خبرنامہ

آزادی کشمیر۔ مرشد نظامی کا خواب زندہ ہے۔۔۔اسداللہ غالب

کشمیر کے بیٹوں کے سینوں سے خون کے پھول کھل رہے ہیں اور ہم مرشد مجید نظامی کی یاد یں تازہ کر رہے ہیں۔ ان کی ایک ہی خواہش تھی کہ اب آزادی کشمیر کے خواب کی تعبیر نظر آ جائے۔
اور یہ تعبیر سامنے نظر آ رہی ہے۔
کشمیر میں بھارت کی آٹھ لاکھ فوج نے کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ کشمیری بیٹے اس کرفیو کو ہوا میں اڑا رہے ہیں ، روازنہ گلیوں بازاروں میں ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں، روازنہ بھارتی فوجی گولیاں اگلتے ہیں، روازانہ لاشیں گرتی ہیں اورآزادی کشمیر کی منزل قریب تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
وہ کیسا مرد مجاہد تھا جس نے کہا تھا کہ ا سے ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر جموں میں بھارتی فوجی چھاؤنی پر گرا دیا جائے۔ اس کے پیغام کو برہان وانی نے اس قدر عام کیا کہ بھارتی فوج بوکھلا گئی،ا س نے برہان وانی کی آواز خاموش کرنے کی کوشش کی مگرا س کے سینے سے ابلنے والے خون نے کشمیر کے بچے بچے کے ذہن کا خون کھولا دیا ہے۔
آج ساری کشمیری قیادت پا بجولا ں ہے، پھر بھی بھارت سرکار کا کوئی نمائندہ وادی میں قدم رکھنے سے قاصر ہے،پوری وادی شعلہ جوالا میں تبدیل ہو چکی ہے۔
میں نے ایک کالم میں ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کا ذکر کیا تھا، یہ خواہش ہے ہمارے نام نہاد جمہوریت پسندوں کی جنہیں موقع ملتا ہے تو وہ انہی ٹینکوں پر بیٹھ کر آنے والوں کے دربار کی سجاوٹ بن جاتے ہیں۔ وہ کئی بار ان ٹینکوں کا کھلی بانہوں سے سواگت کر چکے ہیں۔
میرے مرشد نظامی کی زبان پر بھی ٹینکوں کا ذکر آیا تھا مگر بصورت دیگر، ان سے ضیا الحق نے کہا کہ ڈھاکہ سے واپسی پر نئی دہلی ہو کر چلتے ہیں، مرشد نظامی نے کہا کہ وہ نئی دہلی ضرور جائیں گے مگر پاکستانی ٹینک پر بیٹھ کر۔بھارت کا ایک صحافی میرے مرشد کو ملنے ان کے دفتر آیا اور کہنے لگاکہ سنا ہے کہ آپ کو ٹینک پر دہلی جانے کا شوق ہے ، میں واپس جا کر ایک بھارتی ٹینک آپ کی خدمت میں بھجوائے دیتا ہوں، شوق پورا فرمالیجئے گا، مرشد نظامی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے تھے، ان کے بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے تھے، ترنت کہنے لگے کہ مہاراج ! دیوار پر آویزاں تصویر دیکھو، یہ تمہارا ہی ٹینک ہے جسے ہم نے کھیم کرن سے پکڑا تھا اور میں ہی اس پر چڑھا ہواہوں ۔ بھارتی صحافی لاجواب ہو کر رہ گیا۔
اب جو دوست پاکستانی ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کے شوق میں مرے جا رہے ہیں ، میری ان سے گزارش ہے کہ وہ کنٹرول لائن پار کریں ا ور ان بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹیں جو دن رات کشمیر کے کم سن پھولوں کو بھون رہے ہیں۔میرے یہ دوست ترکی کے عوام سے بھی کہیں کہ وہ ان ترک ٹینکوں کے سامنے لیٹیں جو شام پر گولہ باری کرکے بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔
صحافی بننا ہے تو مجید نظامی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کریں ورنہ درباری بنیں اور درباری کہلوائیں، اس میں بھی عزت ہی عزت ہے۔ ایک بار بھٹو نے نوائے و قت کے اشتھار بند کررکھے تھے۔ میاں مصطفی صادق کسی بہانے مرشدنظامی کو بھٹو کے پاس لے گئے، کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی ، آخر بھٹو نے تنگ آ کر کہا، اوئے مصطفی، وہ بات بھی تو کرو، مرشد نظامی نے حیرت سے پوچھا ، مصطفی !کونسی بات کرنا چاہتے ہیں۔ بھٹو نے کہا اپنے اشتھاروں کی بحالی کی بات، جواب ملا ، یہ استدعا میری زبان پر نہیں آئے گی۔اور آج کی صحافت کا اوڑھنا بچھونا اشتھار!
