خبرنامہ

اخوت کا ستون…اسداللہ غالب انداز جہاں

اخوت کا ستون..اسداللہ غالب انداز جہاں

رمضان کا پہلا روزہ تھا ۔ دوپہر کو گھر کی گھنٹی بجی۔ میں باہر گیا، دروازہ کھولا تو کڑکتی دھوپ میں ڈا کٹر امجد ثاقب اکیلے کھڑے تھے، مجھے آنکھوں پر یقین نہ آیا، یہ ویسے بھی کمزور ہو چکی ہیں اور چہروں کی پہچان سے عاری ہیں، دوست دشمن کی پہچان تو مجھے کبھی نہ آئی۔ ڈاکٹر صاحب کو دو سال پہلے میںنے فون کیا تھا کہ آپ سے ملاقات کی خواہش ہے ،پھر سال بعد یہ وعدہ شعیب بن عزیز کی بیٹی کی شادی پر یاددلایا۔ وہ شاید اپنی مصروفیات کی وجہ بھول گئے ،پر میںنہیں بھولا کہ ان کی سرگرمیوں کے دعوتی کارڈ مجھے مسلسل مل رہے تھے، کبھی بادشاہی مسجد میں اکٹھ ہوتا، کبھی مادھو لال حسین کے مزار کے احاطے میں ، کبھی کسی اور مسجد میں، گاہے گورنر ہائوس میں۔میں کسی بھی تقریب میں شامل ہونے کے قابل نہ تھا ،اس لئے یہ پر شکوہ مناظر دیکھنے سے محروم رہا ، میں نیکیوں کی پھوار میں نہا نہ سکا، میں بہار کے جھونکوں کی تازگی کو سانسوںمیں سمو نہ سکا، میں نیکی کے بے پناہ جذبوں سے اپنے دل و دماغ کو گرما نہ سکا اور اس انقلاب کے سورج کی شعائوں کی چکا چوند محسوس نہ کر سکا جو اس ملک کے نچلے ا ور متوسط محروم طبقات میں آہستگی سے،ہولے سے،چپکے سے ، برپا ہو رہا ہے۔

میںنے پھر آنکھیں ملیں، یہ ڈاکٹر امجد ثاقب ہی تھے،سراپا نور، سر تاپا نیکی کا مجمسہ، رحمت اور شفقت کے اوتار اور محبتوں کے پہاڑ۔
میری خواہش تھی کہ ان سے ان کی تنظیم کے بارے میں جان سکوں۔ میری خوش بختی تھی کہ ووہ اپنی گوناں گوںمصروفیات سے وقت نکال کر میرے گھر تشریف لائے اور اخوت کا نقشہ میرے سامنے رکھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ پندرہ سولہ برس قبل ایک بیوہ خاتون اُن کے پاس آئی اور کہا کہ وہ گھر میں چھوٹا موٹا سلائی کڑھائی کا ،کام شروع کرنا چاہتی ہے لیکن وہ بھیک نہیں چاہتی‘ وہ عزت و وقار کے ساتھ یہ کام کرنا چاہتی ہے اور یہ رقم تھوڑی تھوڑی کر کے واپس کر دے گی۔ اسے دس ہزار روپے دئیے گئے تو اس نے اس سے دو سلائی مشینیں خریدیں اور بیٹی کے ساتھ مل کر محنت اور لگن سے کام شروع کر دیا۔اللہ نے اس کے کام میں برکت ڈالی ، چھ ماہ میں اس نے اتنی رقم جوڑ لی کہ اس سے اپنی بیٹی کی شادی بھی کی ‘ گھر بھی چلایا اور دس ہزار قرض بھی واپس کر دیا۔وہاں سے انہیں اس خیال کو تقویت ملی کہ اگر ایک قرض حسنہ فنڈ بنا لیا جائے جس میں مخیر حضرات اپنی توفیق کے مطابق حصہ ڈالیں اور پھر ایک امین کے طور پر اس رقم کو مستحق لوگوں تک پہنچایا جائے تو اس سے لاکھوں خاندانوں کو معاشی ریلیف ملے گا اور وہ بیروزگاری کی بھٹی میں جلنے کی بجائے چھوٹا موٹا کاروبار کر کے اپنی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچا سکیں گے۔ابتدائی طور پر ڈیڑھ دو لاکھ سے یہ فنڈ شروع ہوا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ اخوت کا تصور مواخات مدینہ سے مستعار لیا گیا کہ جس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک انصار اور ایک مہاجر آپس میں رشتہ جوڑیں ۔اس رشتے میں بھائی چارہ تھا‘ ایثار اور قربانی کا جذبہ تھا ۔
