خبرنامہ

آرمی چیف کو فوج کے اضطراب کا سامنا۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ معمول کے دوروں میں مصروف ہیں، جمعہ کے روز وہ سنٹرل کمانڈ کھاریاں پہنچے، وہاں کے بریگیڈ کمانڈر ایک زمانے میں نوائے وقت میں لکھا کرتے تھے ۔ کھاریاں میں فوج کے افسروں اور جوانوں سے آرمی چیف نے خطاب کیا۔مگر انہیں سامنے بیٹھے مجمع سے غیر متوقع طور پر سوالوں کا سامنا کرنا پڑا۔
عام طور پر جب ملک کی سیکورٹی یا سیاسی صورت حال مخدوش ہو تو پہلے پہل کور کمانڈرز کانفرنس میں تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے، اور صورت حال زیادہ بگڑے تو جوانوں اور افسروں کی زبانیں بھی حرف سوال بن جاتی ہیں۔
اس وقت ملک کو دگر گوں صورت حال درپیش نہیں، اس لئے کور کمانڈرز کانفرنس میں کسی تشویش کاا ظہار نہیں کیا گیا مگر لگتا ہے کہ فوج کی عمومی صفوں میں ایک اضطراب ٹھاٹھیں مار رہا ہے جس کے بند ٹوٹ گئے ہیں۔
اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو فوجی عدالتیں بند ہو گئی ہیں اور جب ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا تو یہ ستم ظریفی سامنے آئی کہ فوجی عدالتوں نے تو ہر کیس کا فیصلہ سنایا،یہ فیصلے سینکڑوں کی تعداد میں تھے مگر پھانسی صرف گنتی کے چند افراد کو ملی۔ملک کے جیل خانوں کے سپرنٹنڈنٹ اتنے تگڑے ہیں کہ ان کی سزا پر عمل کرنے کے لئے تیار نہ ہو پائے۔
بات یہیں تک محدود نہیں رہی، رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ان عدالتوں کا تو کوئی خاص فائدہ انہیں ہوا۔
مسئلہ اکیلے راناثنا للہ کا نہیں ، ان کی ذاتی وجوہ سمجھ میں آتی ہیں، انہیں ایک زمانے میں کسی ایجنسی نے غا ئب کیا، پھر ان کو کسی ویرانے میں لے جا کر پھینک دیا، ان کی مونچھیں اور بھنویں مونڈ دی گئی تھیں، ظاہر ہے یہ قابل تحسین اقدام نہ تھا ، قابل مذمت بات تھی مگر رانا صاحب کے دل میں کانٹا چبھ گیا تھا، سو وہ رنگ دکھاتا رہتا ہے۔
مگر رانا صاحب کے علاوہ ملک کی کم وبیش سبھی جماعتیں فوج کے خلاف بغض کے اظہار کا موقع ضائع نہیں جانے دیتیں۔اس وقت فوجی عدالتوں کی توسیع کا مسئلہ درپیش ہے، حکومت نے ایک مشاورت بلا لی، یہ بھی طریقہ ہوتا ہے فوج کو آئینہ دکھانے کا کہ قوم کس حد فوج سے نالاں ہے، مشاورت کا یہ موقع بلا نتیجہ رہا ، بلا نتیجہ اس لحاظ سے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کا فیصلہ نہیں ہو سکا لیکن اس عمل سے فوج کو سیاسی جماعتوں کی پسند ناپسند کے بیرو میٹر سے آگاہ تو کرد یا گیا۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ پانچ سال تک فو جی آپریشن اور فوجی عدالتوں کے فوائد کے گن گانے والوں کے تیور یکا یک بگڑ کیوں گئے۔ اس کی ضرور کوئی وجہ ہو گی جو سمجھ سے بالا تر نہیں۔دوسری طرف ایک فریق فوج ہے جس کو ٹارگٹ بنا لیا گیا ہے ا ور ا س کی ساری اچھائیاں،برائی میں بدل دی گئی ہیں۔
