خبرنامہ

ارادے تو نیک لگتے ہیں…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ارادے تو نیک لگتے ہیں…اسد اللہ غالب

کمرہ تو یہ بنی گالہ کے محل کا تھا۔ اسے پرائم منسٹر آفس کی طرح سجا دیا گیا تھا۔درمیان میں ایک بڑی میز اور کرسی۔ دائیں بائیں پاکستان اور پارٹی کے پرچم ، دیوار پر عقب میں قائد اعظم کا پورٹریٹ۔ سیٹ مکمل تھا ، پھر بھی ایک دو لڑکے کسی اسٹوڈیوڈائریکٹر کے حکم پر جھنڈوں کی جگہ ذرا ذرا تبدیل کر رہے تھے،، عمران کرسی پر براجمان تھا، اور تمام انتظامات کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔ آخر اس نے ایک لڑکے کو تحکم سے کہا، تم باہر جاﺅ، پھر کسی دوسرے لڑکے کو بھی اسی تحکمانہ لہجے میں کہا کہ تم بھی نکلو۔ پھر اس نے ایک لمبا سانس کھینچااور وہ تقریر شروع کر دی جس کا وہ بائیس برس سے انتظار کر رہا تھا،ان بائیس برسوں میں وہ جب بھی تقریر کرتا، گھن گرج سے کام لیتا، چیختا اورچنگھاڑتا رہتا، دھمکیاں ہی دھمکیاں مگر آج یہی عمران خان بدل چکا تھا۔ تبدیلی آ گئی تھی اور تبدیلی کاا ٓغاز اس کی ذات سے ہوا تھا، اس کی آواز میں عاجزی تھی، انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، لہجہ تشکر کے جذبات سے لبریز تھا۔ آنکھیں آسمان کی طرف نہیں تھیں ، سامنے مخلوق خدا کی طرف تھیں جس نے اس کے خیال میں اسے ووٹ دیئے تھے۔وہ ٹھہر ٹھہر کر، رک رک کر، سوچ سوچ کر بول رہا تھا، وہ جو بول رہا تھا، ایسے لگتا تھا کہ اسے ا س پر یقین کامل ہے اور یہ سب سچ ہے، سچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
دنیا بھر کے کان اس کے الفاظ پر مرکوز تھے۔ پاکستان اور پاکستان سے باہر کے ٹی وی چینل اسے براہ راست نشر کر رہے تھے، ا سلئے کہ یہ متوقع وزیر اعظم کی تقریر تھی، ایسا وزیر اعظم جو پچاسی کے بعد کے وزرائے اعظم سے یکسر مختلف تھا۔ مختلف نہیں بھی تھا تو وہ تاثر یہی دے رہا تھا کہ وہ ماضی کے حکمرانوں سے مختلف ہے۔ مگر کچھ باتیں اس نے ماضی کے حکمرانوں والی دہرائیں، سادگی کا درس۔ ایوان صدر ، ایوان وزیر اعظم اور گورنرہاﺅسوں کے ادھیڑ بن کا اعلان۔ایسے اعلانات ماضی میںبھی ہوتے رہے مگر ان پر عمل نہ ہو سکا، یہی اعلانات اب بھی ہوئے، وقت بتائے گاکہ ان پر عمل ہوتا ہے یا نہیں،صدر کہاں بیٹھے گا، وزیر اعظم کہاںبیٹھے گا، وزراءکہاں بیٹھیں گے، سیکرٹری کہاں بیٹھیں گے اور یہ جو ہر ضلع اور ہرتحصیل میں کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اور پولیس چیفس کے وسیع محلات ہیں، ان کا کیا بنے گا۔کیا انہیں ہڑپہ، موہنجو ڈارو اور ٹیکسلا کے کھنڈرات کی شکل میںبدلنے کے لئے چھوڑ دیا جائے گا، کیا مدینہ کی پہلی ریاست کی طرح مسجدنبوی ہی ایوان حکومت ، ایوان عدل، ایوان خزانہ اور اسٹیٹ گیسٹ ہاﺅس ہو گی۔ ایساہو جائے تو یہ ہو گی تبدیلی ورنہ بڑی بڑی باتیں ہر کوئی کر سکتا ہے۔
