خبرنامہ

بلوچستان اور پاک فوج

بلوچستان ، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو کہ پورے ملک کے تقریباََ 44 فی صد حصّے پر مشتمل ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس میں سے صرف 5 فی صد حصّے پر آبادی پائی جاتی ہے۔ باقی کا حصّہ خشک اور چٹیل پہاڑوں پر مشتمل ہے جن کے سینوں میں معدنیات کا بیش بہا قیمتی خزانہ دفن ہے۔ایک جانب یہی خزانہ اس صوبے کا اصل زر تصور کیا جاتا ہے جب کہ دوسری جانب گوادر کا ساحلی علاقہ ہے جو 750کلو میٹر طویل پٹی بناتا ہے اور تاحال تعمیراتی مراحل سے گزر رہا ہے۔ اگرچہ گوادر پورٹ کی تعمیر میں کسی حد تک تیزی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن بہر صورت ابھی بہت کچھ ہونے کو باقی ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ معیشت کی شہ رگ بن سکتا ہے۔ لیکن غیر ملکی عناصر کی چیرہ دستیوں کے سبب کئی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ان غیر ملکی عناصر کی دہشت گرد سرگرمیوں نے جہاں صوبے کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے ہوئے ہیں وہاں صوبے کی اصل طاقت وہاں کی نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار بنانے کا بھی پورا پورا بندوبست کر رکھا ہے۔ان حالات میں افواج پاکستان جہاں اندرونی وبیرونی سلامتی کو ہر قیمت پر یقینی بنانے کے عزم کے ساتھ گامز ن ہیں اور دشوار راستوں اور کٹھن حالات میں نہ صرف اپنے معمول کے فرائض انجام دے رہے ہیں بلکہ وہاں ترقیاتی پروگراموں میں بھی پیش پیش ہیں۔ سڑکوں کا لامحدود جال بچھایا جا چکا ہے، دوردراز علاقوں میں طبی سہولیات مہیا کی جارہی ہیں، سکولوں اور کالجوں کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے بہت سے تعلیمی اداروں کا جال بچھاکر وہاں کے طلبہ و طالبات کو ہر سہولت بہم پہنچائی جارہی ہے۔ فنی علوم پر خاص توجہ دی جارہی ہے ۔ اب تو بہت سے نوجوان اپنی تعلیم پوری کرکے صوبے اور ملک کی ترقی میں براہ راست اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ سب سے اہم پیش رفت صوبے کے نوجوانوں کی پاک فوج میں شمولیت ہے۔
صوبہ بلوچستان کی زمینی ساخت اور حالات ایسے ہیں کہ وسیع ترین رقبے پر خال خال آبادی نے وسائل کی بروقت پہنچ کو مشکل کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی ادارے تمام تر نیک نیتی کے باوجود قدرے آہستگی سے ترقیاتی عمل کو پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔لیکن افواج پاکستان نے اس سلسلے میں یہاں کئی اہم اقدامات کیے جن کی بدولت معاشی ضرورت کی اساس تعلیم کی سہولیات کو بہتر بنانے میں کافی زیادہ مدد حاصل ہوئی۔ یوں تو فوج بلوچستان میں کئی اہم ترین ترقیاتی کاموں میں بھرپور کردار ادا کرتی نظر آتی ہے جس میں خصوصی طور ہر چمالانگ کوئلے کی کانوں میں ازسرنوکُھدائی کا کام اوروہاں کے لوگوں کے لیے بنیادی سہولیات کا بہم پہنچانا، دیگر مقامات پر طبی سہولیات ‘ بھرتی کے اقدامات اور تربیتی اداروں کا قیام تک بھی اہم پیش رفت ہیں جو بہرصورت مجموعی طور پر صوبے میں حکومت اقدامات کے ساتھ ساتھ کئی قابل قدر نتائج حاصل کرنے میں معاون و مدد گار ہیں۔ حالیہ سیلاب ہوں یا موجودہ امن عامہ کی صورت حال، پاکستان فوج نے صوبے میں قابل قدر اقدامات کیے ہیں۔جن میں بلوچستان کی نوجوان نسل اور تعلیمی اقدار میں بہتری کو سر فہرست رکھا گیا ہے کیوں کہ اس بات سے انکار کسی طور بھی ممکن نہیں کہ تعلیم سے حالات سنورتے ہیں اور تعلیم سے ہی قو موں کی تقدیریں بدلتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ’ چمالانگ کوئلے کی کانوں‘ کا علاقہ ہے جہاں پر عرصہ دراز سے خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی اور اس قیمتی خزانے سے فائدہ حاصل کرنے کے بجائے نسل در نسل قتل و غارت گری کا ایک سلسلہ چل رہا تھا۔ مری اور لونی قبائل ایک دوسری کی جان کے دشمن تھے ۔ پاک فوج کی بدولت دونوں قبائل کے درمیان چمالانگ معاہدہ ممکن ہوا ۔ لونی قبائل جن کا تعلق ضلع لور الائی کی تحصیل دُ کی سے ہے ، چمالنگ کا دعوے دار تھا ۔چمالنگ ضلع لورالائی اور ضلع کو ھلو کے بارڈر پرواقع ہے لہٰذا کو ھلو میں رہنے والے مری قبائل بھی اس کے دعوے دار تھے۔ چمالنگ سے نکلنے کا تجارتی روٹ مری قبائل کے علاقے سے گزرتا ہے لہٰذا اگریہ مان لیاجائے کہ چمالانگ لور الائی میں ہے اور لونیوں کی ملکیت ہے مگر تجارت کاراستہ چونکہ مری قبائل سے گزرتا ہے لہٰذا مری قبائل کو بھی اس پراجیکٹ میں شامل کرنا پڑا ۔پاک فوج نے صوبے کی بہتری کے لیے اقدامات میں پہل کرتے ہوئے چمالانگ مائینز پر باقاعدہ طور پر کام کا آغاز کروایا اور انتہائی صلح جو انداز میں اس قیمتی خزانے کو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لانے کا سلسلہ شروع کیا۔سال 2007ء میں اس منصوبے پر کا م شروع ہوا ۔ جس کی وجہ سے قریب پچاس ہزار سے زائد افراد براہ راست ، جب کہ تیس ہزار کے لگ بھگ افراد کسی نہ کسی طور پر اس منصوبے پر عمل درآمد کے سبب باعزت روزگار سے منسلک ہوئے۔یوں اس منصوبے سے جہاں ایک مزدور کی ماہانہ آمدن تیس ہزار روپے تک پہنچ گئی وہاں عوام کو بھی باضابطہ فی کس آمدن ملنے کا زریعہ بنا۔اس کے ساتھ ساتھ علاقے میں تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی میں بھی اضافہ ہوا۔ اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی ’ چمالانگ بینیفیشرز تعلیمی پروگرام‘ کا اجراء ہے جس کے تحت تعلیمی ترجیحات کے ایک نئے باب کا اضافہ دیکھنے کو ملاہے۔
اس حقیقت سے کسی صورت بھی انحراف ممکن نہیں کہ صوبے کی نوجوان نسل آنے والے دور کی امین ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں دیگر صوبوں کی نوجوان نسل کے ہم پلہ لانے اورقومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے تعلیمی ترجیحات اور سہولیات کو بہتر کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ فوج کی جانب سے جا بجا تعلیمی اداروں کے قیام سے اس پیش رفت میں بہتری ہوئی جن کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیمی اور معیاری سہولیات تک رسائی بھی ممکن بنائی گئی۔ حالیہ کچھ عرصے میں سکولوں کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کا کام ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا گیا۔ مجموعی طور پر صوبے بھر میں پاک فوج کے براہ راست زیرانتظام سکولوں میں ہزاروں طلباء زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں ۔جب کہ ایف جی کے سکولوں میں چھ ہزار سے زائد طلباء زیرتعلیم ہیں جو کہ فو ج کے زیرنگرانی کام کرتے ہیں۔ یہاں ایک بات قابل قدر ہے کہ آرمی پبلک سکول اور فرنٹیئر پبلک سکول مجموعی طور پر لگ بھگ سات ہزار بچوں کو سو فی صدمفت تعلیمی سہولیات بہم پہنچارہے ہیں۔ ان اداروں میں HITEC ٹیکسلا‘ ملٹری کالج مری‘ کیڈٹ کالج پٹارواور صادق پبلک سکول بہاول پور جیسے اہم تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ ملک بھر میں پڑھے لکھے افراد اور ہنر مند ہاتھوں کی کمی نے بے روزگاری کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ جس کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں ۔ خصوصاََبلو چستان میں انہی وجو ہات کی وجہ سے تعمیر و ترقی میں بڑی مشکلات کا سامنا ہے ۔ بلو چستان کی نو جوان نسل ہمارے ملک کا ایک قیمتی اثا ثہ ہیں جن کی بر وقت درست سمت میں راہ نمائی سے ترقی کی نئی منازل حاصل کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان آرمی، بلوچستان کے اندر ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ صوبہ کی ترقی اور عوام کی بہتری کے لیے کئی اہم منصوبے پر کام کر رہی ہے جس کے خاطر خواہ نتائج نظر آتے ہیں ۔ نوجوانوں جیسے قیمتی اثاثے کی قدر و قیمت کا احساس اور انہیں مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکنے سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر بھرتی کے عمل کو تیز کیا اوراپنی تمام تر کو ششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس عمل کو موثر بنانے کی کوشش کی تاکہ بلو چستان کی نوجوان نسل کو صوبے کی تعمیر و ترقی کی نئی منزل کو گامزن ہو۔
بلوچستان میں ’’سوئی ایجوکیشن سٹی‘‘ کے قیام کا اعلان بلوچستان کی عوام کے لیے پاک فوج کی جانب سے ایک بہترین تحفہ ہے جس میں ملٹری کالج کے ذریعے براہ راست بچوں کو پاک فوج میں کمیشن حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور صوبہ بلوچستان کی نوجوان نسل جہاں وطن عزیزکی سرحدوں کی حفاظت اور ملک دشمن عناصر کے قلع قمع کے لیے قابل فخر قومی ادارے کا حصہ بن پائیں گی وہاں قبل عزت ذریعہ معاش بھی میسر آئے گاجس سے لامحالہ بے روزگاری میں کسی حد تک کمی آئے گی۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ بلوچستان کی نوجوان نسل پاک فوج کے دستوں میں شامل ہو کر ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ سے سرشار ہے جس کا ثبوت گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والی ریکروٹوں کی بھرتی اور قریب چار ہزار کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہے جبکہ اسی تناسب سے کئی نوجوانوں نے کمیشن بھی حاصل کیا اور آج پاک فوج کی قیادت میں شامل ہیں۔پاک فوج میں آئندہ بھرتی کے اہداف اس سے کئی زیادہ ہوں گے۔
پاکستان آرمی نے نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن(NAVTEL) کے تعاون سے بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن (BITE) کا اجرا بھی ایک بڑا قدم ہے جس سے صوبے کی بے روزگار نوجوان نسل کو ہنر سیکھنے کے مواقع میسر آ رہے ہیں جو بے روزگاری کو ختم کرنے میں اہم ثابت ہو رہے ہیں۔ اس ادارے میں طلباء کو مفت تعلیم کے ساتھ ساتھ ماہانہ جیب خرچ بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی ضروریات جن میں رہائش، کھانا پینا، علاج کی سہولیات بھی ضرورت مند طلباء کو دی جاتی ہیں۔ اس عمل میں لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو برابر کے مواقع اور سہولیات دی جا رہی ہیں۔بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن (BITE) میں سیکڑوں نوجوان تربیتی عمل مکمل ہونے کے بعد ایک قابل قدر اور معاون معاشرتی رکن کی حیثیت سے نئی زندگی کا آغاز کر چکے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک اور کڑی ’ گوادر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن‘ (GITE) بھی کام کا آغاز کرچکا ہے۔ بلوچستان کے طلباء کو دیگر صوبوں میں قائم کردہ آرمی کے ہوسٹلز میں بھی جگہ دی گئی ہے۔ پورے ملک میں قائم ان ہوسٹلوں میں بلوچستان بھر سے قریباََ 500 سے زائد طلباء حصول علم میں مصروف ہیں۔ اس عمل سے جہاں یہ طلبا قومی دھارے میں شامل طلباء کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہاں آگے چل کر مقابلے کی دوڑ میں بہت آگے جانے والے ہیں۔ پاک فوج کی طرف سے معیار تعلیم کو بڑھانے کے لیے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ یقیناًخوش آئندہ ہیں۔ ترقی کی سمت ایک اہم ترین قدم ہے جس میں پورے صوبے کی عوام کو یکساں سہولیات میسر آئیں گی۔ یہ اقدامات یقیناًپرائمری سطح تعلیم کی سوچ سے آگے نکل کر دنیا کے معیار تعلیم سے مقابلے کے لیے اقدامات میں جس کی خاطر خواہ نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔ ان اقدامات سے صوبے کی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے جو زرمبادلہ کو بڑھانے اور صوبے میں مجموعی طور پر خوش حال زندگی کی شروعات کی بنیاد ہوں گے۔