اب صحافت، ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کی پراپرٹی سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔اس گنگا میں اشنان کرنے والے پاک فوج کے ٹینکوں کے سامنے ہی تو لیٹیں گے۔یہ تو بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کی خواہش ہی سے عاری ہیں۔ان کا خیال ہے کہ کشمیری خود ہی لڑ بھڑ کر آزادی حاصل کریں اور وہ ڈل جھیل کے کنارے پلاٹوں میں پلازے کھڑے کر کے صحافت کریں۔
ایوان صدر میں جنرل مشرف نے کہا کہ دنیا آزادی کشمیر کو دہشت گردی سمجھتی ہے، آج کے بعد پاکستان کی سرزمین بیرون ملک دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔میرے مرشد نے مکہ ہوا میں لہراتے ہوئے کہا کہ آپ کشمیر کاز سے غداری کریں گے تو اس کرسی پر نہیں رہ سکیں گے، وہ ڈکٹیٹر ہوا میں اڑ گیا، میرے مرشد کا نام زندہ ہے، تابندہ ہے۔ قوس قزخ کے رنگوں میں جھلملاتا ہے۔
دل کی سرجری کے بعد وزیر اعظم نے پہلی کیبینٹ میٹنگ لاہور کے گورنر ہاؤس میں بلائی اور اس کابینہ نے بیک آواز کشمیریوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیر میں جاری تحریک ، آزادی کی تحریک ہے، بھارت اس کشمیر کو اٹوٹ انگ سمجھنے کا خیال دل سے نکال دے، اس بیان پر بھارت بوکھلا گیا، وہ نواز شریف جو اس کا چہیتا تھا، اسے تند و تیز تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔سوشماسوراج کی زبان اس کے خلاف شعلے اگل رہی ہے۔
میرے مرشد نظامی کی روح جھوم جھوم گئی کہ وزیر اعظم ان کے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے کوشاں ہے۔
اور میرے دل سے اس وزیر اعظم کے لئے دعائیں نکلتی ہیں کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو اور خدا اسے ایسی صحت س�ئنوازے کہ وہ بھارتی جبر کے خاتمے کی تحریک کی قیادت خود کرے۔ نجانے ہم نے یہ کیوں سمجھ لیا ہے کہ حافظ محمد سعید ہماری طرف سے فرض کفایہ ادا کریں گے ا ور کشمیر کو آزاد کروا کر ہماری جھولی میں ڈال دیں گے۔اس کشمیر کو تو حضرت قائد اعظم نے پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا تو کیوں نہ ہر وہ شخص جو قائد اعظم کا پیروکار ہے،اس شہہ رگ کی حفاظت میں آگے بڑھے۔
اور اسی کشمیر کے ایک حصے سیاچین پر بھارت نے چوروں کی طرح قبضہ کیا تو ہمارے ایک ڈکٹیٹر نے کہا جو ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کی خواہش رکھنے والے کاممدوح تھا کہ سیاچین میں گھاس تک نہیں اگتی۔ علامہ احسان الہی ظہیر شہید ہوئے تو ان کی زبان سے آخری الفاظ اسی سیاچین کے بارے میں تھے ۔ شہادت کا مرتبہ ہر کسی کو نہیں ملتا۔یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
اور شہیدوں کے ا س قافلے میں برہان وانی سب سے سر بلند ہے جس نے کشمیری تحریک آزادی کوتیز تر کر دیا ہے۔
میرے مرشد مجید نظامی کی آرزو پوری ہونے کو ہے کہ کشمیر آزاد ہو، بھارتی چنگل سے اسے نجات ملے۔
اس آرزو کی تکمیل کے لئے یہ تحریک چلانے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی ٹینکوں کے سامنے نہیں، بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹناہے اور بھارت کے فاشزم کا خاتمہ کرنا ہے۔