خبرنامہ

آزمائش کی گھڑی، کیا ہم تیار ہیں!!۔۔اسداللہ غالب

جس لمحے کاا نتظار تھا ، وہ آن پہنچا۔اور کیا ہم اس آزمائش کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔
آزمائش کیا ہے۔
ستمبر پینسٹھ سے بڑی۔
دسمبر اکہتر سے بڑی۔
ستمبر پینسٹھ میں ہم نے ایک قوم ہونے کا ثبوت دیا، اور ہم نے اپنے سے تین گنابڑے دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ دسمبر اکہتر میں ہم قوم کی سطح پر منتشر تھے اور دشمن نے ہمیں دو لخت کر دیا۔
آج ہمیں یہ علم نہیں کہ ہم ایک قوم ہیں یا نہیں بلکہ شک یہ ہے کہ نہیں ہیں۔شک اس لئے ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں فوج تن تنہا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان نام کی حد تک ہے، زمین پر اس کا وجود نہیں۔کراچی میں ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان مردہ باد کے نعروں پر طفلانہ سیاست دیکھنے میں آ رہی ہے اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے روز نئے پینترے بدلے جاتے ہیں۔سی پیک منصوبہ یقینی طور پر ملک کی تقدیر بدلنے کا باعث بنیگا مگر اس پر صرف بھارت نہیں، ہمارے سیاستدان بھی منفی تاثر پھیلا رہے ہیں، سی پیک دنیا کو ہضم نہیں ہوتا ، بھارت کو ہضم نہیں ہوتا، مگر پاکستا ن کے بعض عناصر کو اس سے کیوں بد ہضمی لاحق ہے۔
میں اپنے ملکی الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت اور افادیت اور اثر پذیری سے انکار نہیں کرتا مگر آج میدان میں اکیلا پاکستان ٹی وی ا ور ریڈیو پاکستان ہی ہوتا تو وہ اس جنگ کو جیت کر دکھا سکتا ہے جو اب شروع ہو چکی ہے۔ بلا شبہہ جنگیں فوج لڑتی ہے اور پاک فوج نے ہمیشہ دلیرانہ طور پر جنگ لڑی، جانوں کا نذرانہ پیش کیا، مگر فوج کے شانہ بشانہ قوم کو کھڑا کرنے میں پینسٹھ میں ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹی وی نے جو شاندار کارنامہ انجام دیا، وہ تاریخ میں یادگار رہے گا، اور یہ دونوں ادارے آج بھی یہی کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہیں اور اب میں یہ کہوں گا کہ اس جنگ میں پاکستان ٹی وی اور ریڈیو پاکستان اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کے شانہ بشانہ درجنوں نجی ٹی وی چینلز بھی میدا ن میں موجود ہیں جو ایک لمحے میں قوم کے اندر وہ جذبہ بھر سکتے ہیں جو پینسٹھ میں دیکھنے میں آیا اور مجھے کوئی شک نہیں ، کوئی اندیشہ نہیں کہ وہ ایسا کردار ادا نہیں کریں گے۔اور پھر ہمارا پرنٹ میڈیا بھی پینسٹھ کے مقابلے میں زیادہ توانا اور تنو مند ہے جو رائے عامہ کی تشکیل میں ہمیشہ سے اہم کردار ادا کر رہا ہے ا ور آج بھی وہ پوری طرح فعال ہے۔
تو پھر کمی کہاں ہے ، صرف سیاسی سطح پر۔ آج اگر عمران خان کی ترجیح رائے ونڈ ہے اور لال قلعہ نہیں تو زیادہ مغز کھپائی کی ضرورت نہیں کہ قوم میں انتشار کس حد تک ہے۔
مگر میں یہاں آپ کو دفاعی صلاحیت کے بارے میں پوری طرح مطمئن کرنے کے لئے کچھ اور نکات بتانا چاہتا ہوں جو میں دو روز پہلے اپنے کالم میں احتیاط کے طور پر شامل نہیں کر سکا۔ یہ کالم دوبارہ پڑھ لیجیے۔ میں اس خبط میں مبتلا نہیں ہوں کہ یہ تو میں نے پہلے ہی لکھ دیا تھا۔مگر صاحبو! اس کالم میں جنرل مصطفی کا یہ تجزیہ۰ پیش کر چکا ہوں کہ بھارت کوئی ناگہانی اسٹرائیک کی پوزیشن میں نہیں، لیکن وہ آزاد کشمیر میں کوئی ایسی کاروائی کر سکتا ہے جسکے بعد وہ دعوی کرے کہ ۔۔۔اس نے دراندزوں کے ایک تربیتی اڈے کو تباہ کر دیا ہے۔۔۔