اس تقریر کی سب باتیں اچھی تھیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر۔احتساب ہو گا تو گھر سے شروع ہوگا۔اوپر سے شروع ہو گا۔ پھر نیچے والوں کا ہو گا۔خارجہ پالیسی بدلے گی۔ افغانستان سے تعلقا ت اس طرح کی قربت کے ہوں گے جیسے یورپی یونین والے ایک دوسرے کے ملکوںمیں آزادانہ گھومتے ہیں، چین سے مل کرسی پیک کا منصوبہ آگے بڑھایا جائے گا، چین سے سیکھیں گے کہ ا س نے ستر کروڑ لوگوں کو خط غربت سے کیسے نکالا۔سعودی عرب سے برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنایا جائے گا ۔ ایران کی ہمسائیگی کا رشتہ مستحکم کیا جائے گاا ور بھارت کے ساتھ کشمیر کے کور ایشو کو حل کر کے باہمی تجارت کو وسیع کیا جائے گا۔ عمران کو بھارت سے خیر سگالی کے پیغامات کثیر تعداد میں مل رہے ہیں، یہ اس کے کرکٹ کے دور کے ساتھی ہیں،جنہوںنے اسے یاد رکھا ہے۔کرکٹ میں عمران ان کا حریف تھا مگر اب سیاست اور حکومت کا رشتہ ہے اور دونوں برابری کے تعلقات کے خواہاں ہیں۔اوور سیز پاکستانیوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے گی۔یہ عمران کی خواہش ہے مگر اوور سیز والوں کا مسئلہ کچھ اور ہے ، وہ سرمایہ کاری کرتے ہیں،بیسٹ وے بڑا سرمایہ کار ہے ، کھل کر سرمایہ کاری کر رہا ہے، چودھری سرورا ور چودھری منظور دونوں بھائی ہیں مگر کاروبار الگ الگ اور دونوں نے پاکستان میں وسیع سرمایہ کاری کی ہے۔ان بڑے سرمایہ کاروں کو ہم ساری سہولتیں دیتے ہیںمگر جو لوگ یہاں گھر لیتے ہیں، پلاٹ لیتے ہیں۔کسی پلازے کا فلور خریدتے ہیں، کہیں زرعی زمین لیتے ہیں، ان کا پیسہ محفوظ نہیں، ان کے ساتھ قدم قدم پر فراڈ ہوتا ہے۔ ان کی رقوم ڈوب جاتی ہیں،خود ان کے قریبی رشتے دار بھی انہیں لوٹنے میں پیش پیش ہیں۔ عمران کو اس طبقے کی مشکلات کو ختم کرنا ہو گا، اوور سیز فاﺅنڈیشن کو زنگ لگ چکا ہے،پنجاب اوور سیز فاﺅنڈیشن میںنیو یارک سے کیپٹن شاہین کو لا کر بٹھایا گیا، آخر وہ سینیٹر بن بیٹھے، اب اس ادارے کا والی وارث کون ہو گا۔ اوور سیز پاکستانیوں کی لوٹ کھسوٹ کا عمل ایئر پورٹ سے شروع ہو جاتا ہے ۔پہلے تو کسٹم اور ایف آئی اے والے ہاتھ صاف کرتے ہیں۔پی آئی اے بھی ا نہیں تنگ کرتی ہے۔عمران پولیس کلچر بدلنا چاہتا ہے، وہ کہتا ہے کہ خیبر پختون خواہ پولیس کو بدل دیا، اب پورے ملک کی پولیس کو بدلوں گا، اس نے کراچی کی مشکلات حل کرنے کے وعدے وعید کئے ہیں ، اس صوبے میں اس کی حکومت نہیں بن سکتی ، ا سلئے اسے دل بڑا کر کے سندھ حکومت کے ساتھ مل کر چلنا ہو گا، محاذ آرائی سے بچنا ہو گا۔ عمران نے دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیئے اور اسے ایک تاریخی الیکشن قرار دیا۔ اس نے کہا کہ جسے اعتراض ہے، وہ اپنا حلقہ کھلوا لے، اسے کوئی اعتراض نہ ہو گا مگر اس کے پانچ سال قبل صرف چار حلقوں کے تھیلے کھولنے کا مطالبہ منظور نہ کیا گیا۔
عمران خان کا پاکستان کیسا ہو گا۔ اس نے کہا کہ وہ مدینہ کی ریاست کا ماڈل سامنے رکھنا چاہتا ہے جو ایک فلاحی ریاست تھی، جس میں یتیموں ، بیواﺅں اور کمزور طبقے کا خیال کیا جاتا تھا جس میں خلیفہ نے بھوک اور پیاس سے مرنے والے کتے کی ذمے داری بھی قبول کی۔ عمران نے مزدوروں اور بیماربچوں کا ذکر کیا، خواتین کے حقوق کا ذکر کیا ، جو مائیں زچگی کے دوران مر جاتی ہیں، ان کے المئے کا ذکر کیا۔ عمران نے کہا کہ ہمارے ہاں امیروں کا ایک چھوٹا سا جزیرہ ہوتا ہے جبکہ غریب ایک سمندر کی طرح ہوتے ہیں،عمران نے بار بار مدینہ کی فلاحی ریاست کا ذکر کیا جو ایک ہزار سال تک عروج کی طرف گامزن رہی۔
