خبرنامہ

آبی دہشت گردی کی جنگ میں رسوا کن شکست کا ذمے دار کون

بسم اللہ..میں برکت علی لونا کو نہیں جانتا، کبھی ان سے نہیں ملا، یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ اپنی کتاب کے مندرجات کی خوشہ چینی کی اس واردات سے بھی باخبر ہیںیا نہیں، مجھے اقبال چیمہ صاحب نے بتایا ہے کہ لونا صاحب کی عمر ا سوقت اٹھاسی برس کی ہے مگر اس عمر میں بھی لونا صاحب میرے ذہن میں یہ سوال ابھارنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ پاکستان آبی دہشت گردی کی جو جنگ انتہائی ذلت آمیز طریقے سے ہار رہا ہے ، اس کی ذمہ داری کس کے سر ڈالی جائے۔ انہوں نے تو یہ نہیں لکھا مگر میں سوچتا ہوں کہ اس شکست کی اولیں ذمے دار پاکستان پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں جنہوں نے بجلی بنانے کے لئے تھرمل کے راستے کو ترجیح دی۔ ہائڈل بجلی بنتی تو ہمیں ڈیڑھ روہے فی یونٹ میں پڑتی، تھرمل بجلی آج ساڑھے سولہ روپے میں پڑ رہی ہے اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس قدر مہنگی بجلی بنانے کے باوجود ہمیں اپنی زراعت اور اپنے گھریلو استعمال کے لئے پانی کا مزید قطرہ تک دستیاب نہیں ہو سکا۔
میں پوچھتا ہوں کی ڈھاکہ میں سرنڈر کے لئے ہم جنرل یحی خان اور جنرل نیازی کی قبروں کوجوتے دکھاتے ہیں لیکن آبی جنگ میں سرنڈر کرنے والوں کو ہم عزت و وقار کا مقام کیوں دیتے ہیں۔
آج پاکستان کی حکومت بلند بانگ دعوی کرتی ہے کہ ا سکے پاس تاریخ کا سب سے بڑا زرمبادلہ کا ذخیرہ ہے لیکن ہمیں یہ شرم محسوس نہیں ہوتی کہ ہم اس قیمتی زرمبادلہ کے ذخیرے کو بھارت سے آلو ، پیاز،دالوں اور کیلوں کی در آمد پر لٹا رہے ہیں۔
ہماری ہر حکومت فخر کرتی ہے اور اس یوم پاکستان کو ہم نے اس فخر کاا ظہار بڑے فخر سے کیا کہ بھارت کی جنگی جارحیت کو کچلنے کیلئے ہم نے ایٹم بم اور میزائل تک بنا لئے اور تھنڈر طیارے ا ور الخالد ٹینکوں کا ڈھیر لگا لیا مگر اسی بھارت نے جوآبی جنگ شروع کر رکھی ہے، اس کے مقابلے کے لئے ہم اکھاڑے میں اترنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
لونا صاحب بتاتے ہیں کہ ہم بھارت کی آبی جارحیت میں کیسے ہارے۔ سندھ طاس کا معاہدہ طے ہوا، بھارت کو ستلج ، بیاس اور راوی کے دریا مل ے اور ہمیں چناب ، جہلم اور سندھ کے دریا ملے۔ بھارت کو تین دریاؤں سے 330 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملا، اس میں سے اس نے جلد ہی140 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر لیا۔ اس ذخیرہ شدہ پانی کی بدولت بھار ت نے 1370 لاکھ ایکڑ فٹ مزید زمین کو سیراب کر لیا۔پانی کے ان ذخائر سے بھارت نے بھاکڑہ ڈیم پر 1325 میگا واٹ،پونگ ڈیم پر 360 میگا واٹ،تھین ڈیم پر 600 میگا واٹ بجلی بھی تیار کی، بھارت کے دوسرے دریاؤں پر بننے والے ڈیموں سے 25556 میگا واٹ بجلی تیار ہو رہی ہے۔زیر تعمیر تین ڈیم اور بھی ہیں جن سے اسے چھ ہزار میگا واٹ بجلی میسر آئے گی۔
بھارت اپنے پانی کا قطرہ تک ضائع نہیں کرتا ورا سنے اپنی زراعت کو ا سقدر ترقی دے لی ہے کہ وہ اپنی زرعی اجناس مغربی ہمسایوں کو بر آمد کر رہا ہے۔
اب میں کہتا ہوں کہ جناب ہم خوش ہوتے رہیں ، سینہ چوڑا کرتے رہیں کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے بھی مگر ہم ایک بودی معیشت اور کمزور زراعت والا ملک بھی ہیں جو روٹی کے لئے بھارت کا محتاج ہونے والا ہے۔ آج ہمارے بچے پیاس کی شدت سے صرف تھر میں مر رہے ہیں ، خدا وہ دن نہ دکھائے جب ہمارے بچے اسلام آباد کی پر رونق شاہراہوں پر پیاس سے تڑپ رہے ہوں۔ جب میں پیدا ہوا تو میرے گھر میں دستی نلکا لگا ہوا تھا، زیر زمین پانی دس فٹ کی گہرائی پر بھی دستیاب تھا ،میرا گاؤں ستلج ہیڈ ورکس کے کنارے پر واقع ہے مگر آج پانی پچاس فٹ تک نیچے چلا گیا ہے اور وہ بھی پینے کے قابل نہیں کیونکہ اس میں انسانی فضلہ ا ور دیگر آلائشیں ملی ہوئی ہیں۔میں لاہور اور کراچی میں زیر زمین پانی کی دستیابی کے اعدادو شمار سے آگاہ نہیں۔لیکن میرا اندازہ ہے کہ لاہور میں سات سو فٹ کی گہرائی پرپانی دستیاب ہے ۔ساٹھ کے عشرے میں لاہور آناہوا تو گھروں میں نلکے لگے ہوئے تھے مگر ان کا پانی کھارا تھا یعنی یہ پینے کے قابل نہیں تھا۔
