خبرنامہ

شہید مرتے نہیں ۔۔۔…شیریں حیدر

’’ کیا ضرورت ہے اماں کسی و میرے ساتھ کسی بندھن میں باندھنے کی؟ ‘‘ فون پر اس نے مجھے کہا۔ ’’ ہر ماں کی طرح میں نے بھی اس دن کے خواب دیکھ رکھے تھے، اب تم اپنے پیروں پر کھڑے ہو، میں بیٹیوں کے فرائض سے فارغ ہو چکی ہوں۔۔۔ بہنوں کو اپنے بھائی اور مجھے اپنے اکلوتے بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کا شوق ہے!! ‘‘
’’اماں۔۔۔ میں جس علاقے میں اس وقت اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہوں یہ اس وقت جنگ کی حالت میں ہے، میں ایک دن کے لئے بھی چھٹی نہیں آ سکتا، کس طرح آپ میری منگنی کے منصوبے بنا رہی ہیں؟ ‘‘
’’ تمہیں آنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ ‘‘ میں نے پورے اعتماد سے کہا، ’’ میرے بیٹے کو کسی کو دیکھنے کی ضرورت ہی کب ہے، ایسا بانکا اور سجیلا لال ہے میرا۔۔۔بس اب میں کوئی بہانہ سننے والی نہیں ہوں !!‘‘
’’ اماں ۔۔۔ یہ خاکی وردی پہن کر ہم موت سے منگنی کر لیتے ہیں، اور جس فرض پر میں اب مامور ہوں اس میں تو سمجھیں کہ تاریخ مقرر ہو جاتی ہے جیسے!!‘‘ میرا دل اس نے مٹھی میں لے لیا۔ میں نے اپنے بھائی کے ہاں بچپن سے ہی اس کی بات طے کر رکھی تھی، شازیہ میرے بلال کو بھی پسند تھی اور اب وقت آ گیا تھا کہ میں اس کے لئے اپنے بھائی کے سامنے دامن پھیلاتی۔
اگلے چند روز میں ہی میں نے بات کر کے رشتہ پکا کر دیا اور خاندان اور محلے میں موتی چور کے لڈو بانٹے، میرے لئے یہ تصور ہی انوکھا تھا جب بلال دولہا بنے گا اور میں اس کی بارات لے کر جاؤں گی، اس کی نازک سی ، لجاتی ہوئی دلہن لے کر آؤں گی۔۔۔ پھر اس گھر میں اس کے بچوں کی کلکاریاں گونجیں گی۔ بلال کی بات طے ہوتے ہی میں اٹھتے بیٹھتے اس کی شادی کے لئے دن گننے لگی، بڑے چاؤ سے اپنی ہونے والی بہو کے لئے دھنک رنگوں کے لباس بناتی، ان کے ساتھ کھنکھتی ہوئی چوڑیاں میچ کرتی۔۔۔ چشم تصور میں اسے ان پیارے پیارے رنگوں کے لباس پہن کر اپنے آنگن میں خوشبوئیں اور قہقہے بکھیرتے ہوئے دیکھتی، ایسی ہی ہنس مکھ تھی میری شازیہ۔ وہ میرے گھر پر آئے گی تو بیٹیوں کے جانے سے ہونے والی رونق بحال ہو جائے گی، خوشی سے میرا سیروں خون بڑھ جائے گا۔