سیاسی جماعتیں یہ بھول گئی ہیں کہ دنیا کی کوئی فوج دہشت گردی کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکی، امریکہ تو کئی ملکوں میں داعش کی سرپرستی کر کے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کررہا ہے، اوبامہ نے جاتے جاتے گوانتا نومو بے کے سارے قیدی رہا کر دیئے ہیں تاکہ القاعدہ سے یونہی جو عداوت مول لے لی گئی تھی ،اس سے چھٹکارہ مل سکے،چین کے اپنے اتنی اندر اتنی سکت نہیں کہ وہ سی پیک کی سیکورٹی خود سنبھال سکے،ا سنے یہ بوجھ پاک فوج کے کندھوں پر ڈال دیا ہے، بھارت کا جو حال اس کے طول وعرض میں ہو رہا ہے، کوئی دن آتا ہے کہ بھارت کو ہر جگہ سرنڈر کرتے بنے گی مگر آفریں ہے پاک فو ج کی جس نے ایسے علاقے سے دہشت گردوں کو مار بھگایا جہاں بڑے بڑے اسکندر اعظم جیسے سورما بھی قدم رکھتے کانپتے تھے۔افواج پاکستان نے ان علاقوں میں امن قائم کر دکھایا، پہلا نمونہ سوات اور مالاکنڈ میں پیش کیا گیا مگراج تک کئی سال گزرنے کو آئے، سول ڈھانچہ وہاں نظم ونسق سنبھالنے کی جرات نہیں کر سکا، اب فاٹا کو صاف کر دیا گیا ہے مگر صدر پاکستان کی عملداری میں کوئی سول فورس، شمالی وزیرستان کے مہاجرین کو واپس آباد کرنے کی ہمت نہیں کر سکی، تھانے، اسکول، ہسپتال ویران پڑے ہیں،فوج اہنا کام کر چکی مگر تھانے کچہری کو چلانا فوج کا کام نہیں ہے اور شمالی وزیرستان کے مہاجرین در بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
فوج کو دکھ کس بات کا ہے ، یہ کہ وہ جانیں قربان کرتے ہیں۔اپنے بچے یتیم کرتے ہیں ، ان کی سہاگنیں بیوہ ہوتی ہیں ، ان کے والدین کے نور نظر چھن جاتے ہیں مگر سیاستدان ان کی قربانیوں کو ضائع کرنے پر تلے رہتے ہیں، ایک تو فوج کو یہ طعنہ سننا پڑتا ہے کہ جان دینا تو ان کا پیشہ ہے، اس کی انہیں تنخواہ ملتی ہے، یہ تنخواہ تو پولیس کو بھی ملتی ہے، تنخواہ تو بلوچ سرداروں کی لیوی کو بھی ملتی ہے اور کراچی میں بھی قیام امن کی کسی نہ کسی تنخواہ کو ملتی رہی ہے، کراچی کے ایک لاٹ صاحب تو عشروں تک اپنے منصب سے چمٹے رہے، ان کا کام ہی ایک تھا کہ لا اینڈ آرڈر کی نگرانی کریں مگر انہوں نے بدامنی کے فروغ کی نگرانی کا فریضہ خوب نبھایاا ور فارغ ہوئے تو سیدھے ملک سے باہر۔
کراچی میں اب امن قائم ہوا ہے یہ سب کو نظرآ رہا ہے، فرق صاف ظاہر ہے مگر جس فوج اور رینجرز نے یہ کارنامہ انجام دیا ، ان کے بارے میں طرز عمل یہ ہے کہ جب کبھی رینجرز کی توسیع کا سوال اٹھا تو سو سو نخرے اور فیصلے دوبئی سے نازل ہوتے ۔پتہ نہیں کہ اس فیور کی قیمت کیا وصول کی جاتی تھی، شاید یہی کہ حضرت زرداری والا تبار کو واپس آنے دیا جائے۔
