خبرنامہ

فوج کا وقار اور جنرل باجوہ کا کردار۔۔اسداللہ غالب

لمحہ موجود میں فوج اور جنرل باجوہ لاز م وملزوم ہیں۔
وہ میجر جنرل کے طور پر آئی ایس پی آر کے سربراہ بنے اور اب لیفٹننٹ جنرل کے منصب پرترقی پانے کے بعد بھی ا سی منصب پر فائز ہیں۔یہ بھی ایک نئی بات ہے بلکہ اسے نئی روائت بننا چاہئے ۔جنرل باجوہ نے ا س منصب کو نئی عزت بخشی ہے اور فوج کے وقار کی جنگ بھی کامیابی سے لڑی ہے۔
بہت سے میرے دوست ایسے تھے جو پیش گوئی کر رہے تھے کہ مخصوص وجوہات کی بنا پر جنرل باجوہ کو ترقی نہیں ملے گی مگر جنرل باجوہ نے ثابت کیا کہ وہ فوج کے لئے ناگزیر ہیں اور مخصوص وجوہ اپنا سر پیٹتی رہ گئیں، کوئی کہتا تھا کہ انہوں نے آرمی چیف کا امیج آسمان پر چڑھا دیا ہے۔ایک صاحب نے میرے کان میں سر گوشی کہ وہ جنرل مشرف کی قریبی ٹیم کا حصہ تھے۔مگر آرمی چیف کی عزت کو بڑھانا کونساجرم ہے ا ور مشرف کے گیارہ سالہ دور میں کس نے ان کے ساتھ کام نہیں کیا، ساری فوج ہی ان کی ٹیم کا حصہ تھی، ان سب کو تو گھر نہیں بھیجا جا سکتا۔ جنرل مشرف کے بہت سے قریبی ساتھی تو آج وزارتوں پر فائز ہیں، کچھ سفارتوں پر۔بعض لوگوں کو شہرت اور عزت ان کی خداداد اور ذاتی صلاحیتوں کی وجہ سے ملتی ہے۔
اس وقت فوج میں اکیلے آرمی چیف کا امیج بلند نہیں ہوا، کور کمانڈر کوئٹہ جنرل جنجوعہ نے بھی عزت کمائی اور ا سکا فوری پھل پایا، اس وقت کور کمانڈر کراچی جنرل نوید اپنی دھاک بٹھاچکے ہیں ، پشاور کے سابق کور کمانڈر جنرل ربانی جنہوں نے شمالی وزیرستان کی اوکھلی میں سر دیااور ان کا بیٹا بھی اس محاذ پر شجاعت کی داستان رقم کر رہا تھا، ان کو بھی لوگوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا اور پلکوں سے چوما۔
جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک چومکھی جنگ لڑی، میڈیا، دہشت گردوں کے خوف میں مبتلا تھا یا ان کا حلیف تھا، ٹی وی چینل دہشت گردوں کے لائیو انٹرویو نشر کر رہے تھے، بھارت اور مغربی دنیا پاک فوج پر جو الزم تراشی کرتی ، ہمارا میڈیا اس میں نمک مرچ لگا کر اسے دو آتشہ کر دیتا، مذہبی طبقے کھلم کھلا دہشت گردوں کے حامی تھے اور سیاسی پارٹیاں بشمول حکمران جماعتیں بھی دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی تھیں۔ان دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا تھا جنہوں نے دو مرتبہ جنرل مشرف پر قاتلانہ حملہ کیا اور پھر انہیں اس قدر حوصلہ ملا کہ وہ جی ایچ کیو پر بھی چڑھ دوڑے۔سول سوسائٹی کا بڑا طبقہ فوج کو بے نقط سنا رہا تھا۔