سب کچھ تیار تھا، میں نے بھائی صاحب سے کہہ رکھا تھا کہ بلال کو جب بھی چھٹی ملے گی ، اچانک اور تھوڑے دنوں کے لئے ملے گی اور انہی تھوڑے سے دنوں میں انہیں اپنی بیٹی کو اس کے سنگ رخصت کرنا ہو گا۔ دونوں طرف تیاریاں اس طرح مکمل تھیں کہ تین چار دن کے اندر اندر شادی کی سادہ سی تقریب ہو جاتی۔۔۔ بہنوں کے دل میں ارمان تھے سو وہ سارے مہندی کی تقریب میں پورے کر لیتیں۔
رمضان کا مہینہ شروع ہوا تو میری عبادتوں میں خشوع و خضوع بڑھ گیا، سجدے طویل ہونے لگے اور میں رات کے اس پہر تک مصلے پر رہتی جب تک گھر کے باقی لوگ نیند پوری کر کے سحری کے لئے جاگتے تھے۔ میری دعاؤں کا محور و مرکز میرا لال۔۔۔ میرا بلال!! میں اس کی صحت، سلامتی، خوشی اور طویل عمری کے لئے دعا کرتی، اللہ تعالی کے آگے دامن پھیلا پھیلا کر عرضیں کرتی۔۔۔ میرا دل کہتا تھا کہ اس عید پر اسے چھٹی مل جائے گی اور اس کا سہرا سجانے کا میرا خواب پورا ہو جائے گا، پہلی طاق رات ۔۔۔ نصف سے زائد بیت چکی تھی۔۔۔ اس کی اچانک کال آ گئی، ’’مجھے معلوم تھا کہ میری اماں جاگ رہی ہوں گی!!!‘‘ میں نے اس کے سلام کا جواب دے کرزیر لب چاروں قل پڑھ کر اس کر پھونکے، پچیس دنوں کے بعد اس کی آواز سن رہی تھی۔۔۔ ماں کے دل میں قرار اتر رہا تھا۔
’’ شالا جوانیاں مانو میرے لال۔۔۔ ‘‘ میری آواز میں آنسوؤں کی نمی تھی۔
’’ آرہا ہوں اماں ۔۔۔ ‘‘ اس کی آواز میں جوش تھا، ’’ عید پر ہم اکٹھے ہوں گے اماں !!‘‘
’’ اب عید خالی خولی عید نہیں ہوگی۔۔۔ ‘‘ میں نے خوشی سے کانپتی آوازمیں کہا، ’’ اب میں تمہارے سر پر سہرا سجا کر۔۔۔ اپنی بہو کو اپنے آنگن میں لانا چاہتی ہوں۔۔۔‘‘
’’ ہاہاہا۔۔۔ ‘‘ وہ ہنسا تھا، ’’ چھ دن کی چھٹی ہے اماں ۔۔۔ اس میں بھی ممکن ہے کہ کسی دن واپسی کا بلاوا آ جائے، اس لئے آپ اتنی مختصر چھٹی میں میری شادی کا پروگرام نہ بنائیں، شادی کوئی گڑیا گڈے کا کھیل تو نہیں!!‘‘
’’ میرا گڈا ہی ہو تم اور شازیہ بھی گڑیا جیسی ہی ہے۔۔۔ جیسے بھی ہو، چاہے تم اسے گڈے گڑیا کی شادی جیسا کہو مگر اب یہ شادی ہو کر رہے گی، دونوں طرف کی تیاریاں مکمل ہیں!!‘‘
’’ چھ دن میں شادی اماں ۔۔۔ ‘‘ وہ بوکھلا گیا تھا۔
’’ چھ دن میں دنیا بن گئی تھی۔۔۔ ‘‘
’’ وہ اللہ تعالی کی طاقت اور کمال تھا اماں! ہم کیا اور ہماری مجال کیا۔۔۔‘‘ اس نے فوراً جواب دیا۔
