خبرنامہ

آرمی ان دی لائین آف فائر

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آرمی ان دی لائین آف فائر

پاک فوج اپنے سائز اور وسائل کے اعتبار سے اس قابل نہیں اور نہ اس کا ایجنڈا ہے کہ یہ بھارت کو فتح کرے، اس کی بنیادی ڈیوٹی ملک کا دفاع ہے۔ 1948 کی پہلی کشمیر جنگ میں پاک فوج نے بھارتی جارح فوج کے جبڑوں سے کشمیر کا کچھ علاقہ آزاد کروایا۔ 1965 میں پاک آرمی نے آپریشن جبرالٹر کے نام سے کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا، ہماری فوجوں نے چھمب جوڑیاں کی طرف فاتحانہ پیش قدمی کی تو بھارت نے بین الاقوامی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے لاہور اور سیالکوٹ بارڈر پر چوروں کی طرح حملہ کر دیا، بھارتی میڈیا نے خبریں نشر کر دیں کہ اس نے قصور پر قبضہ کر لیا ہے، لاہور میں اس کی فوج داخل ہوگئی ہے اور سیالکوٹ گوجرانوالہ کے درمیان سے جی ٹی روڈ کو کاٹ دیا گیا ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ بھارت سراسر جھوٹ بول رہا تھا۔ یہ بھارت کی بڑی شکست نہیں تو چھوٹی شکست ضرورتھی کہ وہ پاکستان پر قبضے کے ناپاک عزائم کی تکمیل نہ کر سکا۔ اسی جنگ سے پہلے سرکریک میں بھارتی فوج کو پاک فوج نے ایسا پچھاڑا کہ شاستری کو دھمکی دینا پڑی کہ اب وہ اپنی پسند کا محاذ کھولیں گے۔ کھیم کرن، لاہور اور سیالکوٹ میں اپنی پسند کے محاذوں پر بھارتی فوج کا غرور چکنا چور کر دیا گیا۔ 1971 میں بھارت نے مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت کروائی، پیسے اور پروپیگنڈے کے زور پر پاکستانی دانشوروں کو پاک فوج کے خلاف بھڑکایا انہی دانش وروں کو بنگلہ دیش اب تمغے عنایت کر رہا ہے اور بھارت میں ان کی آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ مشرقی پاکستان الگ کروادیا گیا اور پاک فوج کو تاریخ کا پہلا سرنڈر کرنا پڑا۔ مگر آئندہ کے لیئے اس خجالت سے بچنے کے لئے پاک فوج نے ایٹمی صلاحیت کو اس قدر پروان چڑھالیا کہ اب بھارت کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوسکتی۔
1986 2002,, 2008 میں بھارت نے پاکستان پر چڑھائی کا بار بار ارادہ کیا۔
کاش! بھارت د لیری کا مظاہرہ کرتا اور اس بات کا فیصلہ ہو جاتا کہ برصغیر میں جارح کا حشر اور انجام کیا ہوتا ہے۔ ہم تو نہ ہوتے لیکن دنیا بھارت کی تباہی کا نظارہ ضرور کرتی۔ اور ہرقوم آنے والی نسلوں کو بھی خبردارکر دیتی کہ کسی کو کمزور اور حقیر نہ سمجھا جائے۔ 1984 کے موسم بہار میں بھارت نے دنیا کے بلند ترین مقام پر جارحانہ پیش قدمی کی اور سیاچین پر قبضہ جمالیا، اس کا خیال تھا کہ وہ اس علاقے کوبیس کیمپ بنا کر پاکستان اور چین کو ملانے والی شاہراہ ریشم کو کاٹ کر رکھ دے گا۔ پاکستان کے شیردل جوان اور افسر 1984 سے کٹ مر رہے ہیں لیکن انہوں نے دنیا کی بلند ترین شاہراہ دوستی کو کاٹنے کا سہانا خواب، بھارت کے لئے ڈراؤنے خواب میں بدل دیا۔ 2002 کے بعد سے دنیا وار آن ٹیرر کی زد میں ہے۔ ہمارے پڑوس کابل میں نیٹو اور امریکہ کی متحدہ افواج شکست کے بدنما داغ کے ساتھ علاقے سے رخصت ہونے والی ہیں لیکن پاک فوج دہشت گردی کے سامنے سینہ سپر دکھائی دیتی ہے۔ دوسری طرف اسی فوج نے چار بار مارشل لا بھی لگایا، یہ حرکت بعض جرنیلوں نے کی، ان کی تائید ملک کی اعلی ترین عدلیہ اور پارلیمنٹ نے کی۔ مارشل لا کا نفاذ گناہ تھا اور ضرور تھا تو اس میں ہماری اعلی ترین عدلیہ، ہماری پارلیمنٹ اور ہماری سول سوسائٹی کا بڑا حصہ برابر کا شریک ہے۔ اس لیے جوگالی فوج کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے، وہ ان سب سول طبقات کا حق بھی ٹھہرتی ہے۔ میڈیا کے کچھ لوگ مارشل لا کے وزیر بنے، وہ کیسے پاک صاف ٹھہرے۔ یہ فوج اسلحہ بناتی ہے اور فروخت کرتی ہے،بہی فوج دلیہ بھی بناتی ہے اور فروخت کرتی ہے۔ یہی فوج پلاٹ بھی بیچتی ہے۔ حکومت کے تمام محکمے یہ سب کام کر رہے ہیں۔ بلکہ ان سے بھی بڑے بڑے کاروبار حکومتی افسران نے سنبھالے ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے سرکاری اداروں کا جو حال کر دیا ہے، وہ سب کے سامنے ہے، بجلی، ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مل، سڑکیں تعلیم، صحت، ٹیکنالوجی، کس کا نام لوں، کس کا نام نہ لوں، ہر طرف کھنڈر بکھرے ہوئے ہیں۔
پاک فوج ان دنوں، ان دی لائین آف فائر ہے، اس پر الزام یہ ہے کہ یہ کاروبار کرتی ہے،سی ڈی اے، ایل ڈی اے، ایف ڈی اے، کے ڈی اے، ایم ڈی اے بھی یہی کاروبار کرتے ہیں اور یہ سرکاری ادارے ہیں، پلاٹ بیچنا فوج کے لئے جائز نہیں تو سوچنا پڑے گا کہ سول حکومت کے لیئے کیسے جائز ہو گیا، کیا برطانوی حکومت پلاٹ بیچتی ہے، کیا جاپانی حکومت پلاٹ بیچتی ہے، کیا امریکی حکومت پلاٹ بیچتی ہے۔ پاکستان میں جو جرم خاکی پوش افسر شاہی کر رہی ہے، وہی جرم سول افسر شاہی بھی کر رہی ہے اور بھونڈے طریقے سے کر رہی ہے۔ اس سے کوئی ہسپتال نہیں چلتا، کوئی اسکول نہیں چلتا، کوئی ڈھنگ کا کام نہیں چلتا، کوئی جہاز نہیں چلتااور کوئی ریل نہیں چلتی تو فوج جو کچھ چلارہی ہے، وہ چلتا نظر تو آتا ہے۔ کون ہے جو آج ڈی ایچ اے کو چھوڑ کر وینس سوسائٹی میں گھر بنانے کوتر جیح دے گا، اس سوسائٹی کو جب سے ایل ڈی اے نے ٹیک اوور کیا ہے، وہاں الو بولتے ہیں، سبزی، گوشت، انڈے، ڈبل روٹی تک اس سوسائٹی میں دستیاب نہیں۔ میں نے ایک سوسائٹی کی مثال دی ہے، سول اسکیموں کی حالت زار بیان کرنے کے لیے ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور ڈی ایچ اے اگر جگمگ کرتا دکھائی دیتا ہے تو اس کی انتظامیہ کو داد دینے کی ضرورت ہے۔ میٹرو بس کے کناروں پر چند ہفتوں تک بتیاں جلی تھیں، اب وہاں رات کو اندھیروں کا راج ہوتا ہے۔ ایک ڈی ایچ اے کیا، واپڈا، سوئی گیس، سٹیٹ لائف، جوڈیشنل کالونی اور کس سرکاری محکمے کی ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں ہے۔ اور ان کی ابتری پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ فوج پرلاپتا افراد کے لیئے بھی تنقید کی جاتی ہے، یہ لا قانونیت ہے، تو کیا امریکی ہوم لینڈ سکیوریٹی قانون کا لحاظ کرتی ہے، کیا ایم آئی فائیو اور ایم آئی سکس کسی آئین کے مطابق چلتی ہے۔ کیا دنیا بھرکی ایجنسیوں کو پاکستان میں کھل کھیلنے کی اجازت دے دی جائے کہ وہ ہمارے ہی شہریوں کی برین واشنگ کر کے ہماری ہی سکیوریٹی کے لیئے خطرہ بن جائیں۔ مشرقی پاکستان میں کیامکتی باہنی کھلی چھٹی دے دی جاتی، کیا بلوچ لبریشن آرمی کو پاکستان کی سلامتی پر چڑھائی کی کھلی چھٹی ملنی چاہیے۔ کیا امریکہ اپنے اور دنیا بھر کے شہریوں کے فون، ای میل پیغامات کو ہیک نہیں کرتا، کیا یہ ڈاکہ نہیں ہے، کیا یہ ہماری نجی زندگی کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ کیا یہ اقوام عالم کے اقتدار اعلی پرڈاکہ نہیں ہے۔ ہم نے کبھی اسے تو چینلج نہیں کیا۔ خدا کے لئے اپنی فوج کو اتنا ہی برا کہو جتنی یہ بری ہے اور اسے اتنا ہی اچھا سمجھو، جتنے خود ہم اچھے ہیں۔ (27جولائی 2013ء)