عمران نے ایک بڑی بات یہ کی کہ وہ ذاتی دشمنیاں بھول چکا ہے، کسی مخالف کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا، ایکشن صرف اس شہری کے خلاف ہو گا جو غیر قانونی کام کرے گا، عمران پر چیک ہو گا۔ اسکے وزیروں پر چیک ہو گا،قانون سب کے لیے برابر ہو گا، قانون کی بالا دستی ہو گی۔
ملک کی معاشی زبوں حالی پر بھی عمران نے خصوصی ذکر کیا، روپے کی قدر میں کمی، قرضوں کی بہتات، مہنگائی اور بھوک۔ بے روز گاری ۔عمران نے ایسی گورننس دینے کاوعدہ کیا جو پہلے کبھی نہیں رہی۔انہوںنے کہا کہ وہ قائد اعظم کی تقلیدکریں گے۔ عمران نے کہا کہ وہ عوام کے ٹیکس کی کمائی کی حفاظت کرے گا۔وہ سابقہ حکومتوں کی طرح اس کمائی کو اپنی ذات پر خرچ نہیں کرے گا۔ اسے عالی شان وزیر اعظم ہاﺅس میں رہتے ہوئے شرم محسوس ہو گی۔اس لئے وہ سادگی کو شعار بنائے گا۔ٹیکس کا پیسہ عوام پر خرچ کرے گا۔ کسان اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
یہ تقریر سب نے سنی، ایک ایک لفظ پر غور کیا گیاا ور کیا جاتا رہے گا۔اس کی تقریر میں کسی لفظ پر پکڑ نہیں ہو سکتی مگر اصل قصہ یہ ہے کہ ان اچھی اچھی باتوں پر عمل بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ اسی عمل کو دیکھتے ہوئے عمران کے قصیدے لکھے جائیں گے یا تنقیدی تبصرے ہوں گے۔
مجھے یہاں جنرل مشرف کی ایک دعوت افطار یاد آرہی ہے، اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل کا بڑا ہال اخبار نویسوں سے بھرا ہوا تھا۔ سب سے ا ٓخری میز پر عبدالقادر حسن ، منو بھائی۔ عباس اطہرا ور میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہم کھسر پھسر کرتے رہے کہ یہ تو مشرف کی ایک ا لوداعی دعوت لگتی ہے ، ہم نے اس کے دور میں جی بھر کے تنقید کی، مگر اس کی جگہ جو آئے گا ،ہم اپنے قلم کی دھار اس کے خلاف بھی تیز کر لیں گے، یہ لکھنے والوں کا شیوہ رہا ہے۔ اب دیکھئے عمران کی اچھی باتوں کو تو سب نے سراہا مگر ہم دیکھیں گے کہ ان پر عمل کیسے ہوتا ہے۔یہ عمران کاا متحان ہو گا۔
ایک وکٹری تقریرمیں نے بانوے میں سین فرانسسکو میں سنی تھی یہ ڈائین فائین سٹین کی تقریر تھی ،وہ ڈیموکریٹس کی طرف سے الیکشن لڑرہی تھیں۔میں پاکستانیوں کی طرح دل میں دعا کر رہا تھا کہ وہ ہار جائیں کیونکہ ہم پاکستانی اس پارٹی کو عام طور پر پسند نہیں کرتے ۔ان کی تقریرسننے کے لیے ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ،سینکڑوں کیمرے اور روشنیاں اسٹیج پر مرکوز تھیں، قسما قسم کے کھانوں کی خوشبو سے فضا مہکی ہوئی تھی۔ خاتون امید وار نپے تلے قدموں کے ساتھ مائیک کے سامنے کھڑی ہوئیں ۔انہوں نے کہا کہ میں خوش دلی کے ساتھ اپنی شکست قبول کرتی ہوں اور جیتنے والے کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتی ہوں، پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔مجھے اچھا لگا کہ دنیا میں کچھ لوگ اپنی شکست کو بھی سیلی بریٹ کرسکتے ہیں۔ اس خاتون نے بعد میں سینیٹ کا الیکشن لڑاا ور جیت گئیں، انہیں سینیٹ کی سب سے طاقتور انٹیلی جنس کمیٹی کا وائس چیئر مین مقرر کیا گیا۔یہ تھا زندگی میں پہلی شکست کو خوشدلی سے تسلیم کرنے کا صلہ۔