کے چودہ لاکھ سے زاید بچے دہشت گردوں کے خوف سے اسکول جانے کا نام نہیں لیتے۔
ایک سال قبل پاکستان میں بھی یہی قیامت ڈھائی گئی، پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیاا ور پہلے دس منٹ کے اندر انہوں نے ایک ہی ہال میں موجود ڈیڑھ سو بچوں کے سروں میں گولیاں داغیں، فوجی کمانڈوز کے پہنچنے قبل دہشت گردوں نے تما م کلاس روم کو چھلنی کر دیا،پرنسپل سمیت اسٹاف کے بیس مردا ور خواتین کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا، ایک خاتون ٹیچر کی لاش کی بے حرمتی کے لئے اس پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔
یہ قیامت صغری نہیں، قیامت کبری تھی، پاک فوج کا سربراہ تڑپ تڑپ اٹھا، کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر وہ پشاور جائے حادثہ پر پہنچا، ملک کی ساری سیاسی اور حکومتی قیادت بھی وہیں اکٹھی ہو گئی ۔ شہید بچوں کے غم زدہ والدین کو دلاسہ دیا گیا، زخمیوں کے علاج کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا گیا۔
اب اس سانحے کی پہلی برسی آئی تو ملک بھر میں ان معصوموں کو یاد کیا گیا، خود وزیر اعظم مرکزی تقریب میں شریک ہوئے، پانچ صوبوں کے وزرائے ا علی ،دو صوبوں کے گورنر بھی وہاں پہنچے۔
یہ ایک فطری رد عمل تھا، جس کے بچے بے دردی سے شہید ہوئے ہوں ، وہ ا س کربلا کو کیسے بھول سکتے تھے۔
مگر کچھ لوگ جو یا تو اوترے نکھترے تھے، بے اولاد تھے یا ان کے سینے میں گوشت پوست کے بجائے پتھر کے دل تھے، سخت چیں بجبیں ہوئے، کسی نے کہا کہ ان بچوں کو کیسے ہیرو بنا دیا گیا، وہ تو تعلیم کی غرض سے وہاں موجود تھے، غیر مسلح تھے، وہ تو لڑے بغیر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ،ان کی حفاظت کا فریضہ تو حکومت اور سیکورٹی اداروں پر عائد ہوتا تھا، اور ان کااحتساب ہونا چاہئے تھا کہ وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کیوں ناکام رہے، الٹا بچوں کو ہیرو بنا کر اپنی غفلت کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جتنے منہ ، اتنی باتیں، آئی ا یس پی آر نے ایک نیا قومی نغمہ ریلیز کیا کہ مجھے دشمن کے بچوں کو پڑٖھاناہے تو ستم ظریفوں نے اس پر اعتراض وارد کیا کہ اپنے بچوں کو تو پڑھا نہ سکے، دشمن کے بچوں کو کیا پڑھائیں گے، کسی نے کہا کہ دشمن کے بچوں کو پڑھا پڑھا کر نتیجہ دیکھ لیا، کوئی فضل اللہ بن گیا ،کوئی بیت اللہ محسود۔
میں نے پہلے کہا کہ ایسی باتیں وہ لوگ بنا رہے ہیں جو اوترے نکھترے ہیں، بے اولاد ہیں،یا وہ سنگدل واقع ہوئے ہیں۔ اور ان کی خواہش ہے کہ پاکستان بھی نائیجیریا، چاڈ، کیمرون اور نائیجر بن کر رہ جائے، دہشت گرد ہماری بچیوں کو اٹھا کر پہاڑوں میں لے جائیں اور ہمارے بچوں کے سینے چھلنی کرتے رہیں۔
نہیں جناب ! یہ کام پاکستان میں نہیں ہو سکتا، کم از کم پاک فوج کے ہوتے ہوئے یہ کام نہیں ہو سکتا، بزدلوں کا ایک داؤ لگ گیا، سو لگ گیا۔
