شہید بازار
سوشل میڈ یابڑا ستم ظریف ہے، ایک صاحب کا کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسودنے عالم بالا سے فضل الرحمن سے احتجاج کیا ہے کہ انہوں نے کتے کو شہید کہہ کرانہیں گالی دی ہے۔
ادھر بھگت سنگھ کے حامیوں نے مٹھائی بانٹنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ اب ان کے ممدوح کو بھی شہید تسلیم کرلیا جائے گا اور شادمان چوک کا نام بدلنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
شہید کی تعریف پر اختلاف نیانہیں مشرف دور میں فوج کی تحقیر کے لیے راشد منہاس نشان حیدر کی شہادت کی برسی پر قومی اخبارات میں جید کالم نویسوں نے ایکاکر کے یہ سوال کھڑا کیا تھا کہ راشد منہاس نہیں، اصل ہیرو تو وہ بنگلہ دیشی پائلٹ مطیع الرحمن تھا جو پاک فضائیہ کا جہاز اغوا کر کے لے جارہا تھا، بنگلہ دیش نے اسے بعد از مرگ شجاعت کا سب سے بڑا اعزاز دیا تھا۔
بنگلہ دیش نے تو غداری کی تعریف بھی بدل دی ہے، 1971 میں پاکستان کی بقا کی جنگ لڑنے والوں کو پھانسی کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ اب پاکستان کی جماعت اسلامی نے حکیم اللہ محسود کو شہید کہہ دیا تو دوسرے معنوں میں انہوں نے مکتی باہنی کے دہشت گردوں کو ہیرو کے درجے پر فائز کر دیا ہے۔ یہی جماعت اسلامی تھی جس نے کشمیر کے جہاد کے خلاف فتوی دیا تھا۔ مولانا مودودی کی دلیل دل کو لگتی تھی کہ جہاد کا اعلان صرف ریاست کرسکتی ہے، اس دلیل کی روشنی میں منورحسن نے طالبان کو مجاہدین کیسے تسلیم کر لیا۔ جماعت اسلامی نے ایک زمانے میں قائد اعظم کو بھی خدانخواستہ کافر اعظم کہہ ڈالا تھا۔ اس کی پردہ پوشی کے لیئے جماعت کا کہنا ہے کہ جب ہم نے قائد اور ان کے بنائے ہوئے پاکستان کو تسلیم کرلیا تو ماضی کی ان باتوں کا طعنہ کیوں، لیکن جماعت کی فطرت بدلتی نہیں، وہ اپنی مذمت کروانے کا راستہ خود نکال لیتی ہے۔
بنگلہ دیش نے اس سال اپنے یوم آزادی پر ہمارے بعض زندہ اور مردہ دانشوروں کو تمغے عطا کیے ہیں۔
فضل الرمان کاماضی بھی کچھ الجھا ہوا ہے۔ علامہ اقبال نے تو کھلے عام ان کا پردہ فاش کر دیا کہ ز دیوبند حسین احمد، ایں چہ بوالعجبیت۔ چند سال قبل فضل الرحمن لاہور آئے، انہوں نے کالم نویسوں کو یاد کیا، میں اور نذیرناجی ان کی خدمت میں حاضر تھے، انہوں نے دعوی کیا کہ بھارت میں کلیات اقبال سے یہ ربائی خارج کر دی گئی ہے۔ میں نے اپنے کالم میں یہ بات لکھ دی تو امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی سے شعبہ اردو کے سربراہ نے ای میل کے ذریعے اس دعوے کوچیلنج کیا، ان کا کہنا تھا کہ انکے پاس بھارت سے شائع ہونیوالا کلیات اقبال کا تازہ ترین مجموعہ اس رباعی کے ساتھ موجود ہے۔ وہ دن اور آج کا دن فضل الرحمن مجھے پکڑائی نہیں دے رہے کہ بھائی، مجھے وہ کلیات دکھاؤ جس کا آپ نے دعوی کیا تھا۔
طالبان وہ نوجوان ہیں جو خیبر پختون خواہ کے مدرسوں میں پڑھے۔ مدرسہ اکوڑہ خٹک میں، میں نے وہ کمرہ دیکھا ہے جس میں فضل الرحمن دوران تعلیم مقیم رہے، گویا وہ بھی طالبان تھے۔ اور ظاہر ہو گیا کہ ہیں بھی۔ وہ طالبان کی بولی نہیں بولیں گے تو کس کی بولیں گے، انہیں کشمیری کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا مگر میں نے ان کے منہ سے بھارت کی مذمت اور کشمیری شہدا کے لیئے کلمہ خیرنہیں سنا، انہوں نے کہیں کچھ کہا بھی ہو تو مجھ تک نہیں پہنچامگر کتے کو شہید کہنے والی بات انہوں نے ڈنکے کی چوٹ کی ہے۔
