خبرنامہ

آخری حد تک جائیں گے، ضرور جائیں گے۔۔۔اسداللہ غالب

آرمی چیف نے بدھ کے روز کراچی کا دورہ کیا، امن وامان سے متعلق اعلی سطحی اجلاس میں شرکت کی اور اعلان کیا کہ کراچی میں قیام امن کے لئے آخری حد تک جائیں گے۔
یہ آخری حد کیا ہے۔
کیاآخری حد ریٹائر منٹ کی تاریخ ہے۔
کیااس سے �آگے نئی حد شروع نہیں ہو جائے گی۔
اور کون جانتا ہے کہ اس حد سے آگے کیا ہو گا۔
کاش ! جنرل صاحب نے یہ اعلان نہ کیا ہوتا کہ وہ توسیع نہیں چاہتے،اور اپنی ٹرم کے آخری لمحے گھر چلے جاتے۔
اعلان کرنے اور نہ کرنے میں واضح فرق ہے اور بڑا فرق ہے۔
اعلان کرنے سے زرداری کی باچھیں کھل گئی ہیں۔خورشید شاہ بھی خورسند ہیں۔کہاں زرداری نے کہا تھا کہ آپ تو تین سال ہیں مگر اعلان نے ان تین سالوں میں سے دس ماہ کم کر دیئے، عملی طور پر تو نہیں مگر نفسیاتی طور پر ضرور کم ہوئے ہیں۔
جنرل نے اپنے چاہنے والوں کو رلا دیا ہے۔ ان کے چاہنے والے یہ تو ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ جنرل صاحب جمہوریت کا بوریابستر گول کر دیں لیکن یہ ضرور چاہتے تھے کہ جنرل کے وقار میں ذرہ بھر فرق نہ آنے پائے، وہ اونچے ہی اونچے پرواز کرتے رہیں، معرکے پر معرکہ مارتے رہیں۔عزت پہ عزت کماتے رہیں اور رخصت ہو ں تواسی آن بان اور شان سے ۔
سیاستدان جیت گئے، جنرل کے چاہنے والے ہار گئے۔ہو سکتا ہے جنرل کے چاہنے والوں کو ان حقائق کجا علم نہ ہو جو اس اعلان کا باعث بنے لیکن اگر یہ وجہ ٹاک شوز اور میڈیا کے تبصرے تھے تو ان کے رد عمل میں اعلان کی قطعی ضرورت نہ تھی اور وہ بھی دس ماہ پہلے۔
کیا ٹاک شوز اور میڈیا میں تبصر ے کرنے والوں کا یہی مقصد تھا۔ کیا سیاستدانوں کے دباؤ کا یہی مقصد تھا، نہیں بھی تھا تویہ مقصد پورا ہو گیا۔
چودھری نثار وزیر داخلہ ہیں، کم کم بولتے ہیں مگر پور اتول کر بولتے ہیں، ان کا فرمان امروز ہے کہ ہم بندوق کی جنگ جیت رہے ہیں مگر نفسیاتی جنگ ہار رہے ہیں، وزیر داخلہ نے فوج کو خراج تحسین پیش کر دیا مگر قوم کی کمزوری کو عیاں کر دیا۔ فوج نے ایک کارنامہ انجام دیا، فاٹا کو دہشت گردوں سے پاک صاف کر دیا، یہ علاقہ ، علاقہ غیر کہلاتا تھا مگر اب یہ پاک چین اقتصادی کوریڈور کی راہگزر بنے گا، فوج نے جو کچھ کیا ، وہ بظاہر ناممکن تھا، کئی رستم زماں اس علاقے میں ڈھیر ہو گئے مگر جنرل راحیل کامیاب وکامران ٹھہرے۔اس کامیابی کو برقرار رکھنے کی ذمے داری قوم کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے، قوم میں ان کے حکمران بھی شامل ہیں۔ اور یہاں مجھے وزیر داخلہ سے سو فیصد اتفاق ہے کہ دہشت گرد ہمیں دہشت زدہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم ہو بھی رہے ہیں، دہشت گردوں کا مقصد پورا ہو رہا ہے۔وزیر داخلہ کے مطابق ہمیں ایک تو کسی سانحے پر دھول نہیں اڑانی چاہئے ، دوسرے غیر ضروری طور پر سراسیمگی طاری نہیں کر لینی چاہئے جیسے کہ اسکول بند کئے گئے ہیں۔میں بھی ا س خیال کا حامی ہوں کہ ہمیں گھر گھر مورچہ نہیں لگا لینا چاہئے۔اور اسکولوں کے سامنے تو خاردار تاریں ، سیکورٹی گارڈ، سی سی ٹی وی کیمرے اور بنکرز ہمارے بچوں کے ناپختہ ذہنوں پر خوف طاری کر سکتے ہیں۔بہر حال یہ اسٹریٹجی کا مسئلہ ہے اور رموز مملکت خویش خسرواں دانند، ایک حکمران کہتا ہے کہ ہم نفسیاتی جنگ ہار رہے ہیں اور یہ حکمران کسی معمولی منصب پر نہیں، وزارت داخلہ کے منصب پر فائز ہے، مگر دوسرا حکمران جو پنجاب کا وزیر داخلہ ہے، اس کا کہنا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خوف سے نہیں ، سردی کے ڈر سے اسکول بند کئے ہیں مگر جب فوج اپنے ا سکول بند کرتی ہے تو سردی والی دلیل دل کو نہیں لگتی۔