’’ اچھا اب زیادہ نخرے نہیں کرو۔۔۔ بس بتا دیا ہے تمہیں، تم آخری روزے پر پہنچو گے اور عید کی شام تمہاری مہندی ہو گی، اس سے اگلے روز دوپہر کو شادی۔۔۔ کوشش کرو کہ دو چار دن کی چھٹی اور مل جائے، سی او سے بات تو کر کے دیکھو!!‘‘ میں نے جیسے اسے بغیر چھپا ہوا شادی کارڈ پڑھ کر سنایا۔
’’ ایسی بھی کیا ایمر جنسی ہے اماں ۔۔۔ ‘‘ اس نے حجت کی، ’’ مجبوری کیا ہے چار دن اپنی بیوی کے ساتھ گزارنے کے لئے شادی کی۔۔۔ جلد ہی میرا کہیں تبادلہ ہو جائے گا تو سوچ لیں گے۔۔۔ ‘‘
’’بلال۔۔۔ اس پر بحث نہیں ۔۔۔ تم اٹھائیس برس کے ہو چکے ہو،اس عمر میں تمہارے ابا کے ہاں دو بچے ہو چکے تھے!! ‘‘ میں نے خفگی سے کہا۔
’’ وہ تو آپ کو بہت جلدی تھی نا شادی کی اماں تو آپ نے ابا کو مجبور کر دیا تھا۔۔۔ ‘‘ وہ بات کر کے زور سے ہنسا، یہ بات مذاق میں اکثر اس کے ابا کہتے تھے۔
سحری میں میں نے سب کو خوش خبری سنائی اور اپنے دل میں ترتیب دیا ہوا پروگرام بتایا، اس سے کسی کو اختلاف نہ تھا، فجر کی نماز پڑھ کر بھائی صاحب کو فون کر کے اپنا پروگرام بتایا اور پھر ان کی طرف سے کوئی اعتراض نہ ہوا تو بیٹیوں کو کال کر کے بتایا کہ تیاری باندھیں اور فوراً پہنچیں ۔۔۔ اگلے ہی روز میرے آنگن سے ایک ایک کر کے اڑ جانے والی تینوں چڑیاں ہمارے گھر میں اپنے بچوں سمیت موجود تھیں، گھر شادی کا گھر لگنے لگا، کسی کو کہہ کر ڈھولک بھی منگوا لی، ڈھولک کی تھاپ کے ساتھ دل کی دھڑکنیں انوکھی تال پر رقص کرنے لگیں۔۔۔ اب چونکہ تیاریوں کا عروج تھا تو آخری روزہ بھی جیسے اچانک ہی آ گیا تھا۔
دن سے ہی بے تاب نظریں بیرونی دروازے کی اور کان گھنٹی کی طرف لگے تھے۔۔۔ مگر بجی تو فون کی گھنٹی، بلال کی کال تھی۔۔۔ ’’ ابھی تک تم کال کر رہے ہو، میں سمجھی کہ کسی بھی لمحے پہنچنے والے ہو گے؟؟ ‘‘
’’ کوشش کر رہا ہوں اماں نکلنے کی، اسی لئے کال کر رہا ہوں کہ جس ہیلی کاپٹر پر مجھے آنا تھا اس پر کچھ زخمیوں کو لے کر جانا پڑا تو میرے لئے جگہ نہ بن سکی، آپ انتظار کر رہی ہوں گی، اسی لئے آپ کو فون کیا، دعا کریں کہ کوئی اور گاڑی وغیرہ مل جائے۔۔۔ اور حالات ٹھیک رہیں اماں۔۔۔ کل ہی ہمارے قریبی علاقے پر شیلنگ ہوئی ہے، ہمارے کافی لوگ زخمی ہو گئے ہیں !!‘‘
’’ اللہ تعالی رحم فرمائے۔۔۔ ‘‘ میرے دل کو کسی نے مٹھی میں لے لیا، ’’ کوشش کرو بیٹا جس وقت بھی پہنچ سکو!‘‘
