خبرنامہ

ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی مثبت رپورٹ۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

دنیا بھر میں کرپشن کی صورت حال کے بارے میں غیر ملکی ادارہ ،ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل اپنی جائزہ رپوٹس مرتب کرتا رہتا ہے، نئے سال کی جو رپورٹ جاریکی گئی ہے ، ا سکے مطابق پاکستان میں کرپشن خوری کی لت میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ اگرچہ یہ رپورٹ ایک مجموعی تاثر کی بنا پر مرتب کی جاتی ہے اور اسے تحقیقی معیار کی رپورٹ نہیں کہا جا سکتا مگر اس ادارے کی ساکھ ایسی ہے کہ ا س کی رپورٹوں پر اعتبار کیا جا تا ہے اور انہیں کبھی کسی نے چیلنج بھی نہیں کیا۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر شائع ہوئی ہے جب پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں پانامہ کا ہنگامہ برپا ہے اور کرپشن کو سکہ رائج الوت سمجھا جا رہا ہے،ا سکے باوجود اس رپورٹ کو پاکستان کے تناظر میں حوصلہ افزا خیال کیا جا رہا ہے ۔جہاں تک پانامہ کا قصہ ہے تو یہ ماضی کی بات ہے ا ور ابھی تک بات الزامات سے
آگے نہیں بڑھی، سپریم کورٹ تمام فریقوں کے وکلا سے ایک ہی ا ستدعا کر رہی ہے کہ کوئی ثبوت بھی تو پیش کرو، محض سنی سنائی باتوں پر فیصلہ تو نہیں کیا جا سکتا۔
دیکھا جائے تو پچھلے چند برسوں میں ملک کے اندر کرپشن کا وہ کھیل نہیں ہو رہا جو زرداری یااس سے پہلے مشرف دور میں دیکھنے کو ملا، تب مشہور تھا کہ ہرکوئی ایک کروڑ ڈالر کی دیہاڑی لگا رہاہے اور وزرا تھیلے بھر بھر کے لوٹ مار کی کمائی بیرون ملک لے جا رہے تھے۔
ملک میں ان دنوں میگا پراجیکٹس پر کام جاری ہے، ان میں مال بنایا جاسکتا ہے مگر میاں شہباز شریف ایک سے زاید مرتبہ واضح کر چکے ہیں کہ صر ف اور نج ٹرین کے منصوبے کے لئے انہوں نے چینی حکومت سے کہا کہ وہ اس کی بڈنگ کریں گے، چین نے ہر چند اعتراض کیا کہ اسٹیٹ ٹو اسٹیٹ منصوبوں کی بڈنگ نہیں کی جاتی مگر شہباز شریف نے انہیں قائل کیا کہ وہ ہر معاملے کو شفاف رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے اصرار پر بڈنگ تو ہو گئی مگرا سکے بعد بھی شہباز شریف نے فرمائش کر دی کہ انہیں یہ قیمت بھی منظور نہیں، اس میں مزید کمی کی جائے، چینی حکومت نے پھر کہا کہ ایک تو بڈنگ ہی نہیں ہو سکتی تھی، اوپر سے آپ سب سے کم نرخ بھی منظور کرنے کو تیار نہیں یں ، بہر حالی چینیوں کو شہباز شریف کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے، اصل میں شہباز شریف کی کوشش یہ تھی کہ ایک تو یہ سودا ٹرانسپرینٹ رہے، دوسرے ملک کو جس قدر مالی فائدہ پہنچایا جائے، اس کی کوشش کر لی جانی چاہئے، وزیر اعظم کئی بارا پنی تقریروں میں بتا چکے ہیں کہ ان کی حکومت نے مختلف منصوبوں کے معاملات طے کرتے ہوئے پاکستان کو کتنے ارب کا فائدہ پہنچایا، ظاہر ہے ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ چینیوں کو بھی مال کمانے کی کھلی چھٹی دیتا اور اپنی جیب بھی بھر لیتا مگر بظاہر نواز شریف ا ور شہبازشریف نے ایسا نہیں کیا۔
