خبرنامہ

اسحق ڈار سا وزیر خزانہ ہے تو سامنے لائو….اسداللہ غالب

فواد چودھری فیصلے لکھنے کے ایک عرصے سے عادی ہیں، ان کا قانونی دفتر مال روڈ پر تھا، بڑا لش پش دفتر۔ سارے فیصلے یہاں لکھے جاتے تھے، اعلان کہیں اور سے ہوتا تھا، ان کے ساتھ چیمبر میںمیرے علاقے قصورکے ایک وکیل تھے جو اب پنجاب حکومت کے ترجمان ہیں جبکہ فواد چودھری تحریک انصاف کے ترجمان بنے بیٹھے ہیں، انہوںنے اپنی عادت کے مطابق نیا فیصلہ یہ لکھا ہے کہ اسحق ڈار تین ماہ کے اندر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ کچھ فیصلے براہ راست عمران خان خود سنا رہے ہیں، انہوںنے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ اب زرداری کی جیل جانے کی باری ہے، وہ نواز شریف کے انجام سے سہمے ہوئے تھے، بے چارے خوف کے مارے ملک ہی چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے۔
ہمارے دوست ضیا شاہد نے ایک تلخ سوال اٹھا دیا ہے کہ کئی ماہ سے یہ بات لوگوں کے ہونٹوں پر ہے کہ سارے اہم فیصلے جج اور جرنیل مل کر کرتے ہیں ، ضیا شاہد نے آئی ایس پی آر کے سربراہ کو اس کی وضاحت کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ دیکھئے اس پر کوئی رد عمل آتا ہے یا نہیں لیکن سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ جو فیصلے، عمران خان، فواد چودھری،، بابر اعوان، نعیم الحق کا لارجر بنچ صادر کرتا ہے، وہی فیصلے تقدیر کا لکھا ثابت ہوتے ہیں، عمران کی چار سال سے ایک ہی کوشش تھی کہ نواز شریف حکومت جائے، اس نے بڑے پاپڑ بیلے، آخر اس کی سنی گئی۔ نواز شریف کونکالنے کے لئے ایسا جواز تلاش کیا گیاکہ خود نواز شریف چکرا کر پوچھ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا، بتائو مجھے کیوں نکالا۔ جی ٹی روڈ پر پہنچے تو یہی سوال۔ لاہور میں پریس کانفرنس کی تو یہی سوال۔ پھر اللہ نے ان کی بھی سن لی۔وہ لاہور کے ضمنی الیکشن میں ایسے سرخرو ہوئے کہ دشمنوں کوسانپ سونگھ گیا۔ نوازشریف نے ترپ کا ایک اور پتہ پھینکا اور پارٹی سربراہ بننے والی نااہلی کی تلوار کو کند کر کے رکھ دیا۔
یار لوگوںنے بھانپ لیا کہ نواز شریف مرنے مارنے پر تلے بیٹھے ہیں تو توپوں کا رخ ان کے قریبی ساتھی اسحق ڈار کی طرف موڑ دیا گیا۔اسحق ڈار کو لوگ نہیں جانتے، وہ اللہ والے ہیں،۔ چند روز پہلے لاہور آئے اور داتا صاحب کے مزار کو عرق گلاب سے دھویا۔ میںنے ان کی تصویریں اس سے بڑے دربار میں دیکھی ہیں جہاں انسان اونچا سانس بھی نہیں نکالتا کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جائے ، اسحق ڈار برسوں سے رمضان کا آخری عشرہ روضہ رسولؐ پر گزارتے ہیں۔ یہاں تو صرف آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے بہتے ہیں جو بدن اور روح کو دھو ڈالتے ہیں۔
اسحق ڈار کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ اس ملک کے پانچویںبار وزیر خزانہ بنے ہیں۔ ان کا ایک بڑا اعزاز یہ ہے کہ انہیں اسی سال ایشیا کا بہترین وزیر خزانہ ہونے کے خطاب سے نوازا گیا، ایشیا کے وزرائے خزانہ میںمن موہن سنگھ اور چدم برم کی صلاحیتوںنے اپنا لوہا منوایا ہے، مگر بھارت ایک بڑی اور جناتی معیشت کا ملک ہے، اس پر کبھی مارشل لا کا آسیب نازل نہیں ہوا، نہ وہاں سیاسی اور جمہوری طوائف الملوکی کا بازار گرم رہا، اس لئے اس ملک کی معیشت کو سدھارنا مشکل کام نہیں، پاکستان تو چار بڑے مارشل لائوں سے ڈسا جا چکا ہے، ایک مارشل لا نے تو ملک کو ہی دولخت کر دیا، ابتدا ہی سے بھارت اس کے درپے ہو گیا، حیدر آباد، جوناگڑھ، کشمیر، مناوادر، واہگہ، چونڈہ، شکر گڑھ، سیاچین،مشرقی پاکستان اور کارگل کو اس کی افواج نے تختہ مشق بنائے رکھا، سوویت روس نے افغانستان پر چڑھائی کی اور پاکستان تب سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، پھر امریکہ اور نیٹو کی فوجیں پاکستان کی سرحد پر جمع ہو گئیں ڈرون نے پاکستان کی درگت بنائے رکھی۔ دہشت گردوں کی نئی کھیپ نے پاکستان کی معیشت کا جنازہ نکال دیا مگر پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اللہ نے اسے اسحق ڈار جیسا با صلاحیت ماہر معیشت اور مالیات عطا کیا۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس کا مقاطعہ کر دیا گیا، یہ اسحق ڈار ہی تھے جو ملک کی معیشی کشتی کو منجدھار سے نکال لائے۔
