خبرنامہ

افغان سرزمین پر پاکستان کے سپوت کا خون…اسد اللہ غالب

افغان سرزمین پر پاکستان کے سپوت کا خون…اسد اللہ غالب

پاکستان پر یکے بعد دیگرے دو قیامتیں ٹوٹ گئیں۔ راولپنڈی میں جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو بے دردی سے شہید کر دیاگیا۔ کسی کو ذرا بھر شک نہیں کہ یہ بھیانک واردات افغانستان اور بھارت کی دہشت گرد تنظیموں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔
دوسری قیامت طاہر داور کی شہادت کی صورت نازل ہوئی۔ وہ پشاور میں ایس پی پولیس کے منصب پر فائز تھے، انہیں اسلام آباد کے پر رونق شہر سے ا غواہ کیا گیا۔ ان کی تشدد شدہ لاش افغان صوبے ننگر ہار سے ملی ۔ جہاں ان کا شناختی کارڈ بھی موجود تھاا ور دہشت گردوں کی طرف سے لکھا گیا ایک خط بھی۔لاش کئی روز تک کھلے آسمان تلے پڑی رہی۔ بڑی مشکل سے افغان حکومت نے ان کی شہادت کی خبر دی مگر لاش کو پاکستان کے قونصل خانے کو دینے سے انکار کیا گیا۔ طورخم بارڈر پر کئی گھنٹوں تک طرفین کے مذاکرات ہوئے۔ افغان قبائل کاا صرا ر تھا کہ وہ لاش کو حکومت پاکستان کے نمائندوں کے بجائے پشتون قبائل کے حوالے کریں گے۔ پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ اور شہید کے بھائی کو اس منطق کی سمجھ نہ آئی۔ مگر یہ صاف ظاہر تھا کہ افغان حکومت سنگدلی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
طاہر داورکا نام جیسے ہی میڈیا میں آیا،مجھے یوں لگا کہ وہ کوئی شاعر اور ادیب تھا جو دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ میں پشتو زبان نہیں جانتا مگر انٹر نیٹ پر طاہر داور کے منہ سے ان کی شاعری سنی،اس کی نغمگی انسان کو مسحور کر دیتی ہے اور ا سکے اندر چھپا ہوا جوش وجذبہ انسان کے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہے۔ میری تلاش کا سفر ختم نہیں ہوا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ طاہر دوار کو اس قدر بہیمانہ انداز میں شہید کرنے کی وجہ کیا تھی، انٹر نیٹ پر میں نے اس کا ایک انٹریو سنا، وہ خیبر ٹی وی پر بول رہے تھے۔ میں اپنے آپ کو قومی مجرم سمجھتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کی پشتو زبان آج تک کیوں نہیں سیکھی، ہم کندھے سے کندھا ملا کر زندگی بسر کرتے ہیں، ہماری تاریخ ایک ہے،روایات ایک ہیں ، ہیرو ایک ہیں،خیبر ٹی وی پر میں نے طاہر داور کو سنا تو مجھے زبان سے نا آشنائی سے کوئی فرق نہیں پڑا ،میں اس کے ہونٹوں کی جنبش، اس کی آنکھوں کی چمک اور آواز کے زیر و بم سے صاف سمجھ سکتا تھا کہ وہ انٹر نیشنل ٹیررازم پر بات کر رہے ہیں اور بڑے واضح الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ عالمی دہشت گردی کے پیچھے امریکہ، بھار ت اور افغان تین طاقتیں کارفرما ہیں اور ہم ان کو شکست دیئے بغیر دہشت گردی سے نجات نہیں پا سکتے۔ یہ انٹرویو سننے کے بعد مجھے ذرہ بھر شک نہیں رہا کہ میرے وطن کے سپوت کو شہید کرنے والے کون ہیں۔ یہ وہی دہشت گرد ہیں جو مسلسل اٹھارہ برس سے ہمارا خون بہا رہے ہیں۔ طاہر داور نے اپنے انٹرویو میں صاف کہا ہے کہ ہمارے دشمن سی پیک کے خلاف ہیں اور اسکی تکمیل کے راستے میں حائل ہیں۔طاہر داور شاعر نہ ہو تا اور صرف پولیس افسر ہوتا تو اتنی سچی اور کھری باتیں نہیں کر سکتا تھا۔ ایک شاعر تو حقیقت نگار ہوتا ہے۔ وہ تو سچائی کو الفاظ کا جامہ پہناتا ہے۔طاہر داور نے شاعری کی تو سچائی کا ساتھ دیاا ور منصبی فرائض ادا کئے تو سچ کی خاطر جان دے دی۔ طاہر دوار اب دوار حشر کے سامنے شرمندہ نہیں ہو گا۔ وہ عجز سے سر جھکا کر کہہ سکے گا کہ باری تعالی! میں نے مملکت خداداد کی خاطر جان کی قربانی سے بھئی دریغ نہ کیا۔
یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ امریکہ۔ بھارت اور افغانستان دن رات ایک ہی پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی سرزمیں ان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے مگر طاہرداور کی شہادت نے ا س پروپیگنڈے کا پول کھول دیااور یہ حقیقت روز روشن کی طرح دنیا پہ عیاں کر دی کہ یہ افغان سر زمین ہے جو پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور مسلسل ہو رہی ہے۔ افغانستان میں امریکی ا ورا تحادی افواج پکنک منانے کے لئے موجود نہیں ہیں اور نہ بھارتی را کے دہشت گرد یہاں سیرو سیاحت کے لئے آئے ہیں۔ افغان سرزمین میں ایساکوئی حسن نہیں جسے دیکھنے کے لئے غیر ملکی افواج کو یہاں ڈیرے ڈالنے پڑیں۔ ان کا مقصد تو صرف ایک ہے کہ کس طرح ایٹمی پاکستان کا سر جھکایا جا سکتا ہے۔