ایک زمانہ تھا جب ملک میں ایک حکمران کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا جاتا تھا، پھر ایک دور آیا کہ اسی کا نام مسٹر ساٹھ پرسنٹ پڑ گیا۔ میڈیا میں غیر ملکی محلات اور سوئس اکاؤنٹوں کے چرچے ہونے لگے۔ مگر یہ سب وائٹ کالر کرائم تھا جسے عدالتوں میں ثابت نہیں کیا جاسکتا تھا، چنانچہ پاکستان کو لوٹنے والوں نے اپنے ا وپر ہاتھ نہ ڈالنے دیا۔
ایف بی آر ٹیکس اکٹھا کرنے والا ادارہ ہے مگر اس کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق تاجروں اور صنعتکاروں نے اربوں کے ٹیکس چوری کئے ہیں اور یہ حرام کی دولت بیرونی ملکوں میں جمع کرا دی ہے۔
موجودہ وزیر خزانہ ا سحق ڈار کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے عالمی معاہدوں میں شرکت کی جائے جن کی بدولت غیر ملکی بنکوں سے معلومات اکٹھی کی جا سکیں۔وہ او ای سی ڈی کے معاہدے میں شامل ہو چکے ہیں اور اب اس سے آگے کا کام جاری ہے کہ جو لوگ ٹیکس چوری کرتے ہیں ، ان پر ہاتھ ڈالا جا سکے، وزیر خزانہ نے مجھے بتایا ہے کہ بہت جلد وہ ایسے ایک عالمی معاہدے پر دستخط کرنے جائیں گے۔
حکومت کرپشن اور لوٹ مار کے خاتمے میں کس قدر سنجیدہ ہے، ا سکا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی حکومت نے الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بند کر دیا ہے، حکومت پاکستان نے اس امر پر شدید احتجا ج کیا ہے ا ورا س کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے معلومات مانگ لی ہیں۔واضح رہے کہ برطانوی پولیس نے الطاف حسین کے گھر پر چھاپہ مار کر بے اندازہ نقدی بر آمد کی تھی ،ا س پر کچھ عرصہ تحقیقات کا ڈرامہ رچایا گیا، کوئی عام آدمی ہوتا تو اب تک جیل کی ہوا کھا رہا ہوتا مگر الطاف حسین کے ساتھ حکومت برطانیہ کے نرم رویئے سے ثابت ہوتا ہے کہ دیگر ممالک کھلی لوٹ مار کی کس قدر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
ان دنوں پاکستان کے حکمرانوں کے خلاف ایک ہنگامہ برپا ہے لیکن اگر ان حکمرانوں کا دامن صاف نہ ہوتا تو وہ دوسرے چور وں کے پیچھے کیوں یوں ہاتھ دھو کر پڑتے، میاں شہباز شریف تو ریکارڈ پر ہیں کہ وہ سابق حکمرانوں کی لوٹ مار کی ایک ایک پائی واپس لائیں گے ا ور انہیں لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے، ایسی باتیں وہی کہہ سکتا ہے جو خود شیشے کے گھر میں نہ بیٹھا ہو۔
ان دنوں عمومی طور پر کسی کے ہونٹوں پر کرپشن کی نئی کہانی نہیں، عام دفتروں اور تھانے کچہریوں کا تو وہی بر احال ہے مگر حکومت کی اعلی تریں سطح پر نہ تو ٹھیکے فروخت ہوتے ہیں، نہ نوکریاں بیچنے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں ، حکومت کا فرض ہے کہ وہ محکمہ انٹی کرپشن، ایف آئی اے ا ور نیب کو چوکس کرے اور انہیں بڑی حد تک خود مختاری بھی دے تاکہ وہ کسی اعلی شخصیت کو شکنجے میں لینا چاہیں توا سکی رہائی کے لئے اوپر سے سفارشیں نہ آئیں، نہ دباؤ ڈالا جائے۔ میاں شہباز شریف نے تو بیکری کیس میں اپنے داماد کی گرفتاری بھی ڈلوا دی تھی۔ اگر یہی سلوک دوسرے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ روا رکھا جائے ا ور ارکان اسمبلی کو بھی کوئی ڈھیل نہ دی جائے تو بتدریج کرپشن کو نچلی سطح پر بھی حرف غلط کی طرح مٹایا جاسکتا ہے۔