’’ آپ دعا کریں اماں ۔۔۔ ‘‘ اس کی آواز میں کچھ مختلف تھا، مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا، میری رگوں میں بے چینی سی بھر گئی، کانوں میں ڈھولک کی تھاپ کی آواز آرہی تھی مگر دل بے تاب ہو گیا تھا، اگر بلال نہ آیا تو؟؟ ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کا دن بھی انتظار میں گزر گیا، شام آئی، بھائی صاحب کی طرف ہم سب لوگ شازیہ کی مہندی لے کر گئے، اس خوبصورت شام کا ہیرو غائب تھا، مگر دلوں میں امید تھی کہ وہ کسی بھی لمحے پہنچ جائے گا کیونکہ اس نے صبح مجھے کال کر کے بتایا تھا کہ اسے ایک کانوائے کے ساتھ آنے کی اجازت مل گئی تھی، ہر آہٹ پر اس کے آنے کا گمان ہوتا، میں نے بسم اللہ پڑھ کر شازیہ کی ہتھیلی پر مہندی رکھی، ا س کے بعد بھابی نے۔۔۔ شازیہ کے ماتھے پر پیار کر کے اسے سدا سہاگن رہنے کی دعا دی۔ ڈھولک کے شورسے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، بھائی صاحب نے اشارہ کر کے بلال کے ابا کو باہر بلایا، یقیناًبلال آ گیا ہو گا، میں نے دل ہی دل میں سوچا، شازیہ کے لبوں پر بھی ایک شرمیلی سی مسکراہٹ بکھر گئی، اس کی سکھیا ں سہیلیاں اسے گھیرے ہوئے اس کے ہاتھوں پر مہندی سے نقش و نگار بنا رہی تھیں۔
’’ مہندی نی مہندی۔۔۔
لگدی سہاگناں نوں، نئیں مردے دماں تک لہندی!!‘‘ ایک سریلی آواز نے تاب لگائی۔
’’ مدھانیاں ۔۔۔
ہائے او میرے ڈاہڈیا ربا۔۔۔ کناں جمیاں کناں نے لے جانیاں !!‘‘ ایک اور تان، میرے دل میں اپنے بھائی کی اکلوتی بیٹی کی ان سے جدائی کا درد جاگا، میں لپک کر بلال کے ابا کے پیچھے پیچھے چل دی۔
وہ دونوں لان کے ایک تاریک گوشے میں کھڑے تھے، ’’ کہاں پہنچا ہے بلال۔۔۔ ‘‘
’’ راستے میں ہے۔۔۔ ‘‘ اس کے ابا نے مختصر جواب دیا، ’’ شاید صبح تک پہنچے!!‘‘
’’ کیا؟؟ ‘‘ میں کوشش کے با وصف اپنی چیخ نہ روک سکی، ’’ مہندی کیا اس کے بغیر ہی ہو جائے گی، اس نے صبح مجھے کال کر کے بتایا تھا کہ وہ روانہ ہو رہا ہے۔۔۔ دس بارہ گھنٹے میں اسے پہنچ جانا چاہئے تھا!!‘‘
’’ کوئی مسئلہ ہو گیا ہو گا بہنا ۔۔۔ ‘‘ بھائی صاحب نے مجھے ساتھ لپٹا لیا، ان کا وجود لرز رہا تھا ، مجھے احساس تھا کہ اپنی بیٹی سے جدائی کی سوچ سے ان کی یہ کیفیت تھی۔
’’ ایسا بھی کیا مسئلہ ہو گیا۔۔۔ ‘‘ میں بڑبڑائی۔
’’ میرا خیال ہے کہ اب تقریب ختم کی جائے۔۔۔ ‘‘ بلال کے ابا نے کہا۔
