خبرنامہ

عمانی حکومت کا ایک متحرک پاکستانی کو خراج تحسین۔۔اسداللہ غالب

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے۔ یہی کچھ میرے ساتھ ہوا، ادھر میں نے عمان سے آئے مہمان جا وید نواز کی زبانی سی پیک کااحوال لکھا،ا دھر قارئین کا منطقی اصرار تھا کہ کچھ جاوید نواز کے بارے میں بھی بتایا ہوتا۔ تقاضہ درست تھا مگر ابھی وہ نسل زندہ ہے جس نے الطاف گوہر کے روٹی پلانٹ سے ا ستفادہ کیا تھا اور گھروں میں بیبیوں کو آٹا گوندھنے ا ور توے پر ہاتھ جلانے کی کوفت سے چھٹکارا مل گیا۔ جاوید نواز اس پلانٹ کے چیف مینیجر تھے،یہ سستی روٹی والا خیالی پلاؤ نہیں تھا، واقعی سے دکانوں پر جیسے اب چپس کے پیکٹ رکھے ہوتے ہیں، اسی طرح اس زمانے میں روٹیوں کے پیکٹ ملتے تھے، بس انہیں گھر لے جا کر آپ کو گرم کرنے کی زحمت اٹھانا پڑتی تھی مگر لذت میں وہی اصلی روٹی۔
پھر جاوید نواز منظر سے غائب ہو گئے، کبھی نظر بھی آتے تو الطاف حسن قریشی کے حلقہ بگوش، گاہے مجیب شامی کے گھر کی ضیافتوں میں، ان کے قہقہے گونجتے، مسکراہٹ ہر دم ان کے ہونٹوں پہ کھیلتی رہتی ہے، خدا جانے وہ اتنے خوش کیسے ہیں۔یا ہم جیسوں پر مسکراتے ہیں جن کے قریب خوشیوں کا میلہ سجا رہتاہے مگر اپنی اپنی پریشانیاں اس طرف دھیان ہی جانے نہیں دیتیں۔
دیار غیر میں پاکستانیوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، آج تو چودھری سرور کے آگے پیچھے ہر کوئی ہے مگر جب اسی کے عشرے میں وہ پاکستان آتے تھے تو میرے سوا ایئر پورٹ پران کا استقبال کرنے ولا کوئی نہ ہوتا ، مجھے بھی گلاسگو کے شوکت بٹ کا حکم ملتا تھا، وہ انتہائی خوش اخلاق اور ملنسار انسان تھے، دوستوں کے دوست ا ور سرورکی صلاحیتوں کے سب سے زیادہ قائل۔ وہ قتیل شفائی کے داماد بھی تھے مگرا ن کی ایک منفرد پہچان تھی کہ اسکاٹ لینڈ میں وہ پاکستانیوں کی میزبانی کے لئے ہمہ وقت کمر بستہ اور مستعد۔
امریکہ میں مرشد نظامی کے ماننے والے صغیر طاہر نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، محمدسرور اگر برطانوی پارلیمنٹ میں پہلے اوور سیز پاکستانی کے طور پر منتخب ہوئے تو صغیر طاہر امریکی ریاست نیو ہیمپشائر کانگرس میں مسلسل تین بار منتخب ہوئے۔ امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں اور انجینیئروں نے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔احمد بلا ل محبوب جو پلڈاٹ جیسا بڑا اور قابل فخرادارہ چلا رہے ہیں،۔ وہ ریاض میں ہواکرتے تھے۔
جاوید نواز نے عمان جا کر قسمت آزمائی کی، وہ جالندھر میں پیدا ہوئے ۔ زراعت ان کا آبائی پیشہ تھا، مگر درمیان میں وہ تعمیراتی انجینیئر کے طور پر بھی کام کرتے رہے، عمان میں پہلے پہل وہ کنسٹرکٹر ہی تھے اور انہوں نے اومانی عمارتوں کا رنگ ڈھنگ ہی بدل دیا، عمان والے عمارتوں کو مٹیالا رنگ کرتے ہیں مگر انہوں نے سفید رنگ کی ترویج کی، صحرائی پس منظر میں سفید عمارتیں اجلے پھولوں کی طرح نکھری نکھری نظر آتی ہیں۔
نجانے کس مرحلے پر جاوید نواز کو خیا ل آیا کہ عمان کو زراعت سے آشنا کیا جائے،انہیں اپنی سرزمین سے اگنے والی سبزیوں، پھلوں اور پھولوں کے عشق میں مبتلا کیا جائے۔
عمان آبزرور ریاست کا سرکاری اخبار ہے ،اس نے حال ہی میں کامیاب شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک خوبصورت ڈائریکٹری چھاپی ہے جس میں صفحوں کے صفحے جاوید نواز کے لئے مختص کئے گئے ہیں ۔ میں نے ان صفحات پر صرف طائرانہ نظر ڈالی ہے، اس لئے کہ پڑھنا لکھنا میرے لئے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے، بس سنی سنائی پر اعتبار کرنا پڑتا ہے ۔

