خبرنامہ

اخوت کبھی یتیموں کا عید میلہ منائے….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اخوت کبھی یتیموں کا عید میلہ منائے

میرا کوئی دعوی نہیں کہ مجھے نت نئے نکات سجھائی دیتے ہیں،یہ خوبی اللہ نے ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے عبقری انسانوں کو عطا کی ہے۔ وہ کسی نہ کسی بہانے بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں،جو تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے، انہیں عالم فاضل اور پی یچ ڈی بنا دیتے ہیں، جن بیواﺅںکی ایک ٹکے کی آمدنی نہیں، انہیں قرض حسنہ دے کر اپنے پاﺅں پر کھڑا کر دیتے ہیں مگر کیا ہی اچھا ہو کہ وہ ہر سال چھوٹی عید مینار پاکستان یا جیلانی پارک میںمنایا کریں اور یہ عید میلہ یتیموں کے لئے مخصوس ہو، جہاں یتیم بچے اپنی والدہ یا اپنے والد کے ساتھ آئیں ۔نماز بھی ا دا کریں ۔، غبارے پھلائیں، جھولے بھی جھولیں، یتیم بچیان مہندی لگوائیں اور رنگ برنگ چوڑیاں پہنیں،دہی بھلے کا دل بہلاوا بھی ہوا اور کہیں سویوں کا اسٹال سجا ہوا اور کہیں کیکوں کا ڈھیر لگا ہو، اس ماحول میں چند گھنٹوں کے لئے یتیم بچے اور بچیاں اپنی یتیمی کو بھول جائیں اور رنگ برنگے پھولوںاور سبز گھاس کی کیاریوں میں کلکاریاں بھرتے پھریں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کو یتیموں کے اس عید میلے کے لئے آسانی سے ڈونرز مل جائیں گے۔مگر ڈاکٹر امجد ثاقب کو میں کس نئے بکھیڑے میں ڈال رہا ہوں ، وہ تو پہلے ہی سے غربت کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔غربت پاکستان کا ایک بہت سنجیدہ مسئلہ ہے ۔عالمی ادارے بار بار پاکستان کی توجہ اس اہم مسئلہ کی طرف مرکوز کرنے کی کوششیں کرتے ہیں لیکن حکومتیں کم ہی ایسے مسائل پر توجہ دیتی ہیں۔ اگر حکومت میں ایسا کوئی پراجیکٹ شروع بھی کیا جائے تو وہ جلد ہی اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔ ان حالات میں ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے لوگوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے جو بلاسود قرض فراہم کرنے والی تنظیم اخوت کے ذریعے غریب اور درمیانے طبقے کے دکھ بانٹنے میں مصروف ہیں۔ 2001میں ان کا لگایا گیا بیج آج اپنے اخلاص اور نیک نیتی کی بنا پر تن آور درخت بن چکا ہے۔ مائیکرو فنانسنگ میں دنیا پہلے بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس کے گرامین بینک کی مثال دیا کرتی تھی۔ گرامین بینک خواتین کو معقول سود پر قرضے فراہم کرتا تھا اسی وجہ سے یہ نظام اب تنزلی کی جانب گامزن ہے جبکہ اخوت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ اسی لئے اب ہارورڈ یونیورسٹی اخوت کے ماڈل پر بحث کرنے کے لئے ڈاکٹر امجد ثاقب کو امریکہ بلاتی ہے ۔حالانکہ کہا یہ جاتا تھا کہ بلا سود بینکاری کا مستقبل تاریک ہے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کو بہت سے لوگوں نے شروع میں کہا کہ یہ تنظیم زیادہ عرصہ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکے گی۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اخوت نے نہ صرف پاکستان کے غریبوں کو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھایا بلکہ غیور پاکستانیوں نے قرضے واپس کرنے کی روایت بھی قائم رکھی جس کی وجہ سے اخوت عوام کی معاشی حالت سدھارنے میں مصروف ہے اور اب تک 27لاکھ گھرانوں میں 64ارب روپے کے قر ضہ جات جاری کر چکا ہے جن کی ریکوری سو فیصدکے قریب رہی ۔
