خبرنامہ

چھ ستمبر کی گلستان و بوستاں۔۔۔ اسداللہ غالب

پینسٹھ میں ہمارے شہیدوں اور غازیوں نے اپنے خون سے ملک وقوم کے مستقبل کی آبیاری کی۔ ایک کمینہ ا ور عیار ہمسایہ ہماری آزادی سلب کرنے نکلا تھا،ا س نے چوروں کی طرح رات کے اندھیرے میں لاہورا ور قصور پر یلغار کر دی، پھر جنگ کا میدان وسیع کر کے چونڈہ میں ٹینکوں سے چڑھائی کر دی۔
پاکستان اور بھارت کی جنگی طاقت کا کوئی موازنہ ہی نہ تھا، ہم اس کم از کم دفاعی صلاحیت سے بھی محروم تھے جو جارحیت کو روکنے کے لئے ضروری خیال کی جاتی ہے۔مگر اللہ نے ہمیں ایمان کی ایک ایسی طاقت عطا کی ہے جس کے سامنے پہاڑ بھی رائی بن جاتے ہیں۔
چھ ستمبر کے سائے پھیلتے چلے جا رہے ہیں،اس روز فیلڈ مارشل ایوب خاں نے ریڈیو پر قوم سے کہا کہ وہ لا الہ کا ورد کرتے ہوئے بزدل دشمن پر ٹوٹ پڑے، آج جنرل راحیل شریف نے دشمن کو متنبہ کیا ے کہ ہم بھارت، راا ور ہر دشمن سے نبٹنے کے لئے تیار ہیں ا ورا سکے لئے آخری حد سے بھی آگے جائیں گے۔
دشمن کا دماغ چل گیا ہے کہ یہ آخری حد کیا ہوتی ہے۔
چھ ستمبر پینسٹھ کو ہم نے اپنی آنکھوں سے ایک پاکستانی قوم کا منظر نامہ دیکھا۔آج ہمیں زبان سے کہنا پڑتا ہے کہ فوج، حکومت اور عوام ایک پیج پر ہیں مگر ا س روز اندھے کو بھی نظرآ رہا تھا کہ جسد قومی میں کس طرح بجلیاں لہرا رہی ہیں۔عام طور پر سرحد پر فوج لڑتی ہے مگر چھ ستمبر کے سورج نے دیکھا کہ اہل لاہور جو ق در جوق باٹا پور کی طرف رواں دواں ہیں،فضا میں بمبار طیاروں کی گر گڑ اہٹ تھی، دور کہیں رانی توپیں چنگھاڑ رہی تھیں، ہمارے جوان نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے دشمن پر جھپٹ رہے تھے ا ور عوام ان کو گولہ بارود اٹھا اٹھا کر دے رہے تھے۔ یہ وہ دن تھا جب لاہور کی خواتین بھی میدان میں نکل آئی تھیں اور کپڑے دھونے والے تھاپے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے بی آر بی کی طرف بھاگی چلی جا رہی تھیں۔فوج نے ان سب کو تسلی دی کہ آپ گھریلومحاذ سنبھالیں، ہم دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کے لئے کافی ہیں۔
یہ ایک عجیب منظر تھا، چشم فلک نے ایسادلکش اور ایمان افروزمنظر صدیوں بعد دیکھا تھا، مسلمان زوال کا شکار تھے ا ور ہر محاذ پر شکست کھا چکے تھے مگر لاہور اور قصور کے محاذ نے زوال کو عروج میں بدل دیا، قصور میں تو ہم تیز رفتار پیش قدمی کتے ہوئے کھیم کرن سے آگے نکل گئے، یہاں دشمن کے ٹینکوں کا قبرستان بنا، اور باقی ٹینک پکڑے گئے جنہیں قصور کے اسٹیل باغ میں نمائش کے لئے لا کر رکھ دیا گیا، انہی ٹینکوں پر بیٹھ کر میرے مرشد مجید نظامی نے یادگار تصویر کھینچوائی تھی۔
لاہور کے محاذ نے نئی تاریخ رقم کی،عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کہلائے، اور میجر شفقت بلوچ نے بھارتی فوج کو ہڈیارہ نالے کے گندے پانی میں غرق کیا، اور اٹھارہ بلوچ نے بی آر بی کے پار جوابی حملہ کر کے حملہ آوربھارتی میجرجنرل نرنجن پرشاد کی کمانڈ جیپ کو گھیرے میں لے کر اپنے قبضے میں لے لیا، بھارتی جنرل بزدلوں کی طرح گنے کے کھیتوں میں جا چھپا مگر آٹھ ستمبرکی شام کو اس کے فیتے اتروا لئے گئے ا ور ا س کا کورٹ مارشل ہو گیا کیونکہ اس کی جیپ سے پاک فوج کو جنگی نقشے اور پورا وار پلان بھی قبضے میں کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ایک طرف بھارتی فوج کی یہ درگت بن رہی تھی، دوسری طرف آکاش وانی جھوٹ پہ جھوٹ بول رہا تھا کہ ا س کی فوج انارکلی میں مٹر گشت کر رہی ہے۔ ویسے توبھارتی جرنیل نرجن پر شادنے بھی بڑھک ماری تھی کہ وہ چھ ستمبر کی شام لاہور جم خانہ میں جام فتح نوش کرے گا مگر اس کے کور کمانڈر نے اسے گنے کے کھیتوں میں چھپے نکالا تو وہ کیچڑ سے لت پت تھا۔