’’ لڑکیوں بالیوں کو شغل لگا لینے دیں!! ‘‘ میں نے کہا اور واپس وہیں پہنچی جہاں اب شازیہ کے دونوں ہاتھ مہندی کے رنگوں اور خوشبوؤں سے سجے مہک رہے تھے۔۔۔ لال لال رنگ!! میں بیٹھی تو جسم میں عجیب سی بے چینی نے گھر کر لیا، مجھے سب کچھ برا لگنے لگا، سب نے بلال کا پوچھا مگر میرے پاس ان کے لئے کوئی امید افزاء جواب نہ تھا، شازیہ کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا، اس کی نظروں میں انتطار کی جوت تھی، مجھے اس پر ترس بھی آیا مگر کیا کرتی۔
گھر واپس پہنچ کر بھی نیند آنکھوں سے کوسوں دور۔۔۔ ’’ سو جاؤ!!‘‘ بلال کے ابا نے کہا تھا، میں نے کروٹ بدلی، آنکھیں جانے کیوں نیر بہانے لگیں، بلال کے ابا اٹھ کر باہر چلے گئے، میں نے کھڑکی سے دیکھا، باہر اپنے دامادوں کے ساتھ کھڑے تھے، یقیناًکل کے انتظامات کا جائزہ لے رہے ہوں گے، مجھے نیند نہ آ رہی تھی، تھوڑی دیر کے بعد وہ آئے اور زبردستی مجھے نیند کی ایک گولی دے دی، ہولے ہولے وہ باتیں کر رہے تھے اور میں جانے کس وقت نیند کی وادی میں اتر گئی۔۔۔ فجر کے قریب آنکھ کھل گئی، نماز پڑھ کر فارغ ہوئی، کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھا، باہرشامیانے اور قناتیں نظر آئیں۔۔۔ شادی ہال میں تقریب تھی، گھر پر شامیانے اور قناتیں لگوانے کی کیا ضرورت تھی، مجھے بھائی صاحب کا چہرہ نظر آیا تو میں ٹھٹھکی، وہ اتنی سویرے یہاں کیا کر رہے تھے؟؟ انہیں بھی غالباً میں کھڑکی میں کھڑی نظر آ گئی تھی، تبھی وہ بلال کے ابا کے ساتھ اندر آ گئے۔
’’ تھوڑی دیر میں بلال پہنچنے والا ہے۔۔۔ ‘‘ انہوں نے میرے سر پر اپنا لرزتا ہوا ہاتھ رکھا۔
’’ اسی لئے آپ اتنی سویرے سویرے آ گئے ہیں؟ ‘‘ میں نے مسکرا کر پوچھا۔
’’ ہاں !!‘‘ ان کی آواز بھی بھرائی ہوئی تھی۔۔۔ بیٹیوں کے باپوں پر کیسا مشکل وقت ہوتا ہے، بھائی صاحب تو بہت ہی کمزور پڑ رہے تھے، میں نے ان کی کیفیت دیکھ کر سوچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باہر کیسی دھمک تھی، جانے کتنی ہی گاڑیوں کی آوازیں۔۔۔ میں تھر تھر کانپنے لگی۔۔۔ میری ممتا کانپنے لگی۔۔۔ ’’ نہیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ‘‘ میں ہذیانی انداز میں چیخنے لگی۔۔۔ ’ ’ اسے کہیں مت آئے۔۔۔ نہیں چاہئے مجھے اس طرح کا آنا!!‘‘ میری چھٹی حس نے مجھے بتا دیا تھا کہ میرا دولہا بیٹا کسی ا ور طرح کا دولہا بن کر آیا تھا۔۔۔ کوئی سہرا سجا کر آیا تھا!!!
