خبرنامہ

یوم دفاع۔۔۔آج پھر 1965والے قومی جذبہ کی ضرورت..محمد صباح الدین

پاکستان کے قومی ایام ،یوم پاکستان اور یوم آزادی جہاں ہر سال پورے جوش و خروش وتزک احتشام سے منائے جاتے ہیں وہاں پوری قوم یوم دفاع پاکستان بھی بھر پور طریقے سے مناتی چلی آرہی ہے ، لیکن یوم دفاع کی خاصیت دیکھنے میں یہ آئی ہے کہ اس کے دن کو مناتے وقت قوم کے ہر فرد ،ہر بچے چہرے پر جوش و خروش کے ساتھ ساتھ وہ ایک خاص قسم کا جوش و جذبہ بھی دیکھنے میںآتا ہے جو 1965کی پاک بھارت جنگ کے دنوں میں دیکھنے میں آتا رہا تھاجب پاکستان کی جر ی و بہادر مسلح افواج نے اپنے سے دس گنا زیادہ بڑی فوج کو اپنے اسی جوش و جذبہ کی بدولت ناکوں چنے چبوا دئیے تھے جسے نہ صرف اس وقت خطے کے ممالک کے عسکری تجزئیہ نگاروں اور میڈیا نے زبردست خراج تحسین پیش کیا بلکہ مغربی میڈیا نے بھی افواج پاکستان کی دلیری اور بہادری کی داستانوں کو اپنے صفحہ اول پر جگہ دی۔برطانیوی ،فرانسیسی،جرمنی اور آسڑیلیا کے صف اول کے اخبارات نے اس جنگ میں پاکستانی فوجوں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اسے اپنی ہیڈ لائنز کے طور پر شائع کیا ،آسڑیلیا کے کثیر الااشاعت روزنامہ ’’دی آسڑیلین‘‘ نے اپنی 14ستمبر 1965کے اشاعت میں افواج پاکستان کی جنگی مہارت پر ان کی تعریف کرتے ہوئے اس جنگ میں پاکستانی فوجوں کی کامیابی کو’’پاکستانی فتح ‘‘ قرار دیا جبکہ بھارتی فوجوں کی پسپائی کو اس کی’’ فوجی ناکامی‘‘ سے تعبیر کیا۔
کم عددی حیثیت اور کم جنگی وسائل کے باوجود اپنے سے دس گنا بڑی فوج کومیدان جنگ میں زیر کرنا صر ف اور صرف پاکستانی افواج ہی کا کمال ہے جو شائد دنیا کو کسی اور فورس کے نصیب میں نہ آسکا اور نہ آسکے، اس کی وجہ بہت سادہ اور قابل فہم ہے اور وہ یہ کہ افواج پاکستا ن جب بھی میدان جنگ میں اتریں تو یہ کسی کوبیٹھے بٹھائے تکلیف یا نقصان پہنچانے کی غرض سے نہیں اتریں بلکہ اپنی سرزمین کے دفاع کی خاطر اتریں جبکہ دوسری طرف بھارت نے ہمیشہ اپنی عددی برتری اور بے پناہ جنگی وسائل کے باعث حاصل جنگی غرور و تکبر کی بنیاد پر اپنے سے کم حیثیت پاکستان کو آسان تر نوالہ سمجھتے ہوئے اسے اپنی جارحیت کا نشامہ بنانے کی کوشش کی۔دوسری سب سے بڑی اور اہم ترین وجہ یہ کہ پاکستان کی بہادر مسلح افواج جب بھی میدان جنگ میں اتریں تو ’’اللہ اکبر‘‘ کاقلب کو گرما دینے والا نعرہ اور وطن کے دفاع کا لازوال’’ ایمانی جذبہ‘‘ لئے دشمن پر قہر بن کر ٹوٹیں جو اللہ کے سپاہیوں کا ہی خاصہ ہے ۔اسلامی جنگوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جنگ بدرکی مثال اس سلسلے میں نمایاں طور پر دی جاسکتی ہے جس میں اعلیٰ درجہ جنگی سازو سامان سے آراستہ
ایک ہزار کے قریب کفار کے لشکر کو صرف تین سو تیرہ مجاہدین نے ناک رگڑنے پر مجبور کر دیا جبکہ اسی طرح دیگر کئی مزیدمعرکوں کی مثالیں بھی سامنے موجود ہیں۔سو بات کرنے کا مقصد یہ کہ اللہ کے سپاہیوں پر مشتمل پاک فوج اپنے ایک ایسے’’ خاص ہتھیار ‘‘سے میدان جنگ میں اترتی ہے جس کا نام ’’جذبہ ایمانی ‘‘ ہے جو دوسری کسی غیر اسلامی فوج قوت یا طاقت جو بھی کہا جائے کو حاصل نہیں اور نہ ہی وہ اسے دنیا کی کسی بھی جنگی سازو سامان کی منڈی سے دینا بھر کی دولت اکٹھی کرنے کے باوجود حاصل کر سکتی ہے ۔
افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کے دلوں میں بھی ہمیشہ یہ لازال جذبہ موجزن رہا ہے مگر گذشتہ تین دھائیوں کے دوران الیکڑانک میڈیا کے زریعے پھیلنے والے ہندوستانی کلچر کی رنگینی اس جذبہ کو نوجوان نسل کے دلوں میں زرا سرد کرنے میں کامیاب دکھائی دی،بھارتی فلموں اور فنکاروں کو پاکستانی شائقین کی طرف سے بھر پور پزیرائی ملنے لگی جبکہ دوسری طرف ایک خاص میڈیا ہاؤس بھی اس ضمن میں آگے بڑھنے کی خواہش لئے ’’امن کی آشا ‘‘ کا راگ الاپنے لگا ،اسی طرح اپنے مفادات کے موافق صورتحال کو دیکھتے ہوئے بھارت سے دوستی و تجارت سے کہیں گنا بڑھ کر اسے موسٹ فیورٹ کنڑی کا خطاب دینے کے سیاسی عزائم بھی سر اٹھانے لگے جس سے بھارت کیخلاف قومی غیض وغضب میں کمی آنا شروع ہو گئی ۔مگر چونکہ قدرت کو یہ سب منظور نہ تھا اس لئے دہشتگردی کی نہایت کڑوی گولی ہی سے اس نے شائد اس قوم کے جذبہ حب الوطنی کو پھر سے ترو تازہ کرنا چاہا ۔۔اور ہوا بھی ایسا ہی۔ عین ایسے وقت میں جب قوم خصوصاً نوجوان نسل بھارتی ثقافتی رنگ میں رنگی جارہی تھی کہ ملک میں دہشتگردی کی لعنت نے پنجے گاڑھنا شروع کردیئے ہر طرف دہشتگرد پھیلنا شروع ہو گئے جن کی سفاکانہ کاروائیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑا ،بم دھماکے ،خودکش دھماکے ،قتل و غارت ،لوگوں کو چوراہوں میں قتل کر لاشوں کو لٹکانا معمول بن گیا،تیرہ سال تک بڑھتے بڑھتے بات بالاآخر پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے اہم ترین مراکز تک جا پہنچی ، مذاکرات کی کمزور تدبیر کے نتیجے میں دہشگرد وں کی ہمت اتنی بندھی کہ انھوں نے ملک کے اہم شہروں میں پولیس تھانوں سمیت دیگر پولیس ایف سی مراکز کو نشانہ بنانے کے بعدکامرہ ،راولپنڈی اور کراچی میں اہم ترین حساس مرکز پر ہلہ بول دیا ۔ کرتے کرتے وہ دن بھی آپہنچا،بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی،دہشتگردوں نے آخر کار16 دسمبر 2014 کے روز آرمی پبلک سکول پشاور کے137 معصوم بچوں کو اپنی بربریت و سفاکی کا نشانہ بن کر اپنی تباہی کو دعوت دے ہی ڈالی۔محب وطن افواج پاکستان نے مصلحتوں کو اپنے ’’قوی بوٹوں‘‘ کی ٹھوکر سے ہوا میں اڑا دیا اور بپھرے ہوئے شیر کی طرح دہشتگردوں کی چیر پھاڑکر کہ ارض وطن سے ان کا نام و نشان تک مٹا دیااور جو بچ رہے انھوں نے گیدڑکی طرح راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔
آپریشن ضرب عضب کے کامیاب آپریشن کے نتیجے میں گو کہ آج سرزمین پاکستان دہشتگردی اور دہشگردوں کے ناپاک وجود سے پاک ہو چکی ہے اور امن بحال ہونے کے نتیجے میں قوم نے سکھ کا سانس لیا ہے لیکن یہ سب، تب ہوا جب پوری قوم اور پوری سیاسی و مذہبی قیادت سیسہ پلائی دیوار کی طرح اپنی مسلح افواج کی پشت پر کھڑی ہو گئیں اور ہر محب وطن کے دل میں وہی 1965 والاقومی جذبہ پھر سے موجزن ہوا جس کے بل بوتے پر ہماری دلیر و جری مسلح افواج نے اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت کو شرمناک شکست سے دوچار کر دیا تھا اور یوں اسی قومی جذبہ کی بدولت دہشگردی کیخلاف یہ جنگ بھی جیتنا نصیب ہوئی۔
آج ملک کو قوم کو درپیش اندرونی و بیرونی حالات کے علاوہ ملکی سرحدوں کی نازک صورتحال پوری قوم خصوصاً سیاسی و مذہنی قیادتوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ خدا را اب بھی وقت ہیکہ آپس میں ارض وطن کی سلامتی ،دفاع اور تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیر و ترقی و خوشحالی کیلئے ایک صف میں کھڑے ہو جائیں،اگر ہم متحد ہو گئے تو دنیا کی کوئی طاقت ہماری طرف میلی نگاہ سے دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور اگر خدنخواستہ ہم وقت کی آواز پر لبیک نہ کہہ سکے تو تاریخ ہمیں معاف کرے گی نہ ہی ہماری نوجوان نسل اورنہ ہی ان معصوم بے گناہ شہید ہونے والے آرمی سکول کے بچوں کی روحیں جو اسی وطن پرقربان ہوگئے