میں آپ کو طاہر داور کے ایک ا ور انٹرویو کی طرف لئے چلتا ہوں۔ میں اس کے انٹریو بار بار سن رہا ہوں۔ دلوں کی دھڑکنوں کی ایک ہی آواز ہوتی ہے۔ دلوں کی ایک ہی زبان ہوتی ہے اور اب مجھے طاہر دوار کی بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آ رہی
۔ وہ کہہ رہا ہے کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے پولیس اور عوام کے درمیان مثالی اتحاد ہونا چاہئے اور پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان بھی کو آرڈی نیشن کا ہونا ضرور ی ہے۔ وہ اپنے ٹی وی اینکر سے کہہ رہا ہے کہ ا سوقت تمام ریاستی اداروں میں مثالی کوآرڈی نیشن اور ہم آہنگی کی فضاموجود ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے ان دہشت گردوں کو کچلنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
دہشت گردوں کو کچلنے کا عزم رکھنے والا کئی بار ان کا نشانہ بنتے بنتے محفوظ رہا مگر دہشت گردوں نے ایک بزدلانہ حرکت کی ۔ طاہر ادور کا مقابلہ میدان میں کرنے کے بجائے اس کو ایک سازش کے تحت شہید کر دیا۔ ا سکی مسخ شدہ لاش کو دیکھ کر اندازہوجاتا ہے کہ قاتلوں نے اپنا انتقام لینے کے لئے کس درندگی کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان نے اپنے ایک سپوت کی اس شہادت پر گہرے دکھ درد اور غم و اندوہ کاا ظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنا کرب دکھ بھرے الفاظ میں بیان کیا۔ ہمارے دفتر خارجہ نے دو بار افغان ناظم الامور کو طلب کر کے شدید احتجا ج ریکارڈ کروایا۔ مگر افغانستان نے اپنے ہونٹ سی لئے ہیں۔وہ ایک مجرم کی طرح عالمی کٹہرے میں کھڑا ہے جیسے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو۔ اس کے ہاتھ طاہر داور کے گرم جوان خون سے رنگے ہوئے ہیں۔پچھلے اٹھاربرسوں میں دہشت گردوں نے پاکستان کا خون کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،ساٹھ ہزار بے گناہوں کو شہید کیا گیا۔
پاکستان کاا صولی نظریہ ہے افغانستان سے دوستانہ تعلقات علاقے میں قیام امن کے لئے اشد ضروری ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغان بھائیوں کی مدد میں پہل کی۔ سوویت افواج نے جارحیت کی تو پاکستان نے خطرات مول لے کر ایک جہاد کو منظم کیا اور سوویت روس کی افواج کو پسپا ئی پر مجبور کیا۔ اس جنگ میں اسی ہزار افغان مہاجرین پاکستان آئے۔ہم نے انہیں گلے سے لگا رکھا ہے۔پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی جارح افواج واپس جائیں اور افغان بھائی اپنے اقتدار اعلیٰ کے مالک بنیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی وکٹری تقریر میں کہا کہ وہ پاکستان ا ور افغانستان کو ایک ملک سمجھتے ہیں اور درمیان میں کسی سرحد کو پسند نہیں کرتے۔ ان کی خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام یورپی ملکوں کی طرح آزادی سے ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے دکھائی دیں۔کھل کر آپس میں تجارت کریں مگر افغانستان نے ان کی دوستی کا ہاتھ جھٹک دیااور صرف ہندرہ روز کے اندر پاکستان کا قندھار کا قونصل خانہ بند کر دیا۔ ہمارے نئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلا دورہ بھی کابل کا کیا ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ہم کس طرح افغانستان کے ساتھ قربت کے تعلقات کے حق میں ہیں مگر افغانستان نے جواب میں ہمیں لاشوں کے تحفے دینے شروع کر دیئے ہیں،کابل کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے جو لاش ہمارے حوالے کی ہے بلکہ اس کی حوالگی میں بھی لیت و لعل کا مظاہرہ کیا۔ یہ لاش طاہر داور کی نہیں ۔ طاہر داور کے نام میں منصف کا لفظ شامل ہے اور افغانستان کے کٹھ پتلی حکمران یاد رکھیں کہ طاہر داور کی لاش اپنے لئے نہیں، اس خطے کے کروڑوں عوام کے لئے انصاف لے کر رہے گی۔طاہر داور کا خون اس کے شعروں کی رگ رگ میں دوڑتا رہے گاا ور ضمیر عالم کو جھنجھوڑتا رہے گا۔