ڈاکٹر محمد امجد ثاقب اپنے خلوص، سادگی اور جذبہ اخوت کے باعث بے شمار آنگنوں میں امید کا جگنو بن کر چمکتے ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے 1998ءمیں پنجاب رورل سپورٹ پروگرام میں کام شروع کر دیا جس کا مقصد غربت کا خاتمہ تھا۔ یہ اچھا موقع تھا جب امجد ثاقب کو غریب لوگوں کی محرومیاں زیادہ قریب سے گہری نظر کے ساتھ دیکھنے کا موقع ملا۔ اسی دوران انہوں نے سینکڑوں لوگوں سے غربت کے معنی سمجھنے کی کوشش کی۔ انہیں غربت کی سب سے اچھی تعریف ایک بزرگ کی لگی جنہوں نے کہا “غربت مال و دولت سے محرومی کو نہیں کہتے ، یہ تو اکیلے رہ جانے کا نام ہے ” یہی وہ دن تھے جب ڈاکٹر امجد ثاقب نے سرکاری ملازمت کو اپنے مزاج سے ہم آہنگ نہ پا کر اس سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کا کہنا تھا “ملازمت ان آئیڈیلز کے حصول میں مزاحم ہو رہی تھی جن کا حصول ان کا مقصد بن رہا تھا، ملازمت چھوڑنے کے بعد ان کی زندگی زیادہ خوشحال ہو گئی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے مطابق اخوت بھکاری نہیں بلکہ سفید پوش شہریوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کر نے کے لیے قر ض حسنہ دیتا ہے جس کا بھرپور استعمال کر کے اپنی معاشی حالت بدلتے بیشتر خاندانوں کو دیکھا ہے ۔ اخوت مثبت سوچ پیدا کر نے کا نام ہے اور اس کی سوچ سے وابستہ افرادکی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ اخوت لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے مجبور شہریوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے انہیں قر ضہ حسنہ جاری کرتی ہے جس سے وہ کوئی روزگار شروع کر کے اپنی معاشی حالت نہ صرف بدلتا ہے بلکہ کسی کا محتاج نہیں رہتا ۔ اخوت کے پلیٹ فارم سے یونیورسٹی کی بنیاد رکھ دی گئی ۔یونیورسٹی کا مقصد محض صرف دنیاوی تعلیم دینا نہیں بلکہ طالب علموں کی مثبت سوچ اور صلاحیتوں کو نکھارنا ہے جو مستقبل میں اخوت کا سوچیں ان میں احساس پیدا کرنا کہ زندگی اپنے لیے نہیں ہے بلکہ دوسروں کی خدمت کر نے کا نام ہے ۔ڈاکٹر امجد کے مطابق انہوں نے یونیورسٹی کی تعمیر میں حصہ ڈالنے کے لیے فی اینٹ 1ہزار روپے نرخ مقر ر کیے ہیں اور اب تک 4لاکھ اینٹیں صاحب حیثیت لو گ خرید چکے ہیں جن کی مجموعی طورپر مالیت 40کروڑ روپے بنتی ہے ۔ اانہوں نے بتایا کہ مساجد اخوت کے پروگرام کا بنیادی حصہ ہیں۔ ادارے کے تمام دفاتر مساجد کے اندر یا ان کے ساتھ قائم کئے گئے ہیں۔