عمان آبزرور کے مطابق جاویدنواز کی فرم ایگرو گروپ نے ملک میں ایک زرعی انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اس گروپ کو متحرک ا ور سرگرم بنانے کے لئے جاوید نواز نے اپنی زندگی بھر کے تجربے کو داؤ پر لگا دیا ہے۔مگر جاوید نواز کی دلچپسیوں کا دائرہ بے حد وسیع ہے، اس گروپ کو کامیابی کی راہ پر ڈالنے کے بعد وہ عمان حکومت کی مشاورت کے فرائض بھی ادا کرتے ہیں، انہوں نے ملک سے غربت کے مرحلہ وار خاتمے کی ایک تجویز دی ہے کہ ڈرائیور، قاصد، گھریلو ملازم جیسے نچلے طبقے کے ملازمین کی تنخواہ سے ماہوار پانچ فی صد کٹوتی کی جائے اورا س میں اتنی ہی رقم ریاست ڈالے اوراس فنڈ سے سنگا پور یا دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی معیشت میں سرمایہ کاری کر دی جائے تو ریٹائرم نٹ پر اس خاندان کو کئی لاکھ کی رقم مل جائے گی جس سے اس کی اگلی نسل سے غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔جاوید نواز کا خیال ہلے کہ اس ماڈل پروگرام پر عمل کرنے سے کوئی بھی ملک تیس سال کے اندر نچلی سطح کے طبقات کی زندگی کو خوشحال بنا سکتا ہے۔
جاوید نواز نے دیار غیر میں یونہی اپنی حیثیت نہیں منوا لی، وہ یونیورسٹی کے دنوں سے قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں لاء کالج یونین کے جنرل سیکرٹری اور صدر رہے، روٹری کلب سے وابستہ ہوئے تو دنیا بھر میں دورے کے لئے جو وفد ترتیب دیا گیا ور جس میں قاسم دادا جیسے صنعتکارا ور بزنس میں بھی شامل تھے، یہ بھی اس میں شریک ہوئے۔پلڈاٹ کا میں نے اوپر ذکر کیا،ا سکی ایگزیکٹو کونسل کے بھی رکن ہیں اور برسوں سے ہیں۔انہوں نے کچھ عرصے تک اومان میں پاکستان کے اعزازی مشیر برائے سرمایہ کاری کے طور پر بھی خدمات ا نجام دیں، وزیر اعظم شوکت عزیز اومان آئے تو انہوں نے ان کی ملکی صنعتکاروں ا ور سرمایہ کاروں کے اعلی گرپوں سے ملاقاتیں کروائیں، پاکستان کے شمالی علاقوں میں تباہ کن زلزلہ آیا تو انہوں نے انٹر نیشنل فوڈ فیسٹیول کا اہتما م کر کے صرف دو دنوں میں اڑھائی لاکھ ڈالر جمع کر کے پاکستان کے حاجت مندوں تک پہچائے۔عمان میں پاکستانی کمیونٹی بھی ان کی توجہ کا مرکز رہی ہے، انہوں نے عمان کے تین شہروں میں پاکستان ا سکول قائم کئے۔وہ پاکستان کالج مسقط کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئر مین بھی رہ چکے ہیں۔
عمان آبزرور کی کامیاب لوگوں کی ڈائریکٹری میں جاوید نواز کی ان گنت خدمات پر خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، ان دنوں وہ اپنے ایگرو گروپ کے ساتھ چینی سرمایہ کاروں کو شریک کرنے کے ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس سے عمان میں ایسا کارخانہ لگے گا جس کی مصنوعات کا پچھتر فی صد برآمد کیا جائے گا۔عمانی حکومت کے اندر انہیں گہرا اثرو رسوخ حاصل ہے جس کی بنیاد پر ان کی کھلی پیش کش ہے کہ ایک سو ملین ڈالر کا کائی ایسا منصوبہ لائے جس کی مصنوعات برآمد کی جا سکیں، ا س میں اومانی حکومت اسی فیصد سرمایہ کرنے کو تیار ہو گی، صرف بیس فی صد منصوبہ لانے والے کو ڈالنا پڑے گا۔ جاوید نواز کا کہنا ہے کہ عمانی حکومت اب برآمدات میں اضافے کے لئے کوشاں ہے، اس لئے پاکستانی سرمایہ کاروں کو اس ماحول سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
جب ان سے اول اول ملاقاتیں ہوئیں تو وہ تب بھی بے حد متحرک نوجوان تھے، اب تجربے کی دولت نے ان کی شخصیت میں مزید نکھار پیدا کر دیا ہے، ایسی شخصیات پر اومانی حکومت اعتماد کر سکتی ہے تو ہمیں بھی اپنے فرزند سرزمین پر بھرپور فخر کاا ظہار کرنا چاہئے۔