اس پس منظر میں جنرل راحیل شریف منظر پر ابھرے ، مگروہ کسی الگ مٹی کے بنے ہوئے تھے، اس مٹی میں ان کے بڑے بھائی کا جوان، گرم خون بھی شامل تھا۔میں پہلے سے جانتا تھا کہ جنرل راحیل اورجنرل باجوہ میں قربت کے تعلقات تھے، ا س سے جنرل باجوہ کا کام مزید آسان ہو گیا۔ ایک اور ایک مل کر گیارہ ہو گئے، جنرل راحیل نے فوجی ہائی کمان کی تنظیم نو کی۔ وہ اپنے فیصلے بسرعت تمام کر تے چلے گئے ، جب جنگ چھڑ چکی ہو تو پھر کسی کے احکامات کی ضرورت نہیں ہوتی، دنیا کا کوئی آئین دفاع وطن کی جنگ میں فوج کے پاؤں کی زنجیر نہیں بنتا۔ جنرل راحیل کے پہاڑ جیسے حوصلوں سے جنرل باجوہ شیر کی طرح گرجنے لگے، انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر فوج کا نقطہ نظر بیان کیا۔ انہوں نے ہر دروازے پر دستک دی، اخبارات کے دفاتر، ٹی وی چینلز کے ہیڈ کوراٹرز ، اور کالم نگاروں کے گھر،ہر پلیٹ فارم پروہ سرگرم نظر آئے، انہوں نے ہر منفی سوال سنا اور ہر سوال کا خندہ پیشانی سے مثبت جواب دیا، سوال کرنے والا ان کے سامنے مطمئن ہو جاتا تھا اور تنقید و تنقیص کی مزید گنجائش باقی نہیں رہتی تھی۔ صاف گوئی اور کھرے لب و لہجے میں بات کرنے والا جنرل باجوہ بہت جلداپنی حیثیت منوانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔
آج کی دنیا میں سوشل میڈیا ،پروپیگنڈے کا نیا محاذ ہے، جنرل باجوہ نے اس محاذ پر دنیا کی ہر فوج کے مقابلے میں پہل قدمی کی،ٹوئٹر پر ان کے چندفقرے ملکی ا ور غیر ملکی میڈیا کی ہیڈ لائنیں بنے اور ٹی وی چینلز کے لئے بریکنگ نیوز۔میڈیا کے بڑے بڑے ٹائی کونز اس پر شسدر رہ گئے۔مخالفین تو اس لفظی گولہ باری کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔
یہ جنرل باجوہ کی ٹیکنیک اور حکمت عملی تھی کہ امریکی میڈیا نے جنرل راحیل کو طاقتور تریں جرنیل قرار دے ڈالا، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پاکستانی معاشرے کو جنرل راحیل کے خلاف کھڑا کیا جائے ا ور ان کی روز افزوں شہرت کو بریکیں لگائی جائیں۔مگر جنرل راحیل کے پیچھے کھوکھلا پراپیگنڈہ نہیں تھا، انہوں نے ٹھوس کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، افغانستان میں امریکہ اور اس کے نیٹو کے اتحادی جو جنگ بارہ برس میں ہار گئے تھے، وہ جنرل راحیل نے ایک ڈیڑھ سال کے اند جیت کر دکھا دی، آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو فاٹا کا ایک علاقہ سول انتظامیہ کے سپرد کیا جا چکا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ فوج نے ایسے ہی تیز رفتار نتائج کا مظاہرہ جنرل کیانی کے دور میں سوات ا ور مالا کنڈ آپریشن میں بھی کیا تھامگر اسے بعد میں برقرار نہ رکھا جا سکا، اس کی وجہ فوج نہیں،بلکہ سیاستدان تھے جو دہشت گردوں سے مذاکرات کے حامی تھے ۔ اب تو وزیر اعظم نے بھی اعتراف کر لیا ہے کہ جو لوگ مذاکرات کی زبان ہی نہیں سمجھتے تھے اور صرف گولی کی زبان میں بات کرتے تھے، ان کے خلاف آپریشن ناگزیر ہو گیا۔ وزیر اعظم کو یہ احساس آرمی پبلک اسکول میں ننھے پھولوں کے خون کی ندیاں بہنے پر ہوا۔