خبرنامہ

اصغر خان کی جمہوریت پسندی۔۔اسداللہ غالب

ایک زمانہ تھا جب پاکستان ایئر فورس واقعی پاکستان ایئر فورس تھی اور اس نے اپنے سے پانچ گنا بڑی بھارتی جارح فضائیہ کے دانت کھٹے کر دکھائے تھے اورپی آئی اے واقعی سے پی آئی اے تھی اورا س نے دنیا کی آج کی بڑی سے بڑی ایئر لائینوں کو اڑنا سکھایا تھا۔
یہ دور تھا ایئر مارشل اصغر خان کا اور ایئر مارشل نور خان کا۔چک لالہ کا فضائی اڈہ اب نور خان سے موسوم کر دیا گیا ہے ا ورا س کا فیتہ ان کی بیگم نے کاٹا تھا، میرے علم میں نہیں کہ پی اے ایف یا پی آئی اے نے اصغر خان کو یاد رکھنے کی زحمت کی ہو۔ان کی کوئی غلطی سیاست میںآناہے تو نور خان بھی گورنر بنے۔مگر نور خان کو جس کسی نے یاد رکھا،ا س کا بے حد شکریہ۔
مجھے اصغر خان پر قلم اٹھانے پر مانچسٹر کے چودھری غلام محی الدین نے مائل کیا ہے، وہ ایک عرصے تک برطانیہ میں تحریک استقلال کے سربراہ رہے اور اصغر خان کے کئی مرتبہ میزبان بھی بنے۔وہ میرے بھی مہربانوں اور میزبانوں میں شامل ہیں۔ نرم گفتار، دھیمے لہجے کے انسان۔آج کل وائیبروغیرہ پر مفت کال کی سہولت حاصل ہے ا ور وہ ا س کا پورا پورافائدہ اٹھاتے ہیں۔وہ اپنی یادادشتوں کو کھرچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اصغر کان کو سیاسی طور پر میں انہی چودھری صاحب کے ذریعے جانتا ہوں ا ور انہی کی وساطت بلکہ معیت میں میں کئی بار اسلامآباد میں ان کی رہائش گاہ پر بھی حاضر ہو چکا ہوں، وہ ہنس کر بتایا کرتے کہ سامنے ایک بلندی پر ایوب خان کا گھر ہوا کرتا تھا۔مجھے ا س ہنسی کی وجہ سمجھ نہیں آئی، سوائے ا س کے ایک نرم سی مسکان ہر وقت ایئر مارشل کے ہونٹوں پر طاری رہتی ہے۔ وہ بھی بنیادی طور پر خوشگوار طبیعت کے مالک ہیں۔
کوئی ایسی بات ضرور ہو گی جو میں نہیں جانتا لیکن ایئر مارشل جانتے ہوں گے جس کی وجہ سے وہ بھٹو کے دشمن نمبر ایک ہو گئے تھے۔ پتہ نہیں میرا یہ تاثر صحیح ہے یا غلط مگر جب میں نے پی این اے کا ایک جلسہ ناصر باغ میں سنا جس میں اصغر خان تقریر کر رہے تھے۔ بولتے بولتے ان کیآواز بلند ہو گئی، پورے جذباتی لہجے میں انہوں نے انگلی کے اشارے سے کہا کہ یہ جو سامنے ٹنڈ منڈ سا درخت نظرآ رہا ہے، ہم الیکشن میں کامیابی کے بعد بھٹو کو اس کی چوٹی کے ساتھ لٹکا کر پھانسی دیں گے۔بھٹو کو پھانسی تو ضرور ہوئی مگر اڈیالہ جیل میں اور جنرل ضیاا لحق کے ہاتھوں،میں نہیں جانتا کہ اس پھانسی پر اصغر خان کا تاثر کیا تھا۔
میری کہانی یہاں ختم ہوئی، اب روائت ہے چودھری غلام محی الدین کی، کہتے ہیں کہ ایک ورز انہیں جنرل چشتی کا فون آیا، وہ لندن میں تھے، کہنے لگے آپ سے تنہائی میں ملنا ہے، چودھری صاحب نے کہا کہ میں8 گھر میں بھی اکیلا ہوتا ہوں ا ور دفتر میں بھی، جہاں چاہیں تشریف لے آئیں۔جنرل چشتی مانچسٹر پہنچے۔ تنہائی میں ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ ایک اہم پیغام آپ کے لیڈر کے لئے لایا ہوں کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے لئے تیار ہو جائیں۔چودھری صاحب نے حیرت سے کہا کہ آپ یہ پیغام ایبٹ آباد جا کر خان صاحب کوخود کیوں نہیں پہنچاتے۔ اتنے لمبے سفر کی زحمت سے بچ جاتے۔