لاہوریوں کا جذبہ دیکھنے کے لائق تھا، ادھر ہوائی حملے کے سائرن بجتے،ا دھر زندہ دلان لاہور چھتوں پر چڑھ جاتے اور فضا میں ڈاگ فائٹ دیکھ کر بو کاٹاکے نعرے لگاتے۔مجھے وہ ڈاگ فائٹ آج بھی یاد ہے جب میں انارکلی کی بائبل سوسائٹی کے سامنے بے خطر کھڑا تھا۔ اور جب ایم ایم عالم کے طیارے نے اسپیڈ بیریئر توڑا تو ایسے دھماکے ہوئے جیسے کہیں عقب میں بم گر گئے ہوں، میں اس وقت گورنمنٹ کالج کے فرسٹ فلور پر انگلش کی کلاس میں بیٹھا ہوا تھا۔کیا مجال کسی طالب علم کے چہرے پر خوف کے ذرہ بھر آثار ہوں۔پروفیسر ارشاد علی نے اپنی مدھم آواز میں لیکچر جاری رکھا۔
دشمن کو لاہور کے محاذ پرمنہ کی کھانا پڑی توا س نے مغربی پاکستان کو دو ٹکڑوں میں بانٹنے کے لئے چونڈہ کے محاذ سے اپنا بکتر بند ڈویژن جھونک دیا مگر پاک فوج نے اسے ظفروال، شکر گڑہ اور چونڈہ سے آگے نہ بڑھنے دیا، یہی وہ جنگ ہے جس میں ہمارے فوجی بم بن کر بھارتی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے، آج کل ٹینکوں کے آگے لیٹنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔مگر آج تک کی جنگی تاریخ میں شجاعت کی مثال صرف چونڈہ کے محاذ پر رقم کی گئی، ترک عوام کی کیا مجال کہ وہ ٹینکوں کے سامنے لیٹیں، کیا پدی کیا پدی ،کیا پدی کا شوربہ، جس قوم کے ٹینک اپنے پڑوسی شام پر گولہ باری کرتے ہوں اور ترک عوام کو ان ٹینکوں کامنہ موڑنے کی توفیق نہ ہو، وہ استنبول میں رات کی تاریکی میں ٹینکوں کے آگے کیا خاک لیٹیں گے۔
سلیمانکی کے محاذ پر بھی دشمن کو منہ کی کھانا پڑی، یہاں اس کا پا لا میجر عزیز بھٹی نشان حیدر کے خاندان کے ایک عزیز میجر شبیر شریف سے پڑا، یہاں بھی دشمن نے شکست فاش کا مزہ چکھا، بھارتی جارحیت کرنے والے میجر کو قیدی بنا لیا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔
میں درمیان میں اکہتر کو جان بوجھ کر نہیں چھوڑ رہا، مجھے اس پر ذرہ شرمندگی نہیں اور میں آئندہ دسمبر میں انشااللہ جو کالم لکھوں گا ،ا س میں دلائل سے ثابت کروں گا کہ ہماری فوج کو مشرقی پاکستان کے محاذ پر سولہ دسمبر کی صبح تک کہیں بھی شکست نہیں ہوئی۔ مگر سرنڈر کیوں ہوا، یہ کہانی میں آپ کوپھر کبھی سناؤں گا۔
آج ہم ایک نئے انداز سے چھ ستمبر سے گزر رہے ہیں، قوم کے لبوں پر وہی فاتحانہ مسکراہٹ کھیل رہی ہے، جنرل راحیل شریف نے پاکستان کے خلاف نبرد آزما دہشت گردوں کو رسوا کن شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ اب دہشت گردوں کے بجائے اس کا سرپرست اورآقا بھارت سامنے آنا چاہتا ہے تو راحیل شریف نے کہہ دیا کہ ہر دشمن سے نبٹیں گے اور آخری حد تک جائیں گے، بھارت کو اچھی طرح علم ہے کہ یہ آخری حد کیا ہے، یہ حد ضیاالحق نے راجیو کو بتا دی تھی، ابھی تو بھارت کشمیری نوجوانوں کے زور بازو کا مزہ چکھ لے ، پھر بھی بھارت میں کوئی دم خم بچا تو ہم بھی ا سے دیکھ لیں گے۔