ملک کی معیشت کو تباہ کرنے میں رہی سہی کسر جنرل مشرف کے مارشل لا نے پوری کر دی، انہوںنے امریکہ سے ایک وزیر خزانہ درآمد کیا جسے بعد میں وزیراعظم بھی بنا دیا گیا مگر اس نے ملک کی اقتصادیات کو زیر و زبر کے رکھ دیا، اس حال میں زرداری نے حکومت بنائی اور اسحق ڈار اس کے وزیر خزانہ مقرر ہوئے تو انہوںنے پارلیمنٹ میں معیشت کی سچی تصویر پیش کی، یہ تصویر ڈریکولا سے ملتی جلتی تھی، ہماری معیشت ہمارے عوام کا خون چوس رہی تھی۔ بجلی نایاب ہو گئی، بیس بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ معمول بن گئی، سرمایہ دار ملک سے فرار ہو رہے تھے اور غریب بھوک، اور بیماری اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آ کر خودکشیوں پر مجبور تھے، مائیں اپنے لخت جگر نہر میں پھینک کر خود بھی متلاطم موجوں میں چھلانگیں لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہی تھیں۔
یہ تھا وہ وقت جب میاںنواز شریف کو تیسری مرتبہ حکومت ملی، پہلا بجٹ صرف چند روز کے اند بنایا گیا۔، راتوں کو جاگ جاگ کر اسحق ڈار کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔ پھر اس مرد خدا نے معیشت کو واپس پٹڑی پر چڑھانے کے لئے ان تھک محنت کی۔ ایک موقع پر ڈالر مافیا ان کے گلے پڑ گیا اور پاکستانی روپے کی قدر رل گئی۔ اسحق ڈار نے وعدہ کیا کہ وہ ڈالر کو واپس اٹھانوے پر لائیں گے اور یہ وعدہ پورا کر دکھایا۔ اسحق ڈار نے قوم سے ایک اور عہد کیا کہ حکومت میں ہوتے ہوئے ملک کے اندر کوئی کاروبار نہیں کریں گے تاکہ ان پرنا جائز مراعات کاالزام نہ لگ جائے، ان کے دونوں بیٹے متحدہ عرب امارات میںمقیم ہیں، کبھی ان کا کام چل پڑتا ہے، کبھی نیچے آ جاتا ہے، بنیادی طور پر کنسٹرکشن کا گراف ایک جیسا نہیں رہتا، دنیا بھر میں پراپرٹی گرتی ہے اور لوگ لکھ پتی سے ککھ پتی ہو جاتے ہیں۔ ان کے بیٹوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کئی دوسرے شعبوں پر توجہ مرکوز کی، اللہ بھاگ لگانے والا ہے اور بیرون وطن پاکستانیوں میں صرف اسحق ڈار کے بیٹوں نے ہی مال نہیں کمایا، چودھری سرور نے بھی کمایا اور امریکہ کے ارب پتیوں کی فہرست ہر سال شائع ہوتی ہے، ان میں ایک آدھ نام پاکستانیوں کا بھی ہوتا ہے۔
پاکستان کی تیزی سے ترقی پذیر معیشت کی وجہ سے چین جیسی سپر پاور کو حوصلہ ملا کہ وہ سی پیک جیسا ہمالیائی منصوبہ بنائے، اب اس کو وسعت دے کر ون بیلٹ ون روڈ کی شکل دے دی گئی ہے مگر بنیادی کردار سی پیک اور پاکستان کا ہے ، اسحق ڈار کی شبانہ روز محنت سے پاکستان کی شرح نمو پانچ فی صد سے سے آگے بڑھتی دکھائی نہ دیتی تو چین نے پاکستان کوکیا خاک گھاس ڈالنا تھی۔اس کے لئے جتنی دعائیں دے سکتے ہیں، اسحق ڈار کو دیجئے۔ اور ثواب کمایئے کہ وہ اس وقت ابتلا میں ہیں۔
اسحق ڈار کا میں اکیلا مداح نہیں، یہ زیادہ دور کی بات نہیں، اسی سال اپریل مئی میں پاکستان کی قومی منتخب پارلیمنٹ نے ایک متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد کے تحت اسحق ڈار کو ضمنی بجٹ بنانے کی اجازت دی تھی، قرارداد کے الفاظ یہ تھے کہ اس بجٹ کو پارلیمنٹ سے منظور شدہ تصور کیا جائے گا۔
اس شخص کو اسی پارلیمنٹ کے لوگ مطعون کر رہے ہیں، یا وہ اس وقت جھوٹے تھے یا آج جھوٹے ہیں۔ یہ جھوٹ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔
آپ اسحق ڈار کا ڈی این اے کروا لیجئے، یہ ایان علی یا اس کے سرپرستوں سے ہرگز نہیں ملتا، پھر بھی اسے عدالتوں میں گھسیٹنا ہے تو یہ آپ کی طاقت ہے اور آپ کی مرضی ہے۔ اور آپ کا شوق ہے۔ اسحق ڈار کے کیس میں بھی پانامہ نہیں، اقامہ نکلے گا۔ پہاڑ کھودتے چلے جائیں، نکلے گا تو صرف چوہا!!
فیصلہ فواد چودھری ہی لکھیں گے۔ پہلے لاہور ہائی کورٹ سے متصل ایک بالا خانے میں بیٹھ کر لکھا کرتے تھے، اب بنی گالہ میں ٹائپ کیا جائے گا۔ اس فیصلے پر کون اعتبار کرے گا۔
فواد چودھری کا قابل اعتبار فیصلہ وہ ہو گا جو وہ اپنے چیئرمین کی اے ٹی ایم مشینوں کے بارے میں لکھیں گے۔ یا وہ ایسافیصلہ لکھیں جس کے ذریعے عمران خان کی چندہ خوری اور بنی گالہ اسٹیٹ کی سرمایہ کاری پر روشنی پڑ سکے۔