خبرنامہ

کرشماتی سپاہ سالار نے ریٹائر منٹ کااعلان کیوں کیا….قیوم نظامی

پاکستان کی عسکری تاریخ کے کرشماتی سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ میں ابھی دس ماہ باقی ہیں انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اپنے وقت پر ریٹائرہوجائینگے۔ انکی توسیع کے بارے میں قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ وہ مدت ملازمت میں توسیع میں یقین نہیں رکھتے۔ افواج پاکستان ایک عظیم قومی ادارہ ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ پورے عزم کے ساتھ جاری رہے گی اور قومی مفاد کا تحفظ کیا جائیگا۔ سپہ سالار پاکستانی قوم اور سیاستدانوں کیلئے حیران کن ثابت ہوا کیونکہ یہ توقع ہی نہیں کی جارہی تھی کہ سپہ سالار مدت ملازمت ختم ہونے سے دس ماہ پہلے اپنی ریٹائرمنٹ کے بارے میں اعلان کردینگے۔ سوال یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کو وقت سے بہت پہلے یہ اعلان کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ مفاد پرست عناصر اپنے مذموم مقاصد کی خاطر جنرل راحیل شریف کو غیر فعال بنانے اور فوج میں کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ جنرل راحیل شریف نے اپنی اصول پرستی اور ادارے کے وقار کی خاطر وضاحت ضروری سمجھی۔ ان کا فیصلہ باوقار اور خوش آئند ہے جس کے ادارے پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے سابق سپیکر فخر امام سے ملاقات ہوئی انہوں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف چونکہ نیک نیت اور دیانتدار نظریاتی جرنیل ہیں اور انکے کوئی ذاتی عزائم نہیں ہیں اس لیے وہ اپنے وقت پر ریٹائر ہو جائینگے۔ فخر امام کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ جنرل راحیل شریف کے دلیرانہ فیصلے سے پاکستان کے نیک نام اور دانا جسٹس (ر) کے ایم اے صمدانی مرحوم بہت یاد آئے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انسان کو عزت اور موت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو اسے عزت کا انتخاب کرنا چاہیئے کیونکہ انسان عزت سے محروم ہوجائے تو وہ اسے دوبارہ نہیں مل سکتی جبکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں وہ کسی لمحے ختم ہوسکتی ہے۔بھٹو شہید نے بھی اپنی عزت اور وقار کیلئے پھانسی قبول کرلی تھی۔ بھٹو کے دور میں خورشید حسن میر پی پی پی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور ریلوے کے وزیر تھے۔ مولانا کوثر نیازی نے ایک جلسہ عام میں کہا کہ بعض افراد کے ہاضمے اس قدر تیز ہوتے ہیں کہ وہ ریلوے کے انجن بھی ہضم کرجاتے ہیں۔ خورشید حسن میر محب الوطن نظریاتی سیاستدان تھے۔ انہوں نے پارٹی کے منصب اور وزارت دونوں سے استعفیٰ دیدیا اور بھٹو شہید سے اس الزام کی انکوائری کا مطالبہ کیا۔ جنرل ایوب خان نے ایک محفل میں جسٹس کیانی سے کہا کہ اگر حکومت آپکے فیصلوں پر عمل نہ کرے تو آپ کیا کرلیں گے۔ جسٹس کیانی نے جواب دیا کہ سب جج استعفیٰ دے دینگے اور آپکی دنیا میں کیا عزت رہے گی۔ عزت اور وقار کیساتھ زندگی گزارنے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کا شمار ایسے ہی عظیم لوگوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کیلئے خون دینے والے کبھی دھرتی اور اسکے اداروں کے وقار کو دائو پر نہیں لگایا کرتے۔
جنرل راحیل شریف کے اعلان سے ان کی عزت اور وقار میں مزید اضافہ ہوا ہے البتہ انکے اعلان سے معاشی دہشت گردوں اور سہولت کاروں نے سکھ کا سانس لیا ہوگا جن کی راتوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ انکا خیال تھا کہ مارچ میں نئے آرمی چیف کی نامزدگی ہوجائیگی اور جنرل راحیل شریف “Lame Duck” یعنی ’’لنگڑی بطخ‘‘ بن کر رہ جائینگے۔ جنرل راحیل شریف نے بروقت اعلان کرکے ان امکانات کو ختم کردیا ہے۔ اب وہ نومبر 2016ء تک مکمل طور پر فعال اور متحرک رہیں گے اور اگلے دس ماہ میں دو سال کا کام کرجائینگے۔ جنرل راحیل شریف نے پاکستان اور افواج پاکستان کے وقار اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کیلئے مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہونے کا اعلان کیا۔ وہ نام کے بھی شریف ہیں اور کام کے بھی شریف ہیں ایسی گوہر نایاب شخصیتیں ہی ملکوں کو سنوار سکتی ہیں مگر پاکستان کے استحصالی اور مفاد پرست معاشرے میں جنرل راحیل شریف جیسے محب الوطن افراد کی صلاحیتوں سے پورا فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا۔ پاکستان سے محبت کرنیوالوں کی دلی خواہش تھی کہ جنرل راحیل شریف جیسی بے مثال عسکری قیادت ضرب عضب کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے کچھ عرصہ اور منظر پر رہے۔ انکے اعلان سے محب الوطن عوام یقینی طور پر مایوس ہوئے ہیں۔ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق جنرل راحیل شریف کے جانشین بھی دہشتگردی کیخلاف جنگ کو اسی جذبے، عزم اور حوصلے کیساتھ جاری رکھیں گے اس لیے انتہا پسندوں، دہشتگردوں ، انکے سہولت کاروں اور معاشی دہشتگردوں کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیئے۔ سپہ سالار کا فیصلہ پورے ادارے کا فیصلہ ہوتا ہے جو سپہ سالار کی تبدیلی کے بعد بھی جاری و ساری رہتا ہے۔ افواج پاکستان کے سپہ سالاروں کی تاریخ کا طائرانہ جائزہ قارئین کی دلچسپی کا سبب ہوگا۔
پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل فرانک میسوری (6ماہ)، دوسرے جنرل گریسی (3سال)، تیسرے جنرل ایوب خان (7سال)، چوتھے جنرل موسیٰ خان (8سال)، پانچویں جنرل یحییٰ خان (5سال)، چھٹے جنرل گل حسن (ایک سال، انہیں جبری ریٹائر کردیا گیا)، ساتویں جنرل ٹکہ خان (4سال)، آٹھویں جنرل ضیاء الحق (12سال)، نویں جنرل اسلم بیگ (3سال)، دسویں جنرل آصف نواز (2سال، وہ دوران ملازمت وفات پاگئے)، گیارہویں جنرل وحید کاکڑ (3سال ، انہوں نے حکومت کی پیش کش کے باوجود توسیع نہ لی)، بارہویں جنرل جہانگیر کرامت (2سال 9ماہ ، انہوں نے ریٹائرمینٹ سے تین ماہ قبل استعفیٰ دیدیا)، تیرہویں جنرل پرویز مشرف (9سال)، چودھویں جنرل اشفاق پرویز کیانی (6سال)، پندرھویں جنرل راحیل شریف (3سال) افواج پاکستان کے آرمی چیف رہے۔ پندرہ میں سے سات آرمی چیفس نے توسیع نہ لی۔ جنرل راحیل شریف نے پوری دنیا میں پاکستان اور افواج پاکستان کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔ انہیں بے مثال قومی خدمات کی بناء پر نسل در نسل یاد رکھا جائیگا۔ پاکستان کے سیاستدانوں، صحافیوں اور دانشوروں نے جنرل راحیل شریف کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے البتہ ان کیلئے اپنی نمازوں میں دعائیں کرنیوالے عوام کے ذہنوں میں یہ خدشات ضرور موجود رہیں گے کہ کیا نیا آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے جذبے اور عزم کو برقرار رکھ سکے گا۔ خدا کو منظور ہوا تو جنرل راحیل شریف کی شاندار اور یادگار روایت تا دیر جاری رہے گی اور پاکستان دہشتگردی اور کرپشن سے پاک ملک بن جائیگا۔
تاریخی انکشاف: محترمہ بے نظیر بھٹو نے معروف دفاعی تجزیہ نگار اور معروف کتاب”Crossed Swords” کے مصنف شجاع نواز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’میں چاہتی تھی جنرل وحید کاکڑ اپنی سروس جاری رکھے۔ وہ ایک زیرک اور فوجی امور کا ماہر پیشہ ور جرنیل تھا۔ وہ مکمل طور پر مداخلت نہ کرنے والا آرمی چیف تھا۔ اس کو سیاست میں ملوث کرنے کیلئے کئی کوششیں کی گئیں۔ اسے اشتعال دلانے اور حکومت کیخلاف کاروائی کرنے کیلئے زہریلے اور مذموم پروپیگنڈے پر مبنی خطوط جاری کیے گئے مگر اس نے سیاسی حکومت کیخلاف کاروائی سے گریز کیا۔ وہ کھل کر بات کرتے۔ میں چاہتی تھی کہ وہ ملازمت میں ایک سال کی توسیع لے لیں۔ بدقسمتی سے وہ توسیع لینے کے حق میں نہیں تھے۔ [شجاع نواز: صفحہ 481]
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ سات سال سے زیر سماعت ہے۔ امریکی لابسٹ مارک سیگل نے گواہی دی ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کو دھمکی دی تھی۔ پی پی پی کی فیڈرل کونسل کے سابق رکن مطلوب وڑائچ نے اپنے کالم بتاریخ 29دسمبر 2015ء میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو کی قریبی ٹیم میں شامل رہے اور انکے پاس بے نظیر بھٹو کے قتل کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ مارک سیگل کی طرح مطلوب وڑائچ کی گواہی کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا جانا چاہیئے تاکہ عدالتی انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں۔
January 27, 2016