اب ماؤں کے ہونٹوں پر دعائیں ہیں، باپ بھی یہی دعا مانگ رہے ہیں، بچوں کی بہنیں اور بھائی بھی یہی دعا مانگ رہے ہیں۔دعا یہ ہے کہ پاک فوج کو اللہ ہمت دے اور وہ دہشت گردوں کو مکمل طور پر کچل کر رکھ دے، وہ انہیں بوکو حرام یا داعش کے نقش قدم پر چلنے سے روک دے۔
ماحول بدل رہا ہے، بلکہ بدل گیا ہے، اب مائیں بچوں کو خوشی خوشی اسکول بھیجتی ہیں ، انہیں کوئی خدشہ لاحق نہیں۔
مگر یہ جو اوترے نکھترے اور بے اولاد یا سنگدل ہیں ، ان کاکیا علاج کیا جائے، ان کا علاج یہی ہے کہ ان کی کوئی خواہش پوری نہ ہو، ہم اپنے پھول شہیدوں کے مرثیے نہ لکھیں ، ان کے شاہنامے گائیں۔ان کی شہادت نے قوم کو اتحاد اور یگانگت کا درس دیا، یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اسے بھلایا نہیں جا سکتا اور یہ کیا کم کارنامہ ہے کہ قوم آج یک سو ہے کہ دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں،سرمایہ کاروں اور کسی بھی قسم کی معاونت کرنے والوں کا شکنجہ کساجائے۔کراچی میں آپریشن ذرا نرم پڑتا ہے تو لوگ تڑپ اٹھتے ہیں اور ہر زبان پر ایک ہی مطالبہ ہے کہ مکمل صفائی کی جائے۔ یہ ان شہیدوں کے طفیل ہے کہ اب کسی بھی برائی اور کسی بھی برے شخص کو برداشت کر نے کے لئے کوئی ایک شہری بھی تیار نہیں۔
ان امر شہیدوں کو سلام،
علی زریون جذبوں والا نوجوان شاعر ہے، شاید ابھی بچوں والا نہیں ہوا مگر پشاور کے بچوں کو اس نے ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا:
آ تجھے دامن بھر لوں
تیرے ماتھے پہ مہکتا ہوا بوسہ دے لوں
وہ ابد تاب مہک جس نے تری دھرتی کو
خرد افروز اجالوں کی سحر بخشی ہے
آئی ایس پی آر کا پہلا نغمہ تھا:
میں آنے والا کل ہوں وہ مجھے کیوں آج مارے گا
یہ اس کا وہم ہو گا کہ وہ ایسے خواب مارے گا
شاعر ابومحمد سرمد کا روشن خیال ملاحظہ ہو:
بھلا خوشبو بھی مرتی ہے
اسے تو پھیلنا ہے
دور تک سو پھیلتی ہی جائے گی
شاعر عارف امام کے قلم سے شہید بچوں کا پیغام:
میری تصویر پہ اے پھول چڑھانے والو
میرے قاتل کا عمامہ میری تصویر پہ رکھ
اور شاعرہ ناز بٹ کی دہشت گردوں کوللکار:
تم تو ظالم ہو، جابر ہو، فرعونیت کے طرفدار ہو
تم درندوں سے بڑھ کر درندے ہو، مت بھولنا
رب نے لکھ دیں تمہارے مقدر میں ذلت کی گہرائیاں
اور صفدر ہمدانی کے تخیل کا شاہکار:
خوں میں بچوں نے اپنے کیا خود وضو
پیش ارض وطن مائیں ہیں سرخرو!
اور پروفیسر حمید کوثر لکھتے ہیں
زہے نصیب کہ ملت کی آبرو کے لئے
زمیں پہ خون کے گلشن سجائے جاتے ہیں۔
مگر جو لوگ اوترے نکھترے ہیں، بے اولاد ہیں اور سنگدل، وہ کیا جانیں، بہادری کیا ہوتی ہے،عزم کسے کہتے ہیں، اور آنکھوں کی چمک کیا پیغام دیتی ہے۔
یہ چمک دیکھنی ہو ، یہ عزم دیکھنا ہو تو جنرل راحیل کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھ لو۔

December 23, 2015