جنرل چشتی نے کہا کہ آخر راز داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے ا ور میں سمجھتا ہوں کہ وہ آپ کی بات سنتے ہیں ا ورا س کے لئے مان جائیں گے۔ چودھری صاحب نے وعدہ کیاکہ میں انہیں فون پرآپ کا پیغام دے سکتا ہوں اور جواب بھی آپ تک پہنچا دوں گا۔ چودھری صاحب نے فون کیا، خان صاحب زور سے ہنسے اور کہنے لگے، چودھری صاحب، آپ ا س قدر سادہ کیوں واقع ہوئے ہیں،میں بیک ڈور سے اقتدار کیوں قبول کروں گا۔یہ جواب چودھری صاحب نے جنرل چشتی کو لندن کے قیام کے دوران ہی پہنچا دیا۔بات آئی گئی ہو گئی۔
میں اپنی یادادشت کو کو س رہاہوں کہ مجھے وہ سن یاد نہیں رہا جب یہ پیش رفت ہوئی یا نہ ہو سکی۔
مگر یہ مجھے یاد ہے کہ دوسری مرتبہ پھر جنرل چشتی لندن وارد ہوئے تو اسی طرح سے چودھری صاحب کو کال موصول ہوئی اور اسی طرح سے پھر ملاقات ا ور پھر وہی پیغام۔یہ زمانہ وہ ہے جب ایجنسیوں کے ہاتھوں اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا جارہا تھا اورا سکی باگ ڈور میاں نواز شریف کو سونپ دی گئی تھی ۔ جنرل چشتی نے سارا خاکہ واضح کیا اور کہا کہ سب فیصلے ہو چکے ہیں ، بے نظیر کی حکومت کو چلتا کر دیا جائے گا، وہ ملک کے لئے سیکورٹی رسک ہے اور ایئر مارشل کے بارے میں طے ہوا ہے کہ وہ عبوری حکومت سنبھالیں گے۔ بصورت دیگر جنوبی پنجاب کے ایک وڈیرے کو اقتدار سونپا جائے گا۔ چودھری غلام محی الدین نے ساری رام کتھا فون پر ایئر مارشل کے سامنے رکھی، وہ پھر ہنسے ا ور کہنے لگے کہ مجھے اس قدر بیوقوف کیوں سمجھ لیا گیا ہے کہ اصل ا قتدار کا مالک کوئی اور ہو اور مجھے صرف مہرے کے طور پر استعمال کیا جائے،اصغر خاں نے زور دے کر کہا کہ جس اقتدار میں اختیار آپ کے پاس نہ ہو، اس سے توبہ ہی بھلی!
اصغر خان کو کوئی کامیاب سیاستدان سمجھے یا ناکام ، مجھے ا س سے غرض نہیں، میں نے جوکچھ سنا، وہ آپ کے سامنے رکھ دیا۔
اور ایک زمانہ جانتا ہے کہ اقتدار کے زینے طے کرنے کے لئے کس نے کس کو استعمال کیا، کون ایوب کے ساتھ کابینہ میں رہا ، کون یحی خان کے ساتھ اور کون ضیاالحق کے ساتھ، آج یہ سب جمہوریت کے چیپمین بنے ہوئے ہیں، میں نے کہیں یہ طعنہ پڑھا کہ ایس ایم ظفر نے ایوب خان کی وزارت قبول کی، یہ طعنہ دینے والے ان سب لوگوں سے آگاہ ہیں جو مارشل لا کے زینے پر ایوان اقتدار میں داخل ہوئے، یہ پی پی پی والے بھی ہیں ، جماعت اسلامی کا چار کا ٹولہ بھی۔اور مسلم لیگ ن کی چوٹی کی قیادت بھی۔انہی میں ق لیگ کے اصحاب بھی شامل تھے، ان سب کو مارشل کی گھڑتی ملی اور یہ مالا جپتے ہیں جمہوریت کی جبکہ وہ چلاتے وہی مارشل لا والی شخصی آمریت ہیں۔ کہاں ہے جمہوریت، کونسا وزیر اعلی اسمبلی کے اجلاس میں بیٹھتا ہے، کونسا وزیر اعظم قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلاس میں شریک ہوتا ہے، انہیں تو غیر ملکی دورے چاہیءں، کارباور بھی بیرون ملک مگر حکومت ا س ملک پر ، وہ بھی نام نہادجمہوریت کے نام پر۔
اس ماحول میں اصغر خان کا دم غنیمت ہے،اس نے بیک ڈور سے اقتدار کی ہر پیش کش کو جوتی کی نوک پر رکھا، ویلڈن ایئر مارشل صاحب !!
یہ پچانوے سالہ نوجوان اس قوم کی آ نکھوں کا تاراہے۔