فوج کے پاس کوئی ایک درجن سے زیادہ انٹیلی جنس ادارے ہیں، بڑے تو دو ہیں مگر ان کی شاخیں لا تعداد ہیں، ان کی معلومات تک رسائی ضرور ہو گی اگر عا م آدمی کو پتہ ہے کہ اسوقت ملک کی کوئی سیاسی اور مذہبی جماعت، گروہ یا فرقہ فوج کا حامی نہیں تو یہ حقیقت فوج کے علم میں بھی ہونی چاہئے،اس پس منظر میں فوجی جوانوں اور افسروں کو اپنے سربراہ کو سوالات کر کے مزید پریشان نہیں کرنا چاہئے، ا س سربراہ کے تو اپنے سر پر اس وقت ہی ایک تلوار لٹکا دی گئی تھی جب حکمرانوں کی ایک حلیف پارٹی کے سربراہ سینیٹر ساجد میر نے جنرل باجوہ کے مذہبی عقیدے پر اعتراض کیا تھا، میں اس اعتراض کو یہاں دہرا نے کے لئے بھی تیار نہیں کیونکہ میں اپنی فوج کے سربراہ کی عزت کرتا ہوں اور ساجد میر کو بھی کرنا چاہئے تھی، وہ سر عام اپنے کہے کی معافی مانگیں ورنہ کسی پبلک مقام پر کھڑے ہو کر اپنے الزام کو سچ ثابت کریں۔ وہ ایک مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں اور انہیں اچھی طرح علم ہے کہ اسلام میں بہتان کتنا سنگین جرم ہے۔ یہاں تو جو منہ اٹھاتا ہے، فوج کے خلاف بولنے پر فخر محسوس کرتا ہے، ہماری پارلیمانی پارٹیوں کو بھارتی فوج کے جبر و ستم پر کوئی اعتراض نہیں جو کشمیریوں پر دن رات ڈھایا جا رہا ہے۔
فوج مخالف سیاسی مذہبی جماعتیں اس حقیقت سے ضرورآگاہ ہیں کہ جب تک پاکستان ہے، اسکی حفاظت کیلئے فوج کی ضرورت تو ہے، ہاں ، ایک طریقہ ہے کہ ہم جاپان یا سنگا پور یا کئی اور ملکوں کی طرح امریکی فوج کے چھاتے میں چلے جائیں مگر امریکی فوج بھی تو فوج ہی ہو گی۔ اور وہ پاکستان میں وہی کچھ کرے گی جو لیبیا، عراق ، افغانستان ا ور شام میں کر چکی ہے۔مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔
ایک صورت اور ہے کہ سکم ، بھوٹان کی طرح بھارت کی ذیلی ریاست بن جائیں۔ یا ہمارے ہاں کوئی مہاراجہ ہری سنگھ ہو جو فٹا فٹ بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دے۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ قبلہ اچکزئی ایک قرارداد ڈرافٹ کریں،خورشید شاہ اس کو سیکنڈ کر دیں اور ہماری پارلیمنٹ فوج کا ادارہ تحلیل کر دے اور یہ اعلان کر دیا جائے کہ سوئٹزر لینڈ بن گئے ہیں، فوج کے بغیر کام چلائیں گے۔
اس سارے مضمون میں، میں نے جان بوجھ کر اس خبر کا ذکر نہیں چھیڑا جس کی تحقیقی رپورٹ منظر عام پر نہیں آ سکی، فوج نے چند دن کا الٹی میٹم دیا تھا،یہ مدت گزر گئی تو فوج سمجھ گئی تھی کہ پرانی تنخواہ پر نوکری کرنا پڑے گی۔
اب تو فوج سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ فوج مخالف بیسیوں سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہوئے دریا میں رہنا ہے تو ان مگر مچھوں بلکہ مونچھوں سے بیر ممکن نہیں۔