کیا آپ نے یہ پرسوں پڑھ لیا تھا اور آپ کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوا ہو گا کہ اگر ایک ریٹائرڈ جرنیل کو اندازہ ہے کہ بھارت کوئی شرارت کرنے کے لئے کنٹرول لائن پر فعال ہو سکتا ہے تو کیا حاضر سروس فوج کو اس خطرے کا اندازہ نہیں تھا۔ ۔۔بالکل تھا، اور بھارت نے جیسے ہی آگے بڑھنے کی کوشش کی تو پاک فوج نے اسے ٹھوکواں جواب دیا، ایک نہیں بھارت کی تین فوجی چوکیاں تباہ کر دیں۔ کنٹرول لائن پر یہ پچھلے انہتر برس کا معمول ہے جسے بھارت نے سرجیکل اسٹرائیک کے طور پر پیش کیا ہے، ایسی سرجیکل اسٹرائیک وہ شکر گڑھ، ناروو ال ، سیالکوٹ ، بجوات اور�آزاد کشمیر کے دیہات پر ہمیشہ کرتا ہے اور پینسٹھ کی جنگ سے قبل اس نے گجرات کے ایک گاؤں اعوان شریف کوگولہ باری کا نشانہ بنایا تھا۔
تو صاحبو! پاک فوج کو پوری طرح علم تھا کہ بھارت کہاں شرارت کرے گا، اور کس سطح کی کرے گا، چنانچہ پاک فوج نے ترنت جواب بھی دے دیا۔
میں آپ کو یہ بھی بتا چکا کہ کہ ناگہانی حملے کا موقع بھارت کے ہاتھ سے نکل گیا۔ مگرکیسے۔
اس لئے کہ بھارت کے کسی حملے کا شافی جواب دینے کے لئے پاکستان کو ایک گھنٹے سے تین گھنٹے کی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔عام میزائل کو حملے کی پوزیشن میں لانے کے ئے ا یک گھنٹہ چاہئے ا ور ایٹمی میزائل کی تیاری میں تین گھنٹے لگ جاتے ہیں،اور جان لیجئے کہ پاکستان یہ تیاری کر چکا، اوڑی حملے کے ڈرامے کے تین گھنٹے کے اندر اندر پاکستان اس پوزیشن میں نہیں تھا، اس لئے نہیں تھا کہ پاکستان کبھی جارح ملک نہیں تھا، نہ آئندہ جارحیت کاا رادہ رکھتا ہے مگر وہ اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے کے لئے ہر لحاظ سے تیار ہے۔ اوڑی ڈرامے کے بعد کے تین گھنٹوں کو گزرے اب کئی دن گزر چکے،ا سلئے سرجیکل اسٹرائیک کا بھارتی خواب چکنا چور ہو گیا۔اب بھارت صرف اٹھکیلیاں کر سکتا ہے، جھوٹ بول کرا پنا دل خوش کر سکتا ہے۔ اپنے عوام کو بہلا سکتا ہے، مگر اس کا ہر جھوٹ پکڑا جائے گا۔ وہ اپنے فوجیوں کی لاشیں چھوڑ کر واپس گیا ہے تو کیسے جھوٹ بول کر وقت گزار سکتا ہے۔
چلئے اگلا نکتہ پیش کر دوں ۔آج ہمارے میزائل مکمل تیاری کی حالت میں ہیں۔اور مزید سن لیجئے کہ بھارت کے ایک ایک نشانے پر میزائل فٹ ہو چکے ہیں۔دنیا میں امریکہ ا ور روس کے میزائل نشانے پر فٹ ہوتے ہیں ، باقی ملکوں کو ضرورت کے وقت میزائلوں کو نشانوں پر داغنے کے لئے فٹ کرنا پڑتا ہے اور پاکستان اپنے دفاع کے لئے اب یہ تیاری مکمل کر چکا ہے۔
اور یہ خوف دل سے نکال دیجیے کہ بھارت کی بلیو واٹر نیوی کراچی کا بلاکیڈ کر سکتی ہے، پاکستانی بحریہ اس خطرے کو رو بہ حقیقت بننے سے روکنے پر پوری طرح قادر ہے۔
اور جو باتیں میرے کرنے کی نہیں ، وہ جنرل راحیل شریف کر چکے کہ کولڈ اسٹارٹ یا ہاٹ اسٹارٹ ، ہر صورت حال کے لئے تیار ہیں۔۔۔۔اپنے دفاع کے لئے ہر حد تک جا سکتے ہیں اورا س سے آگے بھی جا سکتے ہیں۔
پاکستان کی ا س دفاعی صلاحیت کا فائدہ اٹھانا ہے تو قوم کو بھی اسی لیول کی تیاری کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا، وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں ، سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور دیگر سماجی تنظیموں کو خم ٹھونک کر کھڑا ہونا پڑے گا۔
اور یاد رکھئے ، موت سے مت خوف کھایئے، زندہ قومیں مرنے سے ڈرا نہیں کرتیں، موت انہیں مارتی ہے جو موت سے ڈرتے ہیں۔
کیا میں چرچل کا یہ قول دہراؤں کہ میں تمہیں لڑنے کا نہیں مرنے کا حکم دیتا ہوں۔
آیئے ،مرنے کی تیاری کریں تاکہ زندہ رہ سکیں۔