خبرنامہ

القدس پر اسلامی کانفرنس نے کیا تیر مارا…اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

القدس پر اسلامی کانفرنس نے کیا تیر مارا…اسداللہ غالب
اس قدر اہم اور سنگین مسئلے پر تاخیر سے لکھنے کی وجہ وہ سردی ہے جو بڑھاپے میں ذرا زیادہ تنگ کرتی ہے۔ گزشتہ منگل کو میں شادمان مارکیٹ میں برادرم امیر العظیم کے دفتر گیا، مارکیٹ کے چاروں طرف ٹریفک جام تھی، جام بھی نہیں ، برف کی طرح ٹریفک نے سڑکوںکو ڈھانپ رکھا تھا۔ ناچار ٹیکسی سے ا ترا اور پیدل چل کر ان کے دفتر گیا، دفتر کے اندر ماشا اللہ کمرہ بھی انتہائی یخ۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بڑی مشکل سے یہ سردی برداشت کی،

مگرباہر نکل کر نئی ٹیکسی کی تلاