خبرنامہ

زرداری کی واپسی اور محاذ آرائی میں تیزی۔۔۔اسداللہ غالب

بسم اللہ
سیاسی ماحول میں گرما گرمی سے یہ خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ کہیں اسی اور نوے کے عشرے والی محاذ آرائی نہ لوٹ آئے، تب کوئی بھی حکومت اپنی ٹرم پوری نہ کر پاتی تھی اور ہر حکومت کے خلاف ہمہ وقت بلیم گیم جاری رہتی۔حکومت مسلم لیگ ن کی ہو یا پیپلز پارٹی کی دونوں ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو پاتے تھے، ا س کا نتیجہ طواف الملوکی کی شکل میں نکلا۔
پاکستان میں ستر کے عشرہ کا آغاز اس لحاظ سے بدتریں تھا کہ عوامی لیگ کے خلاف نہ صرف پیپلز پارٹی کے رہنما بھٹو نے مورچہ لگا رکھا تھا بلکہ اس پارٹی کو دائیں بازو کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی قبول کرنے کو تیار نہ تھیں، ستر کے الیکشن سے پہلے گھیراؤ جلاؤ کے نعرے لگے۔ مولانا بھاشانی کی زبان شعلے اگل رہی تھی اور شیخ مجیب الگ پھنکار رہے تھے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ستر کے الیکشن کے مینڈیٹ پر عمل نہ کیا گیاا ور یوں پاکستان ٹوٹ گیا۔
جنرل مشرف کے دور میں مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی کی قیادت جلاوطن ہوئی تو دونوں کو سمجھ آئی کہ انہیں کم از کم ایکدوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہئے، اس سوچ کے تحت میثا ق جمہوریت پر دستخط کئے گئے۔دو ہزار دو کے انتخابات کے بعد دونوں پارٹیوں نے میچیورٹی کا ثبوت دیا اور پاکستان میں کسی منتخب جمہوری حکومت نے پہلی بار اپنی ٹرم پوری کی۔ مسلم لیگ ن کو طعنہ ضرور ملا کہ یہ فرینڈلی اپوزیشن ہے مگر اس کے رویئے نے جمہوریت کو مستحکم کیا، یہ سلسلہ اب تک خوش اسلوبی سے چلا آرہا تھا مگر زرداری کی حالیہ خود ساختہ جلاوطنی اور بلاول کی سرگرم سیاست نے ماحول میں بلا وجہ گرمی پیدا کر دی، بلاول کو بچہ سمجھ کر نظر انداز تو کیا گیا مگراس بچے کی زبان قابو میں نہیں تھی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اسے برداشت کیااور اب جبکہ زرداری صاحب واپس آ گئے ہیں تو انہوں نے بھی شائستگی کے رویئے کو خیر باد کہہ دیا ہے اور باپ بیٹے نے ضمنی الیکشن کے ذریعے پارلیمنٹ میں پہنچنے کاا علان کر دیا ہے، وہ ضرور انتخابی سیاست کا حصہ بنیں اور اسے خوش آمدیدبھی کہنا چاہئے کہ زرداری نے فی الحال جمہوری ، سیاسی طرز عمل اپنانے کاا علان کیا ہے، پارلیمنٹ میں جا کر وہ اپوزیشن کا کردارضرور اد اکریں مگر ایوان کو اس طرح مچھلی منڈی نہ بنایا جائے جیسے اسی ا ور نوے کے عشرے میں ہنگا مہ �آرائی کی جاتی تھی ا ور پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی تھی۔ چلیے یہ مان لیتے ہیں کہ دنیا کی ہر پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوتا ہے، لوگ ایک دوسرے و کو چیلنج کرتے ہیں ، گھ مکے برساتے ہیں مگر یہ ملک جمہوری اور سیاسی طور پر مستحکم ریاستیں ہیں، پاکستان ابھی اس راہ میں طفل مکتب ہے اور ذرا سی لغزش جمہوریت کی منزل کھوٹی کر سکتی ہے۔ ملکی ماحول کو پراگندہ کرنے کے لئے تحریک انصاف پہلے ہی سے مصروف عمل ہے، سال بہ سال علامہ قادری بھی کینیڈا کے آسمان سے نزول فرماتے ہیں ، کبھی دھرنے، کبھی گولیاں، کبھی لاک ڈاؤ ن، کبھی پی ٹی وی پر قبضہ۔کبھی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کا محاصرہ۔ مہذب قوموں کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتا۔شکر کی بات یہ ہے کہ ہماری افواج نے بھی جمہوریت کو راستہ دیاا ور جنرل کیانی اور جنرل راحیل نے کسی بھی مہم جوئی سے گریز کیا، اگرچہ مسلم لیگ ن کو شکائت تو رہی ہے کہ بعض ادارے یاا ن کے سربراہ تحریک انصاف کی ہلہ شیری کرتے ہیں مگر صد شکر کہ معاملہ بگڑا نہیں اور موجودہ حکومت بھی اپنی ٹرم کے آخری دور میں داخل ہو رہی ہے، اب جو کچھ ہونا ہے، وہ انتخابی میدان میں ہونا ہے ا ور اگر کچھ شور شرابا سننے میں آیا بھی تو اسے انتخابی مہم کا حصہ ہی سمجھا جائے گا مگر معامہ اس سے آگے بڑھا ا ور پیپلز پارٹی نے ق لیگ یا تحریک انصاف کے ساتھ مل کر کوئی ہنگامہ �آرائی کی کوشش کی تو اسے سول سوسائٹی کسی طور پر پسند نہیں کرے گی ا ور عوام بھی اس ماحول سے اکتائے بیٹھے ہیں ،ا نہیں نظر�آ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت بڑی حد تک اپنے وعدے پورے کر رہی ہے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوئی تو کم ضرور ہوئی ہے، تیل کے بنرخوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے، زرمادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا ہے اور دہشت گردی کا سب ست بڑا ناسور کچل دیا گیا ہے۔اس میں مسلح افواج کو کریڈیٹ جاتا ہے مگر حکومت نے اپنی بہادر افواج کو عوامی تائیدضرور فراہم کی ہے۔ سی پیک کی کسی کو سمجھ نہ بھی �آئے تو لوگوں نے اس منصوبے سے بڑی بڑی امیدیں باندھ لی ہیں کیونکہ انہیں چین جیسے عظیم ہمسائے کی دوستی پر مکمل اعتماد ہے۔
اس بدلتے ماحول میں کوئی ایک بھی غلط حرکت، ترقی معکوس کا عمل شروع کر سکتی ہے جو عوام اور ملک کے لئے سراسر خسارے کی بات ہے۔ یہ فیصلہ زرداری صاحب کو کرنا ہے کہ وہ اپنے لئے کیسا مستقبل چاہتے ہیں، اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ مسلم لیگ ن اب تک جو کچھ کر چکی ہے، وہو اس کی بنیاد پر اگلا الیکشن انتہا ئی �آسانی سے جیت سکتی ہے، تحریک انصاف نے خیبر پی کے میں اور پیلز پارٹی نے سندھ میں اپنے ووٹروں کو مایوس کیا ہے۔ یہ بات تجزیئے کی ہے، پروپگنڈے کی نہیں، یہ تو نوشتہ دیوار ہے، آپ آنکھیں بند کر لیں تو ضرور آپ کواندھیرا نظر آئے گا مگر کھلی آنکھوں کے ساتھ آپ حقائق کوجھٹلا نہیں سکتے۔
ایک بات اور بھی زرداری صاحب کو پیش نظر رکھنا ہو گی کہ عوام کرپشن کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں، اب تو چودھری نثار اور میاں شہباز شریف بھی کرپشن کے تعاقب میں ہیں۔اگرچہ اس وقت پانامہ لیکس کا ہنگامہ ہے مگر یہ نکتہ ضرور ذہن نشین لر لیجئے کہ اگر دال میں ذرا بھی کالا ہوتا تو چودھری نثاراور میاں شہباز ہر گز ہر گز کرپشن کے خلاف آواز بلند نہ کرتے۔ بھئی!اوکھلی میں سر کون دیتا ہے۔
پیپلز پارٹی کو پہلے اپنی اندرونی صورت حال کو درست کرنے پر توجہ کرنی چاہئے، ایک گاڑی کے دو انجن نہیں ہو سکتے، کیا پارٹی کو زرداری نے چلانا پے یا بلاول نے چیخ وپکار کرنی ہے۔ ویسے لوگ زرداری صاحب کے اس فلسفے کو نہیں بھولے کہ وعدے اور عہد وپیمان قرآن و حدیث کا درجہ نہیں رکھتے۔اگر تو وہ اسی فلسفے پر عمل کا ارادہ رکھتے ہیں تو سیاست اور جمہوریت کیلئے یہ نیک شگون نہیں ہو گا اور اس سے زرداری صاحب کو بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا، ایک طرف تو اس پارٹی نے جنرل مشرف کے ساتھ این آر او کیا اور دوسری طرف وہ ایک جمہوری حکومت سے محاذ آرائی کرے گی تو کون اسے اچھا کہے گا۔
وزیر اعظم نے تازہ تریں تقریر میں اپیل کی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں ذمے داری کا ثبوت دیں۔مل جل کر چلیں تاکہ عوام کی خوش حالی کا سفر تیز تر ہو سکے۔صلح جوئی کے اس پیغام کا کھلے دل اور فراخ با زووں سے خیر مقدم ہونا چاہئے۔ہم نیک و بد حضورکو سمجھائے دیتے ہیں۔