اخوت کی کامیابی کے پیچھے کیا راز ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے یوں پردہ اٹھایا کہ وہ چار اصول ہیں جن پر یہ برسوں سے قائم ہے۔ پہلا سود سے پرہیز۔ سود سے کاروبار میں برکت اٹھ جاتی ہے اور مقروض شخص سود کے ڈھیر تلے دبتا چلا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں گرامین بینک کے ڈاکٹر یونس نے بھی مائیکروفنانس نظام شروع کیا لیکن وہ تیس چالیس فیصد سود لیتے تھے جس سے یہ منصوبہ کچھ عرصے میں ہی ختم ہو گیا۔ اخوت کا دوسرا اصول یہ ہے کہ قرض حسنہ کی تقسیم کا کام مساجد میں بیٹھ کر کرنا چاہیے۔ مسجد میں کام کرنے سے کام میں برکت‘ کام کی قبولیت‘ شفافیت اور خدا کی رحمت شامل حا ل ہوجاتی ہے۔تیسرا اصول رضاکاری ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہم یہ کام بغیر کسی منفعت یا لالچ کے کر رہے ہیں۔میں اخوت کا بانی ہوں لیکن میں نے آج تک اس سے ایک روپیہ تنخواہ‘ سفری الائونس یا دیگر اخراجات کی مد میںنہیں رکھا۔باقی بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی اسی جذبے سے سرشار ہیں ۔ وہ اپنی ان نیکیوں کا صلہ اگلے جہان میںچاہتے ہیں اور ہمیں یقین ہے خدا تعالیٰ ہمیں مایوس نہیں کرے گا۔اس کی رحمت بے پایاںہے۔چوتھا اصول یہ ہے کہ ہم نے قرض دینے والے کو قرض دینے میں حصہ دار بنایا۔ اسے بتایا کہ تمہاری ضرورت پوری ہوئی‘ تمہاری کاروبار چلا تو اب اگر تم اس میں سے تھوڑا سا حصہ واپس اس فنڈ میں ڈالو گے تو بہت سے نئے لوگ رزق کی تلاش کے سفر میں شامل ہو سکیں گے۔ایک واقعہ اس سے منسلک ہے ۔ ایک شخص نے ہم سے دس ہزار قرض لیا۔ چھ ہزار کی ریڑھی لی اور چار ہزار کا پھل لیا اور کام شروع کر دیا۔وہ روزانہ چار پانچ سو کمانے لگا۔ایک دن وہ میرے پاس آیا اور بولا کہ میرا کام چل پڑا ہے میں چاہتا ہوں کہ میری طرح ایک اور شخص بھی برسر روزگار ہو جائے اس لئے میں ہر ماہ بچت کر کے کچھ پیسے دوں گا جن سے نئے قرض خواہوں کو بھی اس دائرے میں شامل کیا جا سکے۔
کاروبار صرف امیروں کا ہی حق نہیں بلکہ درمیانے اور غریب طبقے کا بھی حق ہے کہ وہ چھوٹا ہی سہی لیکن اپنا کام کر سکے ۔تقریباً تمام ممالک میں چھوٹے کاروبار کے لئے قرض فراہم کیا جاتا ہے لیکن ان تمام اشکال میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے اور وہ ہے سود۔ قرض دینے والا چاہے بنگلہ دیش سے تعلق رکھتا ہو یا برطانیہ سے‘ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اگر دس ہزار دے رہا ہے تو واپس اسے تیرہ چودہ ہزار ملیں۔ اوپر کی تین چار ہزار کی رقم سود ہے اور بعض جگہوں پر سود اصل رقم سے دوگنا بھی ہوتا ہے کیونکہ قرض دار کو اگر کاروبار میں نقصان ہوتا چلا جاتا ہے تو لامحالہ وہ نہ ہی اصل رقم واپس کر سکتا ہے اور نہ ہی سود۔ جس کے نتیجے میں سود کی شرح بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جس کے بعد اس کے کاروباری اثاثے تک فروخت ہو جاتے ہیں ‘ وہ سڑکوں پر آ جاتا ہے ‘ دو وقت کی روٹی کا محتاج ہو جاتا ہے لیکن قرض دار اس کا قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتا۔ پاکستان میں اس طرح کے خوفناک واقعات بھی دیکھنے کو ملے ہیں جس میں مقروض شخص اگر زندگی میں قرض ادا نہیں کر سکا تو اس کی میت اس وقت تک دفنانے کی اجازت نہیں دی جاتی جب تک اس کے لواحقین فوری طور پر اپنے زیورات اور نقدی قرض دار کے قدموں میں لا کر نہیں رکھ دیتے۔ قسطوں میں فریج‘ واشنگ مشین‘ اے سی اور موبائل فون دینے والی چھوٹی چھوٹی دکانیں گلی محلوں میں کھلی ہوئی ہیں اور عوام کی مجبوریوں کے ساتھ وحشت ناک کھیل کھیل رہی ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹر امجد ثاقب جیسا نیک دل، فرشتہ صفت انسان سامنے آیا جس نے غریبوں کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچانے کے لئے بلا سود چھوٹے قرضوں کی ایک سکیم اخوت متعارف کرائی۔ دنیا بھر میں مائیکرو فنانس کا ایک اپنا نظام ہے۔ عام طور پر قرض تیس سے چالیس فیصد سود پر ادا کیا جاتا ہے جسے واپس کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ صرف دو تین فیصد لوگ یہ قرض واپس کر تے ہیں لیکن اخوت کے تحت ایسا نظام متعارف کروایا گیا جو ہماری تہذیبی‘ ثقافتی اور دینی اقدار سے ہم آہنگ تھا۔
اخوت اب تک ملک بھر میں اپنی 673برانچوں کے ذریعے انیس لاکھ سات ہزار افراد میں قرض حسنہ فراہم کر چکی ہے۔ قرض لینے والوں میں گیارہ لاکھ مرد اور آٹھ لاکھ خواتین شامل تھیں جن میں کل ملا کر چالیس بلین روپے تقسیم کئے گئے۔ریکوری کی شرح 99.94فیصد رہی۔ اخوت کا دائرہ کار بہت وسیع ہو چکا ہے ۔ضرب عضب میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ہوا تو یہاں سے ہزاروں لوگ نقل مکانی کر کے بنوں اور دیگر شہروں میں پناہ گزین بن گئے تھے۔ شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا ہوا تو اس علاقے میں دوبارہ امن کا طوطی بولنے لگا۔ سکول کھول دیئے گئے اور معمولات زندگی بحال ہو گئے جس کے ساتھ ہی یہاں کے مکین واپس آنا شروع ہو گئے۔ ان لوگوں کے مال مویشی سب کچھ جنگ کی نذر ہو گیا تھا چنانچہ ان لوگوں کا ہاتھ تھامنے کے لئے اخوت نے ہاتھ بڑھایا اور انہیں بلا سود قرض دیا جس سے یہ خاندان آج اپنے آبائی علاقوں میں باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہو رہے ہیں۔ چنانچہ اب مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم اخوت اس ملک کے بنیادی ستون کی حیثیت اختیار کر گئی ہے ‘ یہ حکومت‘ فوج‘ عدلیہ اور میڈیا کی طرح اہم ترین ستون بن چکی ہے۔ یہ درخت جتنا تن آور ہو گا وطن عزیز اتنا ہی خوشحال‘مضبوط اور پھل پھول سکے گا۔
اخوت کے ستون کو کھڑا کرنے والا میرے سامنے بیٹھا تھا، چمکتا چہرہ ۔ پر نور آنکھیں۔
اور اب میں اس ساعت سعید کا منتظر ہوں جب اسے غریبوں کی زندگیوں میںیہ معجزہ رونما کرنے کے صلے میں نوبل انعام سے نواز جائے گا۔مگر خدا کے ہاں تو بے پایاں صلہ ملنا ہی ہے۔