یہ ایک قومی سانحہ تھا مگر شکر کی بات یہ ہے کہ قوم اس کے بعد یک سو ہو گئی ، خواہ وقتی طور پر سہی! اور فوج نے ایسا آپریشن شروع کیا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور دنیا کی کوئی فوج ایسی جنگ میں قدم رکھنے سے ڈرتی تھی، فاٹا کے علاقے میں فاتحین عالم بھی دور دور ہی سے گزر گئے،یہاں توبقول حفیظ جالندھری باد صر صر بھی ڈر ڈر کے قدم رکھتی ہے مگر پاک فوج کے گوشت پوست کے جوان اور افسر ان پہاڑوں کی غاروں اور ان کی سنگلاخ چوٹیوں پر بظاہر ناقابل تسخیر مورچوں سے ٹکر اگئے۔
جنرل باجوہ وہ شخص ہے جس نے پاک فوج کے اس آپریشن کی کامیابی کا ڈنکا بجایا اور اقوام عالم کے منہ سے اس کے لئے توصیفی کلمات نکلوائے۔ پینسٹھ کی جنگ میں پاکستان ا ور بھارت کا کوئی مقابلہ ہی نہ تھا، بھارت نے جارحیت کے تمام فوائد اٹھائے مگر اس جنگ میں جسے بھارت اپنی فتح خیال کرتا ہے، اسے ہم نے پراپیگنڈے کے محاذ پر شکست دے ڈالی، یہ ایوب خان کے مصاحب الطاف گوہر کا کارنامہ تھا۔
مگر آج تو ہم نے ہر لحاظ سے جنگ جیت لی ہے، اسے بھی شکست میں ڈھالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیامگر جنرل باجوہ کے سامنے کسی کی دال نہ گلی۔
پراپیگنڈے کی دنیا میں آج تک ایک ہی نام سامنے آیا ہے، وہ ہے گوئبلز کا جس کا نظریہ تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگ جائیں مگر جنرل باجوہ نے پراپیگنڈے کی تاریخ میں ایک نئے باب کاا ضافہ کیا ہے کہ سچ کو جھوٹ ثابت کرنے والوں کے منہ بند ہو گئے۔
ابلاغیات کے شعبے میں پراپیگنڈے پر جب بھی بات ہو گی تو بڑے بڑے محقق جنرل باجوہ کی کامیاب حکمت عملی کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
میں یہ کالم تاخیر سے لکھ رہا ہوں ، یہ اصل میں باجوہ صاحب کی ترقی پر مبارکباد کے طور پر ہے اورا سے کئی ہفتے پہلے لکھا جانا چاہئے تھا مگر جب سولہ دسمبر کو آئی ایس پی آر نے نیا قومی نغمہ ریلیز کیا کہ مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے اور میرے ننھے پوتے عمر نعیم اور عبداللہ نعیم نے فوری طور پر انٹرنیٹ پر اس کا متن تلاش کر کے اسے یاد کرنا شروع کر دیا تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور میرے قلم کا سیلوٹ جنرل صاحب کے شاہنامے کے سامنے انتہائی عاجزی سے حاضر ہے، گر قبول افتد زہے عز و شرف !!
جنرل باجوہ ایسے فوجی نہیں ہیں جن کے بارے میں زرداری نے کہا کہ وہ تو تین سال بعد چلے جائیں گے ، ہم نے ساری عمر یہیں رہنا ہے، زرداری کیا جانے کہ انسان کو قبولیت عامہ کیسے ملتی ہے اور اسے لافانی عزت اور وقار کی زندگی کیسے نصیب ہوتی ہے۔یہی وہ نابغے ہیں جو دلوں پر ، دماغوں پر ، جذبات پر، سوچوں پر حکومت کرتے ہیں اور تاریخ کی کہکشاں میں جگمگاتے ہیں۔
December 19, 2015