خبرنامہ

ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کی ڈرامائی کہانی ک کردار حسن جمیل جس کے گھر میں عمران اور بشریٰ کی شادی ہوئی …

یہ واقعہ بنیادی طور پر دو واقعات کا مجموعہ ہے‘ پہلا واقعہ 5 اگست کو پیش آیا‘ پاکپتن پولیس کو اسپیشل برانچ سے اطلاع ملی خاتون اول بشریٰ عمران ننگے پاؤں لاہور سے بابافرید گنج شکرؒ کے مزار پر حاضری دینے آ رہی ہیں‘ ڈی پی او رضوان گوندل نے مقامی ایس ایچ او کو سیکیورٹی کی ہدایت دے دی‘ پولیس پانچ اگست کی رات ہائی وے پر پہنچ گئی۔

بشریٰ عمران نہیں آئیں‘ ان کی جگہ ان کی صاحبزادی اور صاحبزادہ ننگے پاؤں مزار کی طرف آ رہے تھے‘پولیس ان کے پیچھے چل پڑی‘ نوجوان برا منا گئے‘ پولیس کے ساتھ ان کی تکرار ہوئی اور پولیس واپس چلی گئی بعد ازاں وہاں ہائی وے پولیس کی پٹرولنگ گاڑی آئی‘ ہائی وے پولیس سے بھی ان کی تکرار ہوئی‘ خاور مانیکا آئے اور یہ معاملہ ڈی پی او اور پھر آر پی او تک چلا گیا‘ دوسرا واقعہ 22اگست کی رات پیش آیا‘ پاکپتن پولیس نے عید کی وجہ سے خصوصی ناکہ لگا رکھا تھا‘ پولیس تمام گاڑیوں کو چیک کر رہی تھی‘ رات ڈیڑھ بجے کے قریب ناکے پر دوگاڑیاں آئیں‘ ایک گاڑی میں ’’صاحب لوگ‘‘ بیٹھے تھے جب کہ دوسری گاڑی میں مسلح گارڈز تھے‘ پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا لیکن یہ دونوں گاڑیاں رکے بغیر گزر گئیں۔

ایلیٹ فورس نے گاڑیوں کا پیچھا کیا اور انھیں آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر علی بن سلطان روڈ پرروک لیا‘ گاڑی میں بشریٰ عمران کے سابق خاوند خاور فرید مانیکا ‘ ان کے صاحبزادے ابراہیم مانیکا اور خاندان کی دو خواتین سوار تھیں‘پولیس کے ساتھ خاورمانیکا کی دوسری جھڑپ ہو گئی‘ یہ معاملہ بھی ڈی پی او تک گیا اور ان کی مداخلت پر مانیکا فیملی کو گھر جانے کی اجازت دی گئی لیکن بعد ازاں خاور مانیکا کا صاحبزادہ مسلح گارڈز کے ساتھ واپس آیا اور پولیس کے ساتھ خوفناک بدتمیزی کی‘پولیس نے اس بدتمیزی کی ویڈیو بنا لی‘ یہ معاملہ وزیراعلیٰ تک گیا اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے24 اگست کو آر پی او شارق کمال اور ڈی پی او رضوان گوندل کو اپنے دفتر طلب کر لیا‘ یہ دونوں سی ایم آفس پہنچے تو وزیراعلیٰ کے ساتھ احسن جمیل گجر بیٹھے تھے‘ احسن جمیل گوجرانوالہ کے مشہور سیاستدان اقبال گجر کے صاحبزادے ہیں۔

اقبال گجر پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ 2018ء کے الیکشن میں آٹھویں بار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ‘یہ6 مرتبہ صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں‘ احسن جمیل غوثیہ بلڈرز کے نام سے تعمیراتی کمپنی چلاتے ہیں‘ انھوں نے گوجرانوالہ میں ہاؤسنگ اسکیم بھی لانچ کی لیکن یہ اسکیم بری طرح فلاپ ہو گئی‘ سیکڑوں لوگوں کے پیسے پھنس گئے‘خاندان کے اندر بھی پھوٹ پڑ گئی‘ لوگ آج بھی اپنی رقم کے لیے احسن جمیل کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں‘احسن جمیل دل اور جگر کے عارضوں میں مبتلا ہیں‘یہ امریکا سے لیورٹرانسپلانٹ کرا کر آئے ہیں اور تین بار ان کے دل کا علاج بھی ہو چکا ہے‘ انھوں نے دو شادیاں کر رکھی ہیں‘ ان کی پہلی بیگم کرنل ریاض کے خاندان سے ہیں۔

کرنل ریاض جنرل ضیاء الحق کے دور میں لاہور میں آئی ایس آئی کے انچارج ہوتے تھے ‘ کرنل صاحب نے اس دور میں بہت نام کمایا‘ کرنل صاحب کے صاحبزادے احمد وقاص ریاض حالیہ الیکشنوں کے دوران پنجاب کی نگران حکومت میں اطلاعات و ثقافت کے صوبائی وزیر رہے‘ یہ احسن جمیل کے برادر نسبتی ہیں جب کہ احسن جمیل کی دوسری بیگم فرح خان ہیں‘ یہ بشریٰ عمران کی انتہائی قریبی دوست ہیں‘ عمران خان کے ساتھ بشریٰ بی بی کا نکاح فرح اور احسن جمیل کے ڈیفنس وائے بلاک کے گھر میں ہوا تھا‘ فرح اور احسن جمیل وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں بھی شامل تھے۔