پاک فوج کے بھرتی پروگرام نے خاص طور پر بلو چستان کے نو جوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ کوئٹہ ، ژوب، خضدار، سبی، سوئی، اور کشمور کے اضلاع کے بہت سے نوجوان کامیابی سے تربیتی امو ر مکمل کر کے پاک فوج میں شامل ہوئے۔ اس عمل سے جہاں نو جوانوں کو اگلی صفوں میں رہ کر وطن عزیز کی حفاظت اور محبت کا عملی مظاہرہ کرنے کا موقع میسر آئے گاوہاں با عزت روز گار بھی ملا جس سے کئی کنبے بھی مستفید ہوں رہے ہیں۔ بلو چستان میں رقبہ اتنا زیادہ ہے اور آبادی ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر اتنی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے کہ ان تک پیغام رسانی مشکل کام ہے۔ بھرتی کے عمل کو بہتر بنانے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغام کی تر سیل کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال کیا گیا ہے جس میں اشتہارات ، اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کا استعمال بے شک اہم رہا لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاک فوج کی مو بائل ٹیموں نے دور دراز علاقوں میں جاکر نوجوانوں کو بھرتی میں جو کردار ادا کیا وہ سب پر سبقت لے گیا۔
روز بروز بڑھتے مسائل نے بلوچستان کے لوگوں کی تعلیمی پس ماندگی اور بے روزگاری کی جانب دھکیلنے میں اہم کر دار ادا کیا۔ اب کم تعلیمی سہولیات اور طبی معاملات میں اگر خصوصی توجہ اور رعایت نہ دی جائے تو بھرتی میں دشواریاں حائل ہوتی ہیں اسی وجہ سے بھر تی کے اس عمل کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ بلو چستان کے لیے خصوصی رعائتیں بھی دی گئی ہیں ۔ خصوصی رعائتوں میں ٹیکنیکل شعبوں کے علاوہ کسی بھی شعبے میں بھرتی ہونے والے نو جوانوں کی تعلیمی حد کو کم کرکے میٹرک کے بجائے آٹھ کلاس تک رکھا گیا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو بھرتی کا مواقع میسر آئیں۔ اسی طرح قد کا معیار ٹیکنیکل شعبوں جہاں پر پیشہ وارانہ مجبوری لاحق ہے کہ علاوہ 5′-6”کے بجائے5′-4”رکھا گیا ہے۔ عمر کی حد 23سال کے بجائے 26سال مقرر کی گئی ہے اور کلرکوں کو خصوصی رعایت دیتے ہوئے انٹر میں Cکے بجائے Dگریڈ کے ساتھ بھی شامل کیا گیا ہے۔
اس عمل سے بلوچستان کے لوگوں نے بھر پور فائدہ حاصل کیا جس کا ثبوت روزبہ روز بتدریج بڑھتی ہوئی بھرتی کی تعداد ہے۔ بلو چستان سے بھرتی ہونے والے ریکروٹس کو سب سے بڑی رعایت ان کو اپنے ہی علاقوں میں تربیت کی سہولت کا میسر کرنا شامل ہے یہی وجہ ہے کہ بلو چستان بھر میں بھرتی کا آغاز ایک ہی وقت پر کیا جا تا ہے اور پھر بھرتی ہونے والے نو جوانون کی اضلاع میں ہی قائم تربیتی اداروں میں بنیادی تربیت دے کر پاک فوج کے دستوں میں شامل ہونے کا موقع میسر آجا تاہے ۔
پاک فوج صوبائی حکومت کے تعاون سے صوبے کے مختلف مقامات پر فری میڈیکل کیمپس لگارہی ہے۔ سی ایم ایچ کوئٹہ نے حکومت بلوچستان کے زیر اہتمام اور مقامی محکمہ صحت کے تعاون سے غریب اور ضرورت مند عوام کو خصوصی اور قابل فخر خدمات بہم پہنچائی رہی ہیں۔ پاک فوج مختلف علاقوں میں عوام کو ہر قسم کی سہولیات مریضوں کو پہنچائی جارہی ہیں۔ ایمرجنسی میں تمام سویلین مریضوں کی اوقات کار کے دوران بھی دیکھ بھال کی جارہی ہے اور انہیں ایمرجنسی اور زندگی بچانے والا علاج فراہم کیا جارہاہے۔ شعبہ انتہائی نگہداشت میں داخل کئے جانے والے شدید مریض کسی بھی ہیلتھ کئیر سسٹم میں بہترین تربیت ہی بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ سی ایم ایچ کوئٹہ بطور ٹیچنگ ہسپتال سیکرٹری ہیلتھ سے رابطہ رکھتے ہوئے۔ مقامی ڈاکٹروں کو انٹرن شپ اور پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے ذریعے بلوچستان کے بنیادی صحت کے ڈھانچے کی استعداد کار کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کر رہاہے۔ہسپتال ادویات، سرجری،زچہ بچہ،پیڈی ایٹریکس ریڈیالوجی،ای این ٹی کے شعبوں میں سویلین ڈاکٹروں پوسٹ گریجویٹ تربیت فراہم کر رہا ہے۔
صوبے میں تعلیم کے فروغ میں بھی پاک فوج کا کردار مثالی رہا ہے۔ فوجی فاونڈیشن سسٹم مسلسل صوبے کے طلباء وطالبات میں علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ یہ سکول قابل اساتذہ کی زیر نگرانی دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں معیاری تعلیم فراہم کر رہا ہے۔اس کے علاوہ ووکیشنل سینٹر بھی لوگوں میں ہنر بانٹ رہے ہیں۔ جس سے بیروزگاری کے مسئلے پر قابو پانے میں کافی حد تک مدد ملی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سیاسی وعسکری قیادت بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ یقیناًاس کے لیے ماضی میں الجھنے کی بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہئے ۔ سب ملکر چلیں تو ابھرتے ہوئے بلوچستان کے ثمرات جلد حاصل کرسکتے ہیں۔ حکومت اور فوج نے نے کافی حد تک حالات میں بہتری اور عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے کامیابی حاصل کی ہے۔ گزشتہ روز کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ نے درست فرمایا کہ بلوچستان کے عوام نے صوبے کو خلفشار سے نکالنے کے لئے بھرپور کردار ادا کیاہے۔صوبے میں ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے کہ اب یہاں قومی پرچم لہرائے جارہے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں سے ہتھیار چھین کر قلم تھمایاہے۔ صوبے کے بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے تاکہ اس کی پسماندگی کا خاتمہ ہو۔پاک فوج، ایف سی اور صوبائی حکومت کیساتھ ملکر تعلیمی شعبے میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔
یقیناًبلوچستان کے عوام ملکی ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرعزم ہیں اور وہ کیوں نا ہوں یہ ملک یہ فوج وفاق اور ادارے سب پر اس ملک کے عوام کا یکساں حق ہے عوام کے اس حق کا احترام ہی قومی یکجہتی کو فروغ دینے کا اصل راستہ ہے۔بلوچستان میں جو پسماندگی ہمیں نظر آتی ہے وہ صرف بلوچ عوام کو ہی متاثر نہیں کر رہی بلکہ مملکت کی مجموعی ترقی و خوشحالی بھی اس سے متاثر ہے بلوچ نوجوانوں کی پاک فوج میں شمولیت کا خیر مقدم ان کی وفاق پاکستان سے محبت کی روشنی میں کیا جانا چاہئے وہ چند عناصر اور قوتیں جو پاکستان دشمنی کے رجحانات میں مبتلا ہیں ان کو بلوچ نوجوانوں کی آنکھوں میں وہ چمک ضرور نظر آئی ہوگی جو حب الوطنی کے جذبے سے دو چند ہوگئی تھی یہ چمک آئندہ برسوں میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ہر پاکستانی شہری کی آنکھوں میں ہوگی اور ملک کا براچاہنے والوں کو ناکامی و نامرادی کا منہ دیکھنا پڑے گا ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کی عوام بھی ہر جدوجہد میں پاک فوج کے شانہ بشانہ رہے ہیں وہ فوج ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں آگے بڑھ کر اپنا لوہا منوائیں گے ہم امید کرتے ہیں کہ قومی وفاقی سطح کے دیگر اداروں میں بھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی صلاحیت اور کارکردگی کے اظہار کا موقع ملتا رہے گا