خبرنامہ

اسحق ڈار کا نعرہ حق….اسداللہ غالب

اسحق ڈار کا نعرہ حق….اسداللہ غالب

قومی معیشت پر اعتراضات اٹھائے جائیں اور شکو ک و شبہات پھیلائے جاتے رہیں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وزیر خزانہ کے طور پر اسحق ڈار خاموشی اختیار کئے رکھیں۔گو وزیر داخلہ احسن اقبال نے زور دار بیان دیا۔ احسن ا قبال کے بارے میں کہا جاسکتا تھاکہ ان کا معیشت سے کیا تعلق مگر ایسا کہنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ احسن اقبال نواز شریف کی دو حکومتوں کے دور میں معاشی منصوبہ بندی سے منسلک رہے ہیں اور منصوبہ بندی بھی ایسی کہ آنے والے کئی عشروں کے لئے۔ اس لئے مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔ احسن اقبال کے بیان کے بعد فضا کچھ ٹھنڈی ہوئی۔ فوجی ترجمان نے بعض سنگین خطرات کے بارے میں واضح الفاظ میں کہا کہ نہ کوئی قومی حکومت بن رہی ہے، نہ ٹیکنو کریٹ آ رہے ہیں اور نہ جمہوریت کو فوج سے خطرہ ہے مگر پھر بھی وہ یہ کہہ گئے کہ جمہوریت کو اپنی کارگزاری سے ضرور خطرہ ہے، اب یہ نکتہ ان کے ذہن اور زبان پر بھی نہیں آنا چاہئے کہ جمہوریت کی کارگزاری جانچنے کا اختیار عوام کے پاس ہے، کسی حکومتی ادارے کے پاس نہیں، بہر حال مجموعی طور پر فوجی ترجمان کی باتوں سے زہر آلود فضا کچھ صاف ہوئی اور اب احسن اقبال نے تو کھل کر کہا کہ حکومت اور فوج کے مابین کسی مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ، یہی کچھ جناب وزیراعظم عباسی نے کہا کہ آرمی چیف کو معیشت پر بیان دینے کا پورا حق حاصل ہے البتہ ملکی استحکام کا دارو مدار جمہوری نظام کے استحکام پر ہے۔ یوں کچھ امید پیدا ہوئی کہ سول اور ملٹری تناﺅ میں کمی واقع ہو گی مگر اس امر کا انحصار پھراس بات پر ہے کہ جو لوگ فوج کے خود ساختہ ترجمان بنے ہوئے ہیں، وہ بھی اپنی زبانوں کولگام دیںا ور ذمے داری کا مظاہرہ کریں ورنہ اس امر پر بحث شروع ہو جائے گی کہ اگر جمہوریت نے ملک کوکچھ نہیں دیا تو فوج آمریت نے تو ملک کو دو لخت کر کے رکھ دیا اور اس کا جواب ان خود ساختہ ترجمانوں کے پاس نہیں ہو گا ، جمہوریت کے علم بردار ایک کریڈیٹ تو گنوا سکتے ہیں کہ پاکستان عوامی، سول اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے قایم ہوا، اسے کسی ابدالی، کسی غزنوی، کسی غوری کسی محمد بن قاسم نے فتح نہیںکیا، ان کی فتوحات سے کسی کو انکار نہیں مگر بہادرشاہ ظفر کے زوال کے ساتھ ہی یہ دور تمام ہوا اور مسلمانوں کی غلامی کا دور شروع ہو گیا جسے قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کی ان تھک جدو جہد سے ختم کر کے پاکستان حاصل کیا گیا۔
بہرحال یہ موقع اس طرح کی بحث کے لئے مناسب نہیں۔ اس وقت معیشت کا مسئلہ لازمی طور پر کھنگالا جانا چاہئے کہ اس پر صرف فوج کی طرف سے ہی ا عتراض نہیں آیا بلکہ عام ٹی وی ٹاک شوز میں تجزیہ کار بھی کہہ رہے ہیں کہ قرضے بڑھ گئے ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ گئے ہیں، اور ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ہے، ظاہر ہے یہ ساری باتیں بھی حکومتی مخالفین ہی کر رہے ہیں جن سے عام آدمی کا ذہن ضرور پراگندہ ہوتا ہے کہ کیا کل کو روٹی بھی کہیں سے مل پائے گی یا نہیں۔ اس مذموم پروپیگنڈے کا توڑ کر نے کئے وزیر خزانہ کو سامنے آنا پڑا۔ اگرچہ ان کے خلاف گھیرا تنگ کیا گیا ہے۔ روز نیب کی پیشیاں، روز مخالفیں کی زہر آلود باتیں اور اعتراضات مگر لوگ اسحق ڈار کو نہیں جانتے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے، اسی سے لو لگاتا ہے، اور اسی سے ڈرتا ہے، باقی کسی سے اسے خوف و خطرہ لاحق نہیں ، ذات باری تعالی اس کا نقصان نہ چاہے تو وہ محفو ظ و مامون رہے گا، اسی لئے اسحق ڈار آپ کو شانت اور مطمئن اور پر سکون نظر آتے ہیں، ان کے اوسان خطا نہیں ہوئے، نہ انہوںنے کسی گھبراہٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اپنے استعفے کے مطالبے پر بھی وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کی پارٹی اور ان کا مسئلہ ہے۔ اگر انہیں وزیر اعظم عباسی اوراپنے قائد نوازشریف کاا عتماد حاصل ہے تو پھر وہ کیوںاستعفی دیں گے۔
وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس کے بعد ہر کسی کی زبان طعن بند ہو جانی چاہئے، انہوںنے کھول کر اور تفصیل سے معیشت ا ور مالیات کانقشہ پیش کیا ہے ، انہوںنے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ملک کو کسی ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں ، زرمبا دلہ کے ذخائر بھی تاریخ ساز حد تک موجود ہیں ،معیشت کی شرح نمو پچھلے دس برسوںمیں سب سے زیادہ ہے اور ابھی اس کی بڑھوتری کا عمل جاری ہے۔وزیر خزانہ کی پریس بریفنگ کے اہم نکات کا خلاصہ ایک نظر آپ بھی دیکھ لیجئے۔
شرح نمو میںپانچ اعشاریہ تین فیصد اضافہ
محصولات میں چار برس میں ریکارڈ اضافہ
فی کس آمدنی سولہ سو بتیس ڈالر
مہنگائی کی شرح صرف چارا عشاریہ سولہ فیصد
گردشی قرضے صرف چار سو اسی ارب
آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ چکے، اس کے پاس جانے کا قطعی ارادہ نہیں، اس کی حالیہ رپورٹ غلط بیانی پر مبنی ہے۔
روپے کی قدر کم نہیں کر رہے۔
کونسا اعتراض ہے جس کا جواب اس پریس کانفرنس سے نہیں ملتا، وزیر خزانہ نے مخالفین کو شافی جواب دیا ہے اور مجھے کہنے دیجئے کہ فوج نے اپنا اعتراض وارد کرنے سے پہلے ہوم ورک نہیں کیا۔بہر حال فوج کی غلط فہمی رفع ہو جانی چاہئے ، ویسے سیاسی مخالفیں کی زبانیں تو بند نہیں کی جا سکتیں ، یہ تو کتر کتر چلتی رہتی ہیں اور رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کرنا ان کے دائیں ہاتھ کا کارنامہ ہے۔
اسحق ڈار پر آپ لاکھ مقدمے چلا لیں لیکن ان کی صلاحیتوں کو چیلنج نہیں کر سکتے، انہیں گزشتہ برس کے ا ٓخر میں ایشیا کا بہترین وزیر خزانہ کا ایوارڈ ملا، اس سال قومی پارلیمنٹ نے ان کو اس قدر اعتماد بخشا کہ وہ ایک خاص حد تک ضمنی بجٹ بنا لیں اسے پارلیمنٹ سے منظور شدہ سمجھا جائے گا، جس شخص پرقوم کی منتخب پارلیمنٹ اور وہ بھی پوری کی پوری آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتی ہے، چند ماہ کے اندر اس شخصیت کی صلاحیتوں کو دیمک تو نہیں چاٹ گئی اور نہ زر مبادلہ کے ذخائر ردی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے اور نہ قومی گرڈ میں جو دس ہزار میگاواٹ نئی بجلی کا ضافہ ہوا ہے اور جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا عذاب ختم ہو چکا۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ ہاں عقل کے اندھوں کو یہ روز روشن کی طرح کے حقائق شاید نظر نہ آئیں، ان کا کسی کے پاس علاج نہیں۔
وزیر خزانہ اسحق ڈار کی پریس کانفرنس کے بعد حکومت کے مخالفین کا پہلا راﺅنڈ ناکام ہو گیا ہے، اب دیکھئے اگلے راﺅنڈ میں کیا ڈھمکیریاں گھڑی جاتی ہیں کیونکہ میں نہ مانوں والا طبقہ کبھی نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔ وہ تو پہلے دن سے دھرنے دے رہا ہے، ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کر رہا۔ اب وہ یہ کہہ کر ایکسپوز ہو گیا ہے کہ وہ فوج اور عدلیہ کا دفاع کرے گا، بھلا فوج اور عدلیہ بھی کسی غیر کے دفاع کی محتاج ہو سکتی ہے، وہ تو خود ملک اور قوم کو ہر خطرے اور ہر ناانصافی سے بچاتے ہیں۔ کاش! فوج اور عدلیہ اپنے ان خود ساختہ اور بزعم خویش سیکورٹی گارڈوں سے لاتعلقی کا اظہار کر دے۔
٭٭٭٭٭