احسن جمیل کے دو گھر ہیں‘ ایک ڈیفنس وائے بلاک اور دوسرا کیولری گراؤنڈ میں‘ پہلی بیگم کیولری گراؤنڈ جب کہ دوسری بیگم ڈیفنس میں رہتی ہیں لیکن یہ خود اسلام آباد میں رہتے ہیں‘ ہم 24اگست کی طرف واپس آتے ہیں‘ وزیر اعلیٰ کے دفتر میں احسن جمیل بھی موجود تھے‘ وزیراعلیٰ نے ڈی پی او سے خاور مانیکا کی فیملی کے ساتھ پیش آنے والے دونوں واقعات کا ذکر کیا۔

ڈی پی او نے دونوں کا جواب دیا‘ وزیراعلیٰ نے انھیں معاملہ سیٹل کرنے کی ہدایت کی‘ احسن جمیل اس دوران بول پڑے اور انھوں نے ڈی پی او کو مشورہ دیا آپ خاور فرید مانیکا کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگیں‘ ڈی پی او نے آر پی او اور وزیراعلیٰ کی طرف دیکھا اور پھر ڈیرے پر جانے اور معافی مانگنے سے انکار کر دیا‘ یہ سن کر احسن جمیل نے انھیں نتائج بھگتنے کی دھمکی دے دی‘دونوں کے درمیان جھڑپ ہوئی اور میٹنگ ختم ہوگئی لیکن 27اگست کو آئی جی نے رضوان گوندل کے تبادلے کا آرڈر جاری کر دیا اوریوں یہ ایشو میڈیا کی زینت بن گیا۔

ہمیں کہانی آگے بڑھانے سے پہلے ایک حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا‘ پاکستان میں پولیس عام شہری کے ساتھ واقعی بدتمیزی کرتی ہے‘ آپ کسی دن کسی شہر میں نکل جائیں آپ کو پولیس ہر موڑ پر عام لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کرتی ملے گی‘ آپ اگر عام شہری ہیں اور آپ مہینے کا خواہ دس کروڑ روپے ٹیکس دیتے ہیں تو بھی آپ پولیس سے اپنی عزت‘ اپنی انا اور اپنا ذہنی توازن نہیں بچا سکتے‘ یہ عام شہریوں کو گالی بھی دیتے ہیں‘ اوئے بھی کہتے ہیں اور عام شہری اگر غریب اور مسکین ہے تو یہ اسے ایک دو تھپڑ اور جوتے لگانے میں بھی تامل نہیں کرتے لیکن سوال یہ ہے ہمارے ملک میں عام شہریوں کے ساتھ بدتمیزی پر کتنے نوٹس ہوتے ہیں۔

وزیراعلیٰ کتنے آر پی اوز اور ڈی پی اوز کو اپنے دفتر بلاتا ہے‘ یہ کتنے افسروں کو ’’عام شہری‘‘ کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کا حکم دیتا ہے اور انکار پر کتنے ڈی پی اوز کا تبادلہ ہو جاتا ہے؟کیا پھر خاور فرید مانیکا جیسے عام شہری کے لیے وزیراعلیٰ کی تڑپ عجیب نہیں لگتی! آپ جواب دیجیے خاتون اول کے سابق خاوند پنجاب حکومت کے لیے اتنے اہم کیوں ہیں؟ خاتون اول کی دوست فرح خان کے شوہر احسن جمیل وزیراعلیٰ کے دفتر میں کیوں تھے ‘ وزیراعلیٰ نے آر پی او اور ڈی پی او جیسے اعلیٰ افسروں کو احسن جمیل کو مطمئن کرنے کی ہدایت کیوں کی تھی اور احسن جمیل ڈی پی او کو خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کا حکم دینے والے کون ہوتے ہیں؟

میرا خیال ہے وزیراعظم عمران خان کو مانیکا فیملی کا اسٹیٹس کلیئر کرنا ہوگا یا پھر اپنے وزراء اعلیٰ اور وزراء کو ہدایات جاری کرنا ہوں گی’’مانیکا فیملی ہو یا پھر بشریٰ عمران کے تعلق دار‘ مریدین اور ملازمین حکومت کا کوئی عہدیدار ان کے احکامات سنے گا اور نہ ان پر عمل کرے گا‘ پروٹوکول کے حق دار صرف اور صرف وزیراعظم اور خاتون اول ہیں‘ ان کے اور ان کے سابق خاندان کے کسی فرد کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوگی‘‘ حکومت کو یہ حقیقت سمجھنا ہوگی ملک اور سسٹم میں اب مزید طاقت نہیں بچی‘ملک میں اگر خاندانوں اور سابق خاندانوں کے احکامات پر ڈی پی اوز کے تبادلے ہونا شروع ہوگئے یا پھر خاتون اول کی دوست کا شوہر وزیراعلیٰ کے دفتر میں بیٹھ کر پولیس کے اعلیٰ افسروں کو حکم جاری کرنا شروع ہوگیا تو نئے پاکستان کے ساتھ ساتھ پرانا پاکستان بھی تباہ ہو جائے گا‘حکومت کو سوچنا ہوگا کیا یہ وہ نیا پاکستان ہے۔