قرض خواہوں کی سماجی رہنمائی کا کام مسجد میں کیا جاتا ہے ، انہیں رقم بھی وہیں دی جاتی ہے ۔ اخوت نے غیر مسلم افراد کے لئے بھی اپنا دامن کشادہ کر رکھا ہے ۔ دیکھنے میں پچاس ہزار کی رقم بہت کم لگتی ہے لیکن ارادہ محنت اور اپنی حالت بدلنے کا ہو تو بے شمار کام ممکن ہیں۔ اتنی رقم سے پرچون کی دکان، سلائی کڑھائی، فروٹ ریڑھی، فروٹ چاٹ، دہی بھلوں کی دکان، گدھا گاڑی، سائیکل مرمت، پان شاپ، چائے کا کھوکھا، نان چنے ، بچوں کی ہوزری، کولر کا ٹھنڈا پانی، سردیوں میں انڈوں کی فروخت، پاپڑ، فرنچ فرائز کی مشین اور ڈا¶ن پے منٹ پر رکشہ کا حصول سمیت بے شمار کام ممکن ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کا کہنا ہے “خدا نے اپنی راہ میں دینے والے کے لئے کئی گنا زیادہ کا وعدہ کیا ہے ۔ اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا۔ خود میں نے لوگوں کو قرض حسنہ دیا تو میرے وسائل بڑھ گئے ۔ میری زندگی میں سکون آنے لگا۔ یقین کریں قرض حسنہ دینے والوں کا رزق کبھی کم نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا کرنے والوں کی دولت میں اضافہ اور ان کی زندگی آسان ہوتی ہے ۔ بنکوں میں اربوں، کروڑوں جمع رکھنے والے مالدار اگر غریبوں کو ادھار دے کر کاروبار کی طرف مائل کریں تو غربت کا خاتمہ ممکن ہے کیونکہ غربت بھیک نہیں بلکہ اشتراک سے ختم ہوتی ہے ۔
مجھے یہاں ایک بار پھر اپنے راوین دوست سعید احمد چمن یاد آتے ہیں جو اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر تھے تو انہوںنے مجھے بتایاتھا کہ میاںنواز شریف نے انہیں خصوصی چور پر بلا سودی بنکنگ کے فروغ کا ٹاسک دیا ہے اور اسی عظیم مقصد کی خاطر وہ لندن کی عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر پاکستان آئے ہیں، میں جانتا ہوں کہ بلا سودی بنکاری کو راتوں رات فروغ نہیں دیا جاسکتا اور پھر اس راستے میں سرخ فیتہ بھی حائل ہے مگر میں سعیدا حمد چمن سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ نیشنل بنک کی موجودہ ملازمت پوری کر کے اپنا بریف کیس پکڑ کر لندن کا رخ نہ کر لیں ، یہ وطیرہ تو ہر اوور سیز پاکستا نی نے اختیار کر رکھا ہے ا ور پاکستانی سیاست دان بھی اسی راستے پر چل نکلے ہیں، سعید احمد کو اللہ نے بلا کی ذہانت عطاکی ہے، وہ ا س نعمت کو اپنے وطن کے لئے مخصوص کر دیں اور ہو سکے تو اخوت جیسے بلا سودی تجربے کو مزید کامیاب بنانے اور چار چاند لگانے کے لئے وہ ڈاکٹر امجد ثاقب کے قافلے میں شامل ہو جائیں۔
میںنے بات یتیموں سے شروع کی تھی۔ان دنوں رائے ونڈ روڈ پر اسحق ڈار کا قائم کردہ یتیموں کا ایک ادارہ بھی کسی پر خلوص کی توجہ مانگتا ہے ، اسحق ڈار کے لئے ملک میں رہنا مشکل بنا دیا گیا ہے مگر ان کے ادارے میںموجود یتیم بچوںنے تو کوئی قصور نہیں کیا، سعید احمد اپنے اس کلاس فیلو کے ادارے کی نگرانی سنبھالیں اور جنت کمائیں، دولت بہت کما لی ۔ سعید احمد چمن نے اگر بریف کیس پکڑ کر لندن کا رخ کیا تو نیب یا کوئی جے آئی ٹی نہیں، میں ان کا تعاقب کروں گا اور انہیں وطن عزیز کی خدمت کرنے پر مجبور کروں گا۔ وہ سود ختم کرنے کے لئے پاکستان ا ٓئے تھے تو اس مشن ہی کو یہاں بیٹھ کر ڈاکٹر امجد ثاقب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پورا کریں۔میں سعید احمد چمن کو یاد دلانا نہیں چاہتا تھا مگر اب یتیموں کا ذکر ہو رہا ہے تو جب میری ان سے پہلی ملاقات گورنمنٹ کالج میں ہوئی تھی تو میرا باپ سر پہ نہیں تھا اور وہ ماں باپ دونوں کے سائے سے محروم تھے، مگر انہوںنے کمال کی کامیابیاں حاصل کیں ۔ اے کاش وہ اپنا ہنر دوسرے یتیموں کو بھی منتقل کریں تاکہ وہ بھی زندگی کی دوڑ میں کامیاب ہو سکیں۔
٭٭٭٭٭