بلال کے ابا نے مجھے اپنی بانہوں کے حلقے میں سمیٹ لیا۔۔۔ ایسا زندگی میں کبھی پہلے کب ہوا تھا بھلا، وہ مجھے سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے اور میں ان کے ہاتھوں سے نکلی جا رہی تھی۔
’’ مجھے مت بتائیں کہ وہ کس طرح آ رہا ہے!!! ‘‘ میں ان کی منتیں کر رہی تھی ۔
گیٹ پورا کھلا ہوا تھا، وہ کتنے ہی باوردی کاندھوں پر سوار تھا، اسے لانے والوں نے اسے صحن کے عین بیچ میں رکھا۔۔۔ سیدھے ہو کر سیلوٹ کیا، میری طرف آئے اور میرے سامنے پاکستانی کے پرچم پر اس کی ٹوپی رکھی۔۔۔ یہ ٹوپی اس سر سے اتری تھی جس سر پر اس وقت میں سہرا سجا رہی ہوتی!! بہنیں اسے جوڑا پہناتیں، مگر وہ تو وہیں سے تیار ہو کر آیا تھا، اس کی بارات بھی اس کے ساتھ تھی، گھوڑے پر بیٹھ کر وہ شان سے بارات لے کر جاتا، اس سے بھی زیادہ شان سے وہ آیا تھا ۔۔۔ ابدی حیات پا کر ۔۔۔ مگر میں مر گئی تھی، میرے ارمان اور میری خواہشیں مر گئی تھی۔
جس کے ہاتھوں پر لہو رنگ مہندی رچی تھی۔۔۔ اس کے جذبات مر گئے تھے، میں نے پتھر سے مضبوط جگر کیا مگر میرے اندر ہمت نہ تھی کہ میں اپنے سوئے ہوئے لال۔۔۔ اپنے بلال کو دیکھ پاتی۔ کل وہ میری کوکھ سے میری گود میں آیا تھا۔۔۔ چار دن میں نے اسے اپنی گود میں کھلایا تھا، نوسال پہلے فقط انیس برس کی عمر میں وہ اس گھر سے نکلا تھا اور مادر وطن کی حفاظت کا عہد کیا تھا۔۔۔ اس نے مادر وطن سے کیا گیا عہد نبھایا تھا، میرے دل کو خالی کر کے اس نے دھرتی کی آغوش میں سونے کا انتخاب کیا تھا، وہ اپنی یونٹ سے گھر کے لئے روانہ ہوا تھا۔۔۔ اس نے شازیہ کو بیاہ کر لانا تھا اور میرا آنگن آباد ہونا تھا، مگر میرا تو دل بھی ویران ہو گیا تھا!!! میرا اکلوتا بیٹا، میری عمر بھر کی امیدوں کا مرکز۔۔۔ میری بیٹیوں کا اکلوتا بھائی، ان کے میکے کا مان!!!
’’ اسے جانے سے پہلے ایک بار تو دیکھ لو۔۔۔ ‘‘ اس کے ابا نے آ کر مجھ سے کہا۔
’’ نہیں دیکھ سکتی، مجھے مجبور نہ کریں، ہمت نہیں مجھ میں!!‘‘ میری ٹانگوں میں ایک انچ ہلنے کی سکت نہ تھی۔
’’ بعد میں پچھتاؤ گی کہ اسے جاتے ہوئے دیکھ بھی نہ سکی!!‘‘ بھیا نے کہا تھا۔
’’ بھیا۔۔۔ ‘‘ میں سسکی، ’’ میری آنکھوں کے سامنے کچھ اورنہیں ،صرف اس کا ہنستا اور مسکراتا چہرہ ہے۔۔۔ ‘‘
گھر میں آہیں، کراہیں، سسکیاں، چیخیں، نوحے۔۔۔ سب آوازیں تھیں، ایک میرے اندر ساری آوازیں مر گئی تھیں، میرے بین میرے اندرر دفن ہو گئے تھے۔۔۔
ہسپتال کے اس وارڈ میں مجھ جیسے کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں غموں کی شدت نے مار ڈالا ہے، مجھ سے اس کی جدائی کا غم برداشت نہیں ہوا، ڈاکٹر کوشش کر رہے ہیں مگر میری آنکھیں، میری زبان اور میری ٹانگیں۔۔۔ صدمے کے باعث کام چھوڑ گئی ہیں، میرے منہ سے بے معانی سی آوازیں نکلتی ہیں، آنکھوں میں دھندلا پن اتر آیا ہے۔۔۔ غم کا پہاڑ گرا ہے مجھ پر، مگر سب کہتے ہیں کہ میں آنسو نہ بہاؤں ،روؤں نہیں کیونکہ شہید مرتے نہیں۔۔۔ شہید تو نہیں مرتے مگر اپنے پیاروں کو تو ہمیشہ کے لئے اکیلے پن کی قبر میں دفن کر جاتے ہیں!!!