خبرنامہ

کانفرنس میں د ہشت گردی کے خاتمے اور مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور…اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اسپیکرز کانفرنس میں د ہشت گردی کے خاتمے اور مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور…اسداللہ غالب

پاکستان میں سپیکرز کانفرنس کاا نعقاد اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ اس سے پاکستان میں جمہوریت کی بالادستی اور سیاسی استحکام کا تاثر دنیا تک جائے گا۔

اس کانفرنس کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان اور علاقے کو درپیش مسائل پر غورو خوض کیا گیا ہے اور ان کے حل کے لیے مختلف تجاویز دی گئی ہیں۔ اس لحاظ سے کشمیر اور دہشت گردی کے مسائل کانفرنس کے ایجنڈے پر حاوی رہے ہیں اور اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ علاقائی امن کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیا جائے اور دہشت گردی خاص طور پر داعش کی سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جائے۔
کشمیر کا مسئلہ بھارت نے بگاڑ رکھا ہے۔ تقسیم ہند اورا ٓزادی کے ایجنڈے کے تحت اسے ایک ملحقہ مسلم ا کثریتی ریاست کے طور پر پاکستان کا حصہ بننا چاہئے تھا مگر بھارت نے فوجی جارحیت کر کے کشمیر پر قبضہ جما لیا اور وہ دن اورا ٓج کا دن ، ستر برس سے کشمیر بھارت کے چنگل میں کراہ رہا ہے، کئی لاکھ کشمیری نوجوان ، مرد ، بوڑھے، بچے اور عورتیں بھارتی فوج کے ظلم اور جبر کا شکار ہو کر قبروں میں اتر چکے ہیں ، اب بھارت نے پیلٹ گنوں کا نیا ہتھیارآزمایا ہے جس سے کشمیریوں کی آنکھوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ا ور انکی بینائی چھینی جا رہی ہے، پہلے تو کشمیر کا مستقبل اندھیروں کی نذر کر دیا گیا تھا اب کشمیریوں کے لئے یہ دنیا اندھیر بنا دی گئی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا بھر میں آزادی کی لہر چل رہی ہے، اور سوویت روس کی ریاستیں آزاد ہو گئیں ، مشرقی یورپ کے ممالک آزاد ہو گئے مگر آزادی نہیں ملی تو کشمیریوں کو نہیں ملی، نہ مسلح جدو جہد کے ذریعے، نہ آمنے سامنے مذاکرات کے ذریعے،۔نہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے ا ور نہ پاک بھارت کمپو زٹ مذاکرات کے ذریعے کشمیریوں کی حریت قیادت برسہا برس سے گھروں یا جیلوں میںنظر بند ہے اور اب ان پر دہشت گردی کی فرد جرم عائد کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے، یہ اقدام بنگلہ دیش میں پاکستان کے حامی عناصر کو پھانسیاں لگانے کے زیر اثر کیا جا رہا ہے، بھارت سمجھتا ہے کہ جب بنگلہ دیش کا کسی نے کچھ نہیں بگاڑا اور اس نے اپنے مخالفوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا تو اب اسی طرز پر کشمیری لیڈروں سے بھی خدا نخواستہ نجات حاصل کی جا سکے گی۔
آج ہی بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کے ساتھ اس کی بیوی اور ماں کی ملاقات کرائی گئی، وہ مسلمہ عالمی قوانین کے تحت ایک جاسوس ہے اور بھارتی مسلح افواج کا حاضر سروس افسر جو رنگے ہاتھوں بلوچستان کے علاقے ماشخیل سے پکڑا گیا اور جس کی نشاندہی پر متعدد بھارتی جاسوسوں کو بلوچستان کے مختلف حصوں سے گرفتار کیا گیا ہے، کسی عالمی قانون کے تحت کل بھوشن کی ملاقات ا سکے اہل خانہ یا اس کے سفارت خانے کے کسی افسر سے نہیں کروائی جا سکتی تھی مگر پاکستا ن نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور انسانی بنیادوں پر یوم قائد اعظم اور کرسمس کے موقع پر یہ ملا قات کروا دی گئی ہے مگر ایک کشمیری لیڈر یاسین ملک کی اہلیہ مشال نے تڑپ کر فریاد کی ہے کہ ایک طرف پاکستان کی یہ فراخدلی اور دوسری طرف بھارت کی یہ سنگ دلی کہ یاسین ملک کو اپنی بیوی اور بیٹی سے تین سال سے ملنے نہیں دیا گیا۔
کشمیر میں بھارتی فوج ایک طرف نسل کشی کر رہی ہے ، دوسری طرف کشمیریوں کی نسلیں بدلنے کے لئے کشمیری خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی میں ملوث ہے۔ اس پر بھارت ہی کی ایک دانش ور خاتون صحافی ارون دھتی رائے نے سخت احتجاج کیا مگر بھارت اور دنیا نے اس احتجاج کو نظر انداز کر دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیریوں کی جدو جہد آزادی خود ان کے زور بازو کا نتیجہ ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے تو سراسر کشمیری نوجوان میدان میں ہیں اور سڑکوں گلیوں اور بازاروں میں آزادی آزادی آزادی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں اور ان نعروں کے رد عمل میں بھارتی افواج ان پر گولیاں برسا رہی ہے جس سے آئے روز شہادتوں کا ڈھیر لگ رہا ہے۔ ان نوجوانوں نے اپنے جذبات کا مظاہرہ کیا، ان کی راہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ، نہ کوئی لیڈر ہے، بس وہ برہان وانی کی شہادت پر سیخ پا ہیں اور اپنے غم و غصے کاا ظہار کر رہے ہیں۔
یہ تو رہا کشمیر کا قضیہ۔ اب آیئے دہشت گردی کی طرف ، کسی کو شک نہیں کہ پاکستان پندرہ برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ ایک لاکھ سے زائد شہادتیں ، ایک سو بیس ارب ڈالر کا معاشی نقصان۔چھ ہزار سے زائد پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کی شہادتیں۔ اس وقت پاکستان اس دہشت گردی سے لہو لہان ہے، سخت بے یقینی کا عالم ہے اور لوگ کھل کر سرمایہ کاری سے کتراتے ہیں کہ پتہ نہیں کل کیا ہو جائے۔ ویسے اطمینان کی بات یہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور رد ا لفساد کی وجہ سے دہشت گردی کے طوفان کا منہ موڑا جاچکا ہے اور اب جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ افغانستان کی سرزمین سے ہو رہا ہے جہاں داعش پرورش پا رہی ہے۔ اسی داعش کے ساتھ مل کر امریکہ نے شام میں بشارالاسد کے خلاف لڑائی چھیڑ رکھی ہے، امریکی کانگرس باقاعدہ داعش کی مالی ا ور دفاعی امداد کی منظوری دیتی ہے اس لئے افغانستان میںموجود داعش کی سرگرمیوں پر پاکستان کی تشویش بے جا نہیں ، امریکہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے زیر قبضہ افغانستان میں سرگرم عمل داعش کو لگام ڈا لے۔اور اسے پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے دے۔
سپیکرز کانفرنس میں ان دونوں حوالوں سے جو بحث مباحثہ ہوا، امید کی جانی چاہئے کہ اس سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا موقع ملے گا۔ کشمیر کامسئلہ ایک رستا ہوا ناسور ہے اور دہشت گردی نے تو پاکستان ہی نہیں پوری انسانیت کا خون نچوڑ لیا ہے۔ ان مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اجتماعی کوششیں کرنا ہو ں گی۔
٭٭٭٭٭