خبرنامہ

اتفاقات ہیں زمانے کے ۔۔۔اسداللہ غالب

تھامس ہارڈی کے ناول اتفاقات سے بھرے ہوئے ہیں۔مگر حقیقی انسانی زندگی بھی اتفاقات کی نحوست سے محفوظ نہیں۔
دسمبر چودہ میں عمران خان کا دھرنا اپنے کلائمیکس پر تھا کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کی ایک سنگین واردات ہوگئی، ڈیڑھ سو بچے لقمہ اجل بن گئے، میں نے انہیں پھولوں کی شہادت کہا تھا،عمران خان کا دھرنا اپنی چوکڑی بھول گیا اورا س بے چارے کو قومی دھارے میں شریک ہو کر نیشنل ایکشن پلان پر دستخط کرنا پڑے، یہ ا تفاق تھا یا سوئے اتفاق کہ عمران تو ملک کے اند رجنگ کے خلاف تھا،ا س کاا علان اس نے رائے وانڈ کے جلسے میں دہرایا مگر اے پی ایس کے سانحے کے بعد فضا کچھ ایسی سوگوار تھی کہ عمران کو شمالی وزیر ستان میں ضرب عضب کی تائید کرنا پڑی۔
کوئٹہ میں وکیلوں کو نشانہ بنایا گیا، اس سانحے میں صوبے کے چوٹی کے وکیل شہید ہو گئے۔اہم افراد کی شہادت کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، اس سے پہلے اسامہ بن لادن اورمحترمہ بے نظیر کو شہید کیا جاچکا تھا ، مولانا سرفراز نعیمی کو بھی شہید کر دیا گیا تھا ، پنجاب کے وزیر داخلہ کو بھی شہید کیا گیا تھا، پاک فوج کے سرجن جنرل کو شہید کیا گیاتھا، ایک میجر جنرل بھی قبائلی علاقے میں شہادت سے سرفراز ہوئے اور گننے بیٹھیں تو اہم تریں شہید ہونے والوں کی فہرست ا س کالم کی طوالت میں سما نہیں سکے گی مگر کوئٹہ کے سانحے کو بعض عناصر نے اس قدر اچھالا اور مطالبہ کیا کہ اس کی تحقیقات کی جائیں اور اگر سیکورٹی ادارے مجرموں تک نہ پہنچ سکیں تو پھر سیکورٹی چیف کوفارغ کر دیا جائے
اس مطالبے کو دو ماہ سے اوپر عرصہ گزر چکا ہے، تو کیاا سے اتفاق کہا جائے گا کہ اب آئی ایس آئی کے چیف کی تبدیلی کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں ا ور کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ نئے سربراہ کے طور پر جس کا نام لیا جارہاہے وہ وزیر اعظم کی نواسی مہرالنساکے سسرچودھری محمدمنیرکا قریبی رشتے دار ہے۔کراچی کے کورکمانڈر جنرل رضوان اختر کے والد بریگیڈیئر مختار احمد کئی برس سے چودھری منیر کے کاروبار کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔یہ سب کچھ اتفاق کی بات ہے ورنہ چودھری منیر ، بریگیڈیئر مختارا ور جنرل نوید مختار کی پروفیشنل صلاحیتوں پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی، جنرل نوید نے کراچی میں جو اہم کردارااد کیا ہے، اس کی ا فادیت کو ووست دشمن سبھی تسلیم کرتے ہیں۔
ایک اتفاق کی بات ا ور بھی ہے۔ شاید آپ ا سے اتفاق نہ خیال کرتے ہوں ۔ایرانی صدر ایک عرصے کے بعد پاکستان تشریف لائے مگر ان کی آمد سے چند روز قبل بھارتی را کا ایک دہشت گرد کل بھوشن یادیو ایران سے بلوچستان میں داخل ہوتے پکڑا گیا۔ اس پر بھارت کے خلاف تو شور اٹھنا ہی تھا مگر ہمسائے اور برادر ملک ایران پر بھی تنقید کی بوچھاڑ شروع ہو گئی کیونکہ کل بھوشن کے بقول وہ ایک عرصے سے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں بھارتی دہشت گردی کا ایک نیٹ ورک چلا رہا تھا۔اور ابھی ا سکے کئی ساتھی پیچھے ایران میں موجود تھے۔ اس شور شرابے پر ایرانی صدر بھی بد مزہ ہوئے اور ان کے دورے کے نتائج کرکرے ہو گئے۔کوئی نہیں جانتا کہ بھارت نے اس موقع پر کل بھوشن کو پاکستان آنے کا کہا یا ایران کے بعض عناصر نے یہ شرارت جان بوجھ کر کی یا ہم نے کل بھوشن کی گرفتاری کو ضرورت سے زیادہ اچھالا، آپ کوئی بھی نتیجہ نکالتے رہیں ، پاکستان اور یران کے تعلقات میں رخنہ پڑ گیا اور جہاں رخنہ پڑنا چاہئے تھا، کہ بھارت ہماری تنقید اور شب و ستم کا نشانہ بنتا، ویسا تو نہ ہو سکا اور ہمیں جیسے سانپ سونگھ گیا اور ہم کل بھوشن کی گرفتاری کو بھول ہی گئے۔ اور ہماری اپوزیشن نے بھی کہا کہ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی تقریر میں کل بھوشن کا ذکر نہیں کیا۔