کیا یہ وہ تبدیلی ہے جس کے لیے قوم ترستی رہی؟ عمران خان اب وزیراعظم ہیں‘ یہ آئی بی کی مدد سے خاور فرید مانیکا اور ان کے خاندان‘ یہ احسن جمیل گجر اور ان کے کاروبار کے بارے میں تحقیقات کراسکتے ہیں‘ یہ حقائق جان کر حیران رہ جائیں گے‘ وزیراعظم کسٹم کے سینئر اور ریٹائر افسروں سے بھی خاور فرید مانیکا کے بارے میں پوچھ لیں مانیکا صاحب کے روحانی درجات وزیراعظم کی آنکھیں کھول دیں گے‘ یہ احسن جمیل کے معاملات کی بھی تحقیقات کرا لیں‘ یہ ان کی کمپنی اور ان کی ہاؤسنگ اسکیم کی فائلیں کھلوا لیں‘ یہ فائلیں بھی چشم کشا ثابت ہوں گی اور یہ اس کے بعد یہ بھی پوچھ لیں احسن جمیل کی وزیراعلیٰ پنجاب تک رسائی کیوں ہے اور یہ اگر کل دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگتے ہیں تو اس کی وجوہات کیا ہوں گی؟

میں دل سے سمجھتا ہوںوزیراعظم شاید خود اقرباء پروری نہ کریں‘ یہ شاید اپنے کسی عزیز‘ رشتے دار یا دوست کو دودھ کی رکھوالی پر نہ بٹھائیں لیکن کیا ان کے دائیں بائیں موجود لوگ بھی اتنے ایماندار ثابت ہوں گے؟میرا خیال ہے نہیں‘ حکومت شروع ہوتے ہی رضوان گوندل اور حنیف گل جیسے واقعات ثابت کر رہے ہیں وزیراعظم کے لیے اپنے ساتھیوں کو کنٹرول کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا‘یہ خود پروٹوکول نہیں لے رہے لیکن وزیراعلیٰ پنجاب بچوں کو سرکاری جہاز میں بٹھا کر جھولے پر جھولے دے رہے ہیں ‘یہ 28 اگست کو فیملی کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر اپنے دوست کے والد کی تعزیت اور سسر سے ملاقات کے لیے میاں چنوںچلے گئے۔

یہ16 گاڑیوں کے پروٹوکول میں پاک پتن شریف بھی تشریف لے گئے اور وہاں عوام نے سی ایم مردہ باد کے نعرے لگا دیے‘ادھر شیخ رشید ہوٹر بجاتے ہوئے راولپنڈی کی تنگ گلیوں میں تشریف لے جا رہے ہیں اور ٹریفک وارڈن موٹر سائیکلیں گرا کر شاہی سواری کے لیے راستہ بنا رہے ہیں‘ حکومت کے پاس ان کا کیا جواب ہے؟

میری دوبارہ درخواست ہے وزیراعظم یہ سلسلہ روکیں ورنہ یہ تیر ان کو اڑنے سے پہلے ہی گھائل کر دیں گے‘ یہ حکومت کی شہرت کو بدنامی میں تبدیل کر دیں گے‘یہ لوگ اگر ان حماقتوں سے باز نہ آئے تو یہ دنیا کی پہلی حکومت ہو گی جو عوامی مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئی اور دس دن میں اس کے خلاف نعرے بھی لگ گئے اور سرکاری افسر بھی سامنے کھڑے ہو گئے‘ پنجابی کی کہاوت ہے بیوہ اپنی بیوگی کاٹ لیتی ہے لیکن ہمسائے اسے چین سے نہیں رہنے دیتے ‘ شیخ رشید اور عثمان بزدار وہ ہمسائے ہیں‘ عمران خان اپنی مدت پوری کر سکتے ہیں لیکن عثمان بزدار اور شیخ رشید جیسے غلط فیصلے انھیں یہ کارنامہ آسانی سے انجام نہیں دینے دیں گے۔

نوٹ: سوشل میڈیا پر میرے نام سے بے شمار ٹویٹر پیغامات گردش کر رہے ہیں‘ یہ پیغامات بھی میرے نہیں ہیں‘ ٹویٹر پر میرا کوئی اکاؤنٹ نہیں‘ میں ٹویٹر پر ایکٹو نہیں ہوں‘ یہ بھی نئے پاکستان کی تخلیقات ہیں‘ آپ مہربانی فرما کر ان جعلی پیغامات کی تعریف پر بھی اپنا وقت ضایع نہ کریں۔