خبرنامہ

رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو ….ارشاد عارف

پاکستان سے وفا؟ ہم صرف باتیں کرتے ہیں‘ ہماری حکمران اشرافیہ اور جاہ طلب سیاسی قیادت یہ بھی نہیں۔ وفا کے تقاضے بنگلہ دیش میں میر قاسم علی‘ ملا عبدالقادر‘ مطیع الرحمان نظامی اور صلاح الدین قادر چودھری نے تختہ دار کو چوم کر نبھائے یا کشمیری نوجوان اور عوام نبھا رہے ہیں اور قبائلی علاقوں‘ کراچی اور بلوچستان کی مقتل گاہوں میں علم چننے والے عشاق کے قافلے بھی۔ ہم کیا اور ہمارا دعویٰ وفا کیا؟
ہمارے شکم پرور اور شکم سیر رہنما جب پاکستان پر اپنا تن‘ من‘ دھن قربان کرنے کے دعوے کرتے ہیں تو مجھے افتخار عارف یاد آتے ہیں: ؎
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں‘ ہم کیا‘ ہماری ہجرت کیسی؟
آج چھ ستمبر ہے۔ 1965ء میں اسی روز پاکستانی فوج کے علاوہ قوم نے اپنے سے کئی گنا بڑے اور طاقتور دشمن کا حملہ پسپا کیا اور وطن سے وفا کے تقاضے نبھائے۔ فوجی جوانوں اور افسروں نے سر‘ دھڑ کی بازی لگائی اور قوم نے حوصلہ افزائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ وطن کے سجیلے جوان محاذ پر دشمن کی توپوں کو خاموش کر رہے تھے اور قوم کا ہر مرد و زن ان سے پوچھ رہا تھا ؎
اپنی جان نذر کروں‘ اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد‘ تجھے کیا پیش کروں
1965ء میں پاکستان‘ سلطانی جمہور سے محروم اور ایک فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کی مضبوط گرفت میں تھا۔ ہم نیوکلیئر پاور تھے نہ اقتصادی و معاشی طور پر بھارت کے ہم پلّہ‘ جذبہ ایمان مگر سلامت تھا اور پاکستان کا مطلب کیا لااِلٰہ الا اللہ کا نعرہ بھی غیر متنازعہ۔ تحریک پاکستان میں حصہ لینے‘ قائدؒ کی تقریریں سننے اور ہجرت کرنے والی نسل زندہ‘ سلامت تھی۔ اسلامیان برصغیر کی قربانیوں کا احساس تھا اور قیام پاکستان کے مقاصد کا مکمل ادراک۔ ایوب خان نے 6 ستمبر کی صبح جب قوم کو آواز دی ”پاکستان کے دس کروڑ عوام‘ جن کے دل میں لا اِلٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ (ﷺ) کی صدا گونج رہی ہے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہو جائیں۔ ہندوستانی حکمران شاید نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ تو قوم نے جواب دینے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی ؎
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اُٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
قوم کے والہانہ جوش و جذبے کا مظہر ایوب خان کے دفاعی فنڈ میں کروڑوں روپے نقد‘ خواتین کے زیورات اور ڈاکٹر نذیر احمد شہید جیسے کئی ایثار پیشہ پاکستانیوں کی طرف سے ذاتی گھر عطیہ کرنے کا فیصلہ تھا۔ کسی کو یاد نہ رہا کہ ایوب خان فوجی آمر ہے‘ شہری حقوق کا قاتل اور قائد اعظم کی عظیم ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرانے کا مجرم۔ دانشور‘ ادیب‘ صحافی‘ گلوکار‘ مزدور‘ کسان‘ صنعت کار‘ جاگیردار‘ من و تو کی تفریق سے بالاتر ہو کر سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ اس وقت کوئی بنگالی نظر آتا تھا نہ پشتون‘ پنجابی‘ سندھی‘ بلوچی حتیٰ کہ مسلکی اختلافات و تعصبات بھی اپنی موت آپ مر گئے۔ جنگ کا طبل بجا تو گراں فروشی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کا دھندا کرنے والوں نے بھی وقتی طور پر توبہ کر لی۔ مغربی پاکستان میں نواب آف کالا باغ نے تاجروں سے اپیل کی اور انہوں نے اشیائے ضرورت مہنگی ہونے دیں نہ نایاب۔ یہ ایک نئی قوم کا جنم تھا۔ عارضی مگر حیران کن۔ فوج یکسو تھی‘ حکومت فعال و بیدار اور قوم متحد۔
اکاون سال بعد 6 ستمبر کو یوم شہدا کے طور پر مناتے ہوئے ہم پھر حالت جنگ میں ہیں۔ پہلے سے زیادہ خوفناک اور طویل جنگ‘ جس نے ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں کے علاوہ آزادی اور سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ 1965ء میں دشمن نے ہماری مشرقی سرحد پر اپنی مرضی کا محاذ کھولا‘ مغربی اور مشرقی پاکستان میں کوئی لال بہادر شاستری کا یار تھا نہ کسی ملک دشمن کا وفادار اور نہ اندرون ملک کوئی گروہ فوج سے برسر پیکار ۔ اب مگر صورتحال مختلف ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام قربانیاں دے رہے ہیں یا پھر فوجی افسر و جوان۔ کوئی طبقہ ایسا نہیں جو دہشت گردی کی کارروائیوں کا نشانہ نہ بنا ہو مگر سیاسی محاذ پر ہر سو آپا دھاپی ہے اور انتشار‘ افتراق کی فرماں روائی۔ نریندر مودی نگر نگر‘ ملکوں ملکوں گھوم پھر کر پاکستان کے خلاف فضا ہموار کر رہا ہے‘ بنگلہ دیش اور افغانستان کو اس حد تک رام کر لیا کہ وہ اسلام آباد میں ہونے والی وزرائے خزانہ کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے اور امریکہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کے حوالے سے اس کا ہمنوا ہے۔ نریندر مودی نے ہوانگ ژو پہنچ کر جی 20 کے اجلاس میں صدر شی پنگ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اقتصادی راہداری کے حوالے سے بھارت کی خواہشات کا احترام کریں۔ یہ خواہشات کیا ہیں؟ منصوبہ ٹھپ اور پاکستان سے کُٹی۔
ہمارے حکمران جواباً خاموشی کو بہترین پالیسی سمجھ کر اپنے سیاسی مخالفین سے نمٹنے میں مشغول ہیں۔ ہم پاکستان سے وفا کے تقاضے نبھانے والے میر قاسم علی کی پھانسی پر کوئی زوردار موقف اختیار کر پائے‘ نہ نریندر مودی کے یار و وفادار الطاف حسین کے حوالے سے یکسوئی نظر آتی ہے۔ راولپنڈی میں علامہ طاہرالقادری نے جو الزامات لگائے ان کے غلط اور صحیح ہونے کا فیصلہ تو جوڈیشل کمیشن ہی کر سکتا ہے مگر چودہ شہیدوں کے قاتلوں سے کسی قسم کی باز پرس نہ ہونے پر ان کا غصہ بجا اور شہدائے ماڈل ٹائون کے وارثوں کی داد رسی تقاضائے انصاف ہے۔ شریف برادران کی شوگر ملوں میں ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا دعویٰ البتہ لطیفہ ہے۔ پاناما پیپرز کے حوالے سے تحریک انصاف سمیت اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کے بجائے حکومت نے چپ کا روزہ رکھ چھوڑا ہے‘ محاذ آرائی بڑھ رہی ہے اور پیپلز پارٹی بھی اس کا حصہ بننے کے لیے کوشاں۔ حکمرانوں کو علم ہو گا کہ پیپلز پارٹی نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ترک کرکے تحریک انصاف کے ساتھ شامل ہونے اور اپوزیشن جماعت کے طور پر حصہ رسدی وصول کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے اور اب پالیسی آصف علی زرداری یا خورشید شاہ کے بجائے بلاول بھٹو زرداری کی چلے گی۔ یہ محاذ آرائی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بھارت کے پاکستان دشمن عزائم کے سدباب میں کس قدر رخنہ اندازی کر سکتی ہے‘ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
کراچی میں جو فتنہ 22 اگست کو اُٹھا اس کا قلع قمع نہیں ہوا۔ ڈھیل دینے کی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے معاشی مرکز میں ایک بار پھر ”جو قائد کا غدار ہے‘ وہ موت کا حقدار ہے‘‘ کے بینر لگ گئے اور پولیس بینر لگانے والوں سے لاعلم ہے۔ یہ اس نرمی‘ مصلحت کوشی اور الطاف کے وفاداروں سے شفقت کا نتیجہ ہے جس کا مظاہرہ فیصلہ سازوں کی طرف سے ہوا۔ کشمیر میں حریت کیش سبز ہلالی پرچم لہرا کر پاک سرزمین شادباد‘ کشور حسین شادباد کا ترانہ گنگنا کر اور گلاب چہرہ نوجوانوں کے جنازے اٹھا کر پاکستان سے وفا کے تقاضے نبھا رہے ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں 1971ء کی جنگ کے دوران بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی کے مقابلے میں پاکستان کا ساتھ دینے والے پھانسی کے پھندے کو چوم رہے ہیں مگر ہم ایک بدترین جنگ کے دوران بھی باہم دست و گریباں ہیں۔ سیاستدان و حکمران جنگ زرگری میں مشغول اور ان کے پیروکار تماشائی۔ دعویٰ یہ ہے کہ ہمیں اس دھرتی سے عشق ہے اور پاکستان سے لازوال محبت مگر آزمائش کی اس گھڑی میں ذاتی مفادات برتر ہیں۔ دھن‘ دولت‘ اقتدار اور اختیار عزیز تر۔
غیرت مند قومیں اپنے غداروں کو بھولتی ہیں نہ شہیدوں اور وفاداروں کو فراموش کرتی ہیں۔ ہم مگر ٹھہرے سدا کے زود فراموش‘ غداروں کو سر پر بٹھانے کے شوقین اور ان کے ساتھیوں سے خوفزدہ۔ مایوسی مگر کفر ہے اور بے یقینی شیطان کا پیدا کردہ وسوسہ۔
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
یہ شفق رنگ لہو
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
جس کے ہر قطرے میں خورشید کئی
جس کی ہر بوند میں اک صبح نئی
دُور جس صبح درخشاں سے اندھیرا ہو گا
رات کٹ جائے گی
گل رنگ سویرا ہو گا
رنگ لائیگا شہیدوں کا لہو
یہ لہو رائیگاں نہیں جائیگا اور قوم شہیدوں کا قرض ضرور چکائیں گی۔ انشاء اللہ