ہم اٹھتے بیٹھتے قائد اعظم کے اس قول کا ورد کرتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ ہے لیکن اس اقتصادی شہہ رگ کی حفاظت کے لئے ہم نے انیس سو اڑتالیس کے بعد کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی، جبکہ بھارت اب تک کشمیر میں چھ سات لاکھ تک فوج داخل کر چکا ہے جس کی طاقت کے بل بوتے پر وہ سندھ طا س معاہدے میں پاکستان کو ملنے والے چناب ، اور جہلم کے دونوں دریاؤں پر پانی ذخیرہ کئے جا رہا ہے اور ہمارے اندر یہ ہمت نہیں کہ ا سے اس مذموم آبی دہشت گردی سے روک سکیں۔
بھارت کی یہ آبی دہشت گردی دو دھاری تلوار کی طرح ہے، وہ ہماری ضرورت کے وقت پانی روک لیتا ہے اور جب سیلابی موسم سر پہ آجائے تو وہ فالتو پانی چھوڑ کر ہمارے شہروں اور دیہات کو سیلا ب میں غرق کر دیتا ہے ، ہم اپنے بڑے شہروں کو سیلاب کے نقصانات سے بچانے کے لئے بندتوڑ دیتے ہیں اور سیلاب اترنے کے بعد دوبارہ یہ بند تعمیر کرتے ہیں، یہ شیطانی چکر ہر سال جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے ہم سال بھر اگر کہیں سے کچھ کما لیتے ہیں تو سیلاب کی آفت اسے برباد کر کے رکھ دیتی ہے، یہ سیلاب کسی صوبے کومعاف نہیں کرتا، گلگت ،خیبر پی کے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان بری طرح ا سکی زد میں آتے ہیں۔ ہم نے من حیث القوم ایک مجرمانہ فعل کاارتکاب کیا ہے کہ اس فالتو پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی بند و بست نہیں کر سکے، منگلاا ور تربیلا کے بعد1976 سے ہم نے کوئی ڈیم نہیں بنایا ۔ بس ہاتھوں پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور اپنی بربادی کا نظارہ کرنے پر مجبور ہیں۔
ہم نے پچھلے اڑتیس برس میں پانی کا یک قطرہ تک مزید ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا، ساری دنیا میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے ڈیم بنتے ہیں، ان ڈ ٖیموں سے پانی کی قلت میں کہیں اضافہ نہیں ہوا، مگر ہمارے ہاں الٹا دماغ چل رہا ہے کہ اگر کوئی ایک ڈیم اور بن گیا تو پاکستان میں پانی کی قلت واقع ہو جائے گی، اس دلیل کو عام آدمی بھی قبول نہیں کر سکتا مگر ہمارے حکمران چار عشروں سے سوئے پڑے ہیں۔بھارت نے ہمارے اپنے حصے کے پانی کو روکنے کا مکمل انتظام کر لیا ہے، وہ آبی دہشت گردی پر اتر آیا ہے، ہم دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب اور ردالفساد شروع کرتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہیں مگر آبھی دہشت گردی کا محاذ کلی طور پر خالی ہے، بھارت اکیلا اس اکھاڑے میں دندنا رہا ہے، وہ ہمیں بھوک اور پیاس کے ہاتھوں معاشی سرنڈر پر مجبور کر دے گا، خدا نخوا نستہ یہ نوبت آ گئی تو اس سرنڈر کی ذمے داری کس پر ڈالی جائے گی۔ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔بغداد،حلب ،فلسطین،قرطبہ، غرناطہ، اشبیلیہ کو ہم رو سکتے ہیں ، مگر ہمیں رونے والا کون ہو گا۔
مجھے آج اپنے مرشد مجید نظامی رہ رہ کر یاد آ رہے ہیں، وہ آخری سانس تک بھارت کی جنگی اور آبی دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر رہے، مجھے قائد اعظم بھی یاد آتے ہیں جنہوں نے ہم پر واضح کیا تھا کہ کشمیر ہماری اقتصادی شہہ رگ ہے ، آج نہ ہم میں مجید نظامی ہیں ، نہ ہمارے قائد محترم۔ہم بونوں اور بزدلوں کے گھیرے میں ہیں۔
مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں کسی ہارے ہوئے لشکر میں ہوں ۔