اب اگلے اتفاق کی طرف بڑھتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم مودی نے اچانک ایک دن کہا کہ اسے بلوچستان ، آزاد کشمیراور گلگت کے لوگ مدد کے لئے پکار رہے ہیں، چند روز بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ ا س نے ایک نیا بیان جڑ دیا کہ بلوچستان ، گلگت اور آزاد کشمیر کے لوگوں نے ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے پر بھارت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ایک بیان مودی نے اور دیا کہ وہ پاکستان کو تنہا کر کے رکھ دے گا۔ اب یہ سارے بیانات آپ ذہن میں رکھ لیں اور پھر آل پارٹیز کانفرنس اور قومی اسمبلی کی کاروائی کی ر پورٹوں پر نظر ڈالیں۔تمام تقریروں میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ حکومت کو فل ٹائم وزیر خارجہ لگانا چاہئے تاکہ پاکستان جو دنیا میں تنہا ہوتا جا رہے، ا س کامداوا کیا جاسکے۔ ایک انگریزی اخبار نے سرخی جمائی کہ سویلین نے فوج سے کہہ دیا کہ کاروائی کرو ورنہ پاکستان کی تنہائی کا صدمہ سہنے کے لئے تیار رہو۔ ایک پارلیمانی کمیٹی کے چیئر مین نے کہا کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے، اس سے ایک ہی بات کی جاتی ہے کہ پاکستان کو تنہائی سے بچانا ہے تو حافظ سعید اورمسعود اظہر کے خلاف کاروائی کرنا پڑے گی، ممبئی حملوں کے کیس کو آگے بڑھانا ہو گاا ور پٹھان کوٹ کی تحقیقات میں تعاون کرنا ہو گا۔ سب جانتے ہیں کہ بھارت نے پٹھان کوٹ کے تفتیشی افسر کو اس کی بیگم سمیت گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ سمجھوتہ ایکسپریس اور مالی گاؤں دہشت گردی کی تحقیقات کرنے والے افسر ہیمنت کرکرے کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ہمینت کرکرے بھارتی فوج کے حاضر سروس فوجی کرنل تک پہنچ چکا تھا جس نے سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگائی اور اسے بموں سے اڑایا تھا۔ بھارت نے ممبئی حملے کے فوری بعد اجمل قصاب کو مجرم کے طور پر نامزد کیاا ور ا سکاتعلق پاکپتن کے گاؤں فرید کوٹ سے بتایا، اجمل قصاب میراٹھی زبان بولتا تھا ، یہ زبان پاک پتن کے دیہات میں نہیں بولی جاتی۔ مگر اتفاق ملاحظہ ہو کہ ہمارے نئے نئے ٹی وی چینلز کسی فرضی اجمل قصاب کے گھر کے باہر پہنچ کر کمنٹری کرنے لگ گئے ۔ کیا بھارت ٹی وی چینلزآج تک ہیمنت کرکرے کے گھر والوں کے پاس پہنچے ہیں ، کیا بھارتی ٹی وی چینلز نے پٹھان کوٹ کے مقتول تفتیشی افسر کی موت کی وجوہات جاننے کی کوئی کوشش کی، اور اب جو بھارت نے دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ گھڑا ہے کہ اس نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی ہے تو کیا بھارتی ٹی وی چینلز نے وہ مقامات دکھائے ہیں جہاں سرجیکل اسٹرائیک کی گئی، الٹا پاکستان کا محکمہ آئی ایس پی آر ملکی ا ور غیر ملکی میڈیاکو کنٹرول لائن لے گیا کہ لو آنکھوں سے دیکھو کہ کہیں بھی سرجیک اسٹرائیک کے آ ثار نہیں ہیں۔
شکر یہ ہے کہ ابھی ہم نے صرف آئی ایس آئی چیف کی تبدیلی کی قیاس آرائیاں کی ہیں اور سرجیکل اسٹرائیک کو نہ روکنے کا الزام لگا کر آرمی چیف کو نشانہ نہیں بنایا مگر اشاروں کنایوں میں انہیں بھی نہیں بخشا جا رہا اور حتمی لہجے میں کہا جا رہا ہے انہیں توسع نہیں دی جائے گی، بابا! جو شخص کئی ماہ قبل توسیع نہ لینے کا اعلان کر چکا ہے ا ور وقت مقررہ پر گھر کا رخ کرنے کا وعدہ کر چکا، اسے توسیع کی ضرورت ہی کیا ہے۔ توسیع تو چاہئے ان درباریوں کو جو سالہا سال سے ہر حکومت کی کاسہ لیسی کرنے میں مصروف ہیں اور انہیں توسیع پہ توسیع مل بھی رہی ہے۔
میں نے محض کیلکو لیٹر کی مدد سے بعض اتفاقات کا ذکر کیا ہے، ہو سکتا ہے ان میں کوئی باہم ربط نہ ہو اور محض اتفاق سے ربط پید ا ہو گیا ہے مگرکوئی منجھا ہوا اسکرپٹ رائٹر آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب اتفاقات کا کرشمہ نہیں منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے، اصل کہانی بہر حال کسی مؤرخ کو لکھنا ہو گی۔
عمران خان شاید اسکرپٹ سمجھ گیا ہے کہ وہ جب بھی پاکستان میں کسی کے لئے خطرہ بننے لگتا ہے توکوئی اتفاقیہ سانحہ ہو جاتا ہے، اب ا س نے رائے ونڈ کے گھیراؤ کا اعلان کیا تو سرجیکل اسٹرائیک ہو گئی اور شور مچ گیا کہ عمران اپنے ارادوں سے باز آ جائے۔ عمران نے شاید وہ محاورہ سن رکھا ہے کہ ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسوایا جا سکتا، چنانچہ وہ زور شور سے اپنا زور شور دکھا رہا ہے، ا سنے انگریزی ناول نگار تھامس ہارڈی کو پڑھا ہی نہیں تو میں کیا کروں