نیویارک ایئر پورٹ پر ایک سرکاری وفد کا سامان کتے کے ذریعے چیک کروایا گیا، یہ پچانوے کی بات ہے۔ میرے ہینڈ بیگ کے سوا کتے نے سبھی کا سامان کلیئر کر دیا۔ میں نے سب کے سامنے سامان کھول کر دکھایا، فائلوں کے ڈھیر پر شیونگ فوم کی ایک بوتل تھی جسے کتے نے بم سمجھ لیا، میں نے برجستگی سے کہا کہ کتا امریکی فوج میں بھی بھرتی ہوجائے تو کتا ہی رہتا ہے۔ اس پر سب سے کھنک دار قہقہہ موقع پر موجود محترمہ بے نظیر بھٹوکا تھا جو ان دنوں وزیراعظم تھیں۔
فضل الرحمن کے نئے فتوے پر پتا نہیں کتوں کا ردعمل کیا ہوگا، وہی جانتے ہیں جو ان کی زبان جانتے ہیں فضل الرحمن اس زبان کے ماہر لگتے ہیں۔ اس لیے ان کی بات پر آمنا وصدقنا کہناپڑے گا۔
اس موقع پر اصحاب کہف کا کتا ہرایک کو یادآیا ہے لیکن اس کتے بھی ذہن میں رکھئے جس کا ذکر خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا کہ دریا کے کنارے بھوک اور پیاس سے مر جانے والے کتے کی باز پرس بھی روز قیامت ان سے ہوگی۔
فضل الرحمن نے تو کتے کو شہید کا درجہ دیا مگر ان سے بہت پہلے کچھ لوگ کتے کوجنتی بھی کہتے رہے۔ مارک ٹوین نے کہا تھا، جنت میں اگر کوئی میرٹ پر گیا تو وہ کتا ہو گا، آپ باہر کھڑے رہ جائیں گے۔ امریکی کارٹونسٹ اور ادیب جیمز تھربر کا کہنا ہے کہ میں اگر ابدیت پرایمان رکھتا تویقین سے کہہ سکتا تھا کہ جنت کتوں سے بھری ہوگی، انسان وہاں بہت تھوڑے ہوں گے۔ جارج ایلیٹ نے کہا کہ کتے آپ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، وہ کوئی سوال نہیں پوچھتے،آپ پر کبھی تنقید نہیں کرتے۔ فرائڈ کا قول ہے کہ کتے اپنے دوستوں سے محبت کرتے ہیں اور اپنے دشمنوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں، یہ انسان ہے جسے دوستی دشمنی محبت اور نفرت کی کوئی تمیز نہیں۔
ہمارے جاگیردار انگریز سرکار کے کتے نہلاتے رہے اور جاگیریں اور ذیل داریاں انعام میں حاصل کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ پچھلے چھیاسٹھ برسوں سے انہی جاگیرداروں کی اولادوں کی اولادوں نے عام پاکستانی کو کتے کی حیثیت بھی نہیں دی۔
ایک کتا تازہ تازہ جیل سے رہا ہونے والے جنرل مشرف کا بھی تھا جسے انہوں نے مارشل لا لگانے کے فوری بعد سینے سے لگا کر تصویر بنوائی اور امریکہ اور اہل مغرب سے لبرل ہونے کی سند پائی۔ ان کے دور میں روشن خیالی اور آزادہ روی کو مذہب کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ سب اس کتے کافیض تھا۔
فوج میں ہاتھی، گھوڑے، اونٹ اور خچر تو استعمال ہوتے رہے، کبوتر کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا، اب پیغام رسانی کا ایک ذریعہ موبائل فون ہے جسے ریموٹ کنٹرول دھماکے کا ہتھیار بنا لیا گیا ہے۔ کتے بھی فوج میں بھرتی کیئے جاتے ہیں لیکن صرف جاسوسی کے لیئے۔ مگر فضل الرحمن کے فتوے کے بعد کتوں کو خودکش حملوں کے لیئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، جنت کی بشارت تو مولانا نے دے دی۔ اس کام کے لیئے اسے سدھانا کوئی مشکل کام نہیں۔ آوارہ کتے ہر جگہ آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں، کوئی ان پر خودکش بمبار ہونے کا شک بھی نہیں کر سکتا۔ ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کو اس نئے خطرے سے ہوشیار رہنا چاہیئے لیکن ڈرون سے انہیں کون بچائے گا، نہ بچیں، مولانا نے شہادت کا بازار لگادیا۔
انسان ہونے کے باوجود ہماری ایک عادت ہے کت پنا۔ اللہ اس سے بچائے۔ (8 نومبر 2013ء)