چلئے ا س کیفیت کو اور کچھ نہ کہیں، کنفیوژن تو کہہ لیں۔میدان جنگ میں ایک کنفیوزڈ قوم کا حشر کیا ہو سکتا ہے، اس کے لئے کسی بقراط کے پاس جانے کی ضرورت نہیں، ہمارے ہاں نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے اوریہ خبر دی ہندو نے دی ہے،اسکی ویب سائٹ پر موجود ہے کہ اوکاڑہ کے ایک درزی نے اپنے گھر پر بھارت کا ترنگا لہرا دیا، جس پر پولیس نے اسے گرفتار کر لیا،ا س شخص کودس سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔اس درزی کا کہنا یہ ہے کہ وہ ایک بھارتی کھلاڑی کا فین ہے،اس کھلاڑی کی تصویریں بھی ا س کے گھر میںآویزاں ہیں۔ یہ تو بے چارہ ایک درزی ہے، دھر لیا گیا مگر جو دانشور ، بزنس مین یا سیاستدان اپنے دل ودماغ پر ترنگا لہرائے پھرتے ہیں، وہ پولیس کے چنگل سے محفوظ ہیں۔
میں واپس موضوع کی طرف آتا ہوں۔آرمی چیف کی زبان مبارک ہو، ہمیں آخری حد تک ہی جانا چاہئے اور یہ آخری حد سر کاٹنے کی نہیں ، سر کٹانے کی ہے اور پاک فوج سر کٹانے میں کبھی پیچھے نہیں رہی۔دہشت گردی کی موجودہ جنگ اس نے چھاؤنیوں میں بیٹھے نہیں جیت لی،ا سے جان ہتھیلی پر رکھنا پڑی ہے، پانچ چھ ہزار فوجی جوان اور افسر اس جنگ میں شہید ہوئے اورجو معذور ہوئے، وہ بھی ہزاروں میں ہیں۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قوم نے دہشت گردوں کے ڈر کے مارے کسی شہید کے جنازے میں شرکت گوارا نہیں کی، فوج ہی ان کے جنازوں کو کندھا دیتی ہے اور ہم دعوی یہ کرتے ہیں کہ دفتر میں بیٹھ کر پہلی فائل جنرل راحیل کی نکالی۔ ضرور نکالی ہو گی، کسی کو تو آرمی چیف بنانا تھا، بس چلتا تو کسی جنرل کلو کو چیف بنا سکتے تھے اور ایک محترمہ بے نظیر تھیں جنہوں نے کہا تھا کہ ہم جہانگیر بدر کو بھی تو چیف جسٹس بنا سکتے ہیں۔حکمران چام کے دام چلانے کے فن سے خوب آشنا ہیں۔اور اب تو وہ ایک ہی فن جانتے ہیں کہ دام کیسے بنائے جائیں۔ٹرانسپیرنسی کی جس رپورٹ پر فخر کیا جا رہا ہے،ا س میں بھارت سے زیادہ کرپشن پاکستان میں دکھائی گئی ہے۔کیا اب بھی آپ کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں یا کچھ شرم بھی محسوس ہوئی۔
مجھے قوم سے ایک بات کہنی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت چکا ہے ا ور اس کا سہراا جنرل راحیل ا وراس کی قربانیاں دینے والی فوج کے سر سجتا ہے۔ مگر اب یہ جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، ایک تو ہم نے جنرل کو اعلان کرنے پر مجبور کر دیا، دوسرے دہشت گرد بھی آخری زور لگا رہے ہیں۔ جنرل نے بھی کہہ دہا کہ آخری حد تک جائیں گے۔ یہ عزم پوری قوم کاہونا چاہئے۔ دہشت گرد بزدل ہیں، بچوں کو نشانہ بنانے والے رستم زماں کیسے کہلا سکتے ہیں۔
قصہ مختصر۔ ہمیں آخری وار کرنا ہے اور بھاگتے ہوئے دشمن کا سر کچلنا ہے۔ اسی عزم کے ساتھ ہم یہ مرحلہ بھی کامیابی سے طے کر سکتے ہیں ، جنرل کے پاس دس ماہ ہیں۔ دیکھ لینا، ان دس مہینوں میں سورج سوا نیزے پر بھی آ سکتا ہے ۔