خبرنامہ

کرپشن کر لو، کرپشن کرا لو۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
ماشاللہ یہ ایک اشتھار کا عنوان ہے جس کی اشاعت کا مشورہ پاکستان کے انصاف کے اعلی تریں ادارے سپریم کورٹ نے احتساب کے سب سے بڑے ادارے نیب کو دیا ہے۔
سپریم کورٹ ہی کے ایک اور جج نے فرمایا ہے کہ نیب کرپشن کا سہولت کار ہے،سپریم کورٹ نے پلی بارگین کے قانون پر حکومت سے ایک ہفتے کے اندر جواب طلب کر لیا ہے۔
نیب کے خلاف حق گوئی کاآ عازز وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے کیا، ا سکے بعد وزیر اعظم کے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے چیف منسٹر میاں شہبازشریف نے نیب کے لتے لئے اورا سے فراڈ تک کہہ ڈلا۔اب سپریم کورٹ نے بھی ساراکچھا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔
اتنے اعلی تریں مناصب پر فائز اصحاب نیب کو برا اور بدی کا سر چشمہ سمجھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ابھی تک قانون سازی کر کے اس کا تیا پانچہ کیوں نہیں کیا یا اس کیا صلاح کیوں ننہ کی، بلدیاتی اداروں کو لگام ڈالنے کی ضرورت تھی تو پنجاب حکومت راتوں رات آرڈی ننس لے آئی ۔ عدلیہ کو بھی جب اپنی تقریوں کا نظام بنانا تھا تو کسی قانون سازی کا انتظار نہ کیا ور ایک فارمولا بنا کر پارلیمنٹ کو حکم دے دیا کہ وہ اسکے مطابق آئین مین ترمیم کر دے، اب ملک میں کھلی لوٹ مار ہو رہی ہے، خزانہ چٹ کیا جا رہا ہے، لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے تو اسے لگام ڈالنے کے لئے کوئی قانون نہیں بنا ، صرف رننگ کمنٹری سے لوگوں کا دل لبھایا جا رہا ہے ا ور واہ واوہ کی داد وصول کی جا رہی ہے۔
نیب جیسے ا دارے لہریں گننے کا مقدس فریضہ انجام دیتے ہیں، جس دنیا میں لہریں گننے پر مامور شخص کرپشن کا راستہ نکال لیتا ہے، وہاں احتساب بیورو، وزیر اعظم معائنہ کمیشن، وزیر اعلی معائنہ کمیشن، انٹی کرپشن، پولیس، پٹواری حتی کہ کلر ک بادشاہ بھی سر عام کرپشن کرتے ہیں اور اور تو اور عدالتوں میں مجسٹریٹ کے برابر بیٹھا ہوا محرر بھی سو ددو سو لیتے ہوئے نہیں جھجکتا،ا سے ہزار بارا شارے کرتے رہو کہ بھئی، جج صاحب ساتھ ہی بیٹھے ہیں کیوں ہتھکڑی لگواتے ہو مگر وہ نوٹ وصول کرتا ہے، ان کی گنتی کرتا ہے اور دراز میں اڑس لیتا ہے۔ میں نیب کے ایک ایسے مشیر کو جانتا ہوں جو لاہور کی کلفٹن کالونی میں تین مرلے کے تنگ و تاریک مکان میں رہائش پذیر تھا مگر مشرف کا مارشل لا لگا اور اس کی سنی گئی، کسی جاننے والے نے اسے نیب میں مشیر لگوا دیا، اس لئے کہ وہ ریٹائرڈ میجر تھا، ایک دن مجھے ا س کا فون آیا کہ تمہارا فلاں قریبی دوست فرار ہو کر گلاسگو بیٹھا ہوا ہے، اس کا کیس فائنل ہو چکا ہے ،اسے کہو کہ اڑھائی کروڑ فلاں بنک کے کھاتے میں جمع کرا دے، ابھی تو میں بچا سکتا ہوں ،پھر کوئی شکوہ نہ کرنا۔ میں نے دوست کو فون کیا ، انہوں نے جواب دیا کہ کہ وہ جو کرنا چاہتے ہیں کر گزریں،میرا کیس عدالت عالیہ میں فیصلے کے قریب ہے اور میں تو ہر الزام سے بری ہو رہا ہوں، آج گلاسگو والے دوست ہر غم اور فکر سے آزاد ہو کر واپس پاکستان آ چکے ہیں اور نیب والے دوست نے اس اثنا ء میں ڈیفنس میں دو کنال کا گھر اس نقشے کے ساتھ بنا رکھا ہے کہ اسکی ایک منزل سطح زمین سے نیچے ہے، جھیلیں بنی ہوئی ہیں، موسمی پھول کھلے ہوئے ہیں اور بطخیں تیرتی دکھائی دیتی ہیں، نیب زندہ باد!
نیب کے چیئر مین بجائے ا سکے منہ چھپاتے پھریں ، الٹا اپنی صفائی دینے اور اپنے کارنامے گنوانے کے لئے میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں، سب سے پہلا معرکہ تو انہوں نے یہ مارا ہے کہ بلوچستان سے بر آمد شدہ رقم بائیس ارب سے گھٹا کر صرف دو ارب کر دی ہے اور ملک بھر کے ایڈیٹروں؂ کو چیلنج کر دیا ہے کہ وہ ثابت کریں کہ ا نہوں نے بائیس ارب کی برآمدگی کی خبر کس بنیاد پر شائع کی۔ اسی نیب نے پہلے جب بائیس ارب بر آمد کئے تھے تو ملک بھر سے داد وصول کی تھی، اب پلی بارگین ہوئی ہے اور شور مچا ہے تو برآمدی رقم ہی کم کر دی ہے، ایوب خان کے زمانے میں ایک مشہور زمانہ اسمگلر سے کئی ٹن سونا برآمد ہوا، مگر بعد میں انکشاف ہوا کہ یہ تو پیتل تھا، دیکھا جی ! کہ لوگ کس طرح ہاتھ کی صفائی سے سونے کو پیتل اور بائیس ارب کو دو ارب بنا دیتے ہیں۔
یہ نیب کی بحث سے مجھے تو ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ کہیں یارلوگ مل ملا کر نیب کا گلا ہی نہ گھونٹ دیں ،تاکہ نہ کوئی نیب ہو ، نہ کوئی پکڑنے والا ہو، میثاق لندن میں تو لکھ دیا گیا تھا کہ آئندہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کاروائی نہیں کریں گی، انتقامی کاروائی سے مراد یہی تھی کہ مخالف سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ سرے محل کہاں سے آیا، سونے کا قیمتی لاکٹ کس نے ہڑپ کر لیا اور سوئس اکائنٹوں میں دولت کس کی ہے۔ ویسے کرپشن تو آج کل ایک سائنس کی شکل ا ختیار کر گئی ہے اور وائٹ کالر کرائم کو ثابت کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا جوئے شیر لانا۔کرپشن کی ایک صاف ستھری اورقانونی شکل یہ ہے کہ آپ اربوں کے قرضے لیں اور پھر ان کو معاف کروا لیں۔اس بہتی گنگا میں کس نے اشنان نہیں کیا، الا ماشاللہ کوئی بچا نہیں ہو گا۔
کہتے ہیں پاکستان میں بجلی نہیں ہے، گیس نہیں ہے، لا ینڈآرڈر نہیں ہے مگر آ پ دیکھیں کہ ڈیفنس آباد ہوتے جا رہے ہیں ، شاپنگ مالز کھل رہے ہیں ، اتنی بھیڑہے کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے، تو کیا یہ ساری دولت درختوں پر اگتی ہے۔سڑکوں پر جن گاڑیوں سے ٹریفک بند ہوتی ہے کیا یہ سب بارش میں ٹپک پڑی تھیں۔کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ناجائز دولت سے تعمیر کردہ بنگلے کی پیشانی پر لکھ دیا جاتا ہے ہذا من فضل ربی۔ قائداعظم کی تصویر والانوٹ بدنام ہو گیا ہے کہ اتنے قائد اعظم نذر کرو تو کام ہو جائے گا۔ ہر سرکاری دفتر میں ایک ہی اصطلاح رائج ہے کہ فائل کو پہئے لگاؤ۔خدا کی پناہ کہ یہ سینہ زوری قائد اعظم اور اس کے بنائے ہوئے ملک کے سادہ لوح عوام کے ساتھ بھی ہونا تھی۔ قائد اعظم نے یہ ملک لوٹ مار، کرپشن، قتل و غارت، بھتہ خوری کے لئے تشکیل نہیں دیا تھا۔
اب جبکہ سپریم کورٹ یہ ریمارکس دے چکی کہ نیب کا ادارہ کرپشن کا سہولت کار ہے تو پھرا س کا فرض بنتا ہے کہ یا تو وہ خود متعلقہ قوانین کے تحت کاروائی کرے اور کرپٹ افراد اور ادارے کو کیفر کردار تک پہنچائے اور اگرا سکے پاس وقت نہیں ہے تو یہ تما م کیس نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتوں کے حوالے کر دیئے جائیں کہ اس پلان کے تحت کرپشن کرنے والوں اورا سکے سہولت کاروں دونوں کے خلاف کاروائی ممکن ہے۔ سپریم کورٹ کو بلوچستان کے سیکرٹری رئیسانی کے کیس کو ٹیسٹ کیس بنانا چاہئے، پہلے تو اس امر کی تحقیات کی جائے کہ بائیس ارب، دو رب میں کیسے بدل گئے، پھر یہ تحقیق کی جائے کہ رئیسانی کو رشوت دینے والے کون تھے، انہوں نے کیا جائز یا ناجائز کام نکلوائے اور جب تک یہ تحقیقات نہیں ہو جاتیں ،نیب کے چیئرمین کو منصب سے الگ کیا جائے تاکہ وہ تحقیقات پرا ثرا نداز نہ ہو سکیں ، ویسے نیب چیئر مین پر توہین عدالت کے لزام کے تحت بھی کاروائی کی جا سکتی ہے، ان کا کہنا ہے عدالتوں میں مقدمات چلا کر کونسی رقم برآمد کر لی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ ملکی ادارے ایک دوسرے سے بھڑ گئے ہیں مگر سپریم کورٹ ہر ادارے سے محترم اور مقدس ہے ا ور اس کے سامنے زبان کھولتے ہوئے سو بار سوچ لینا چاہیے، یہ احتیاط نیب چیئر مین ملحوظ نہیں رکھ سکے۔
عدالتوں نے بات کھولی ہے تو اسے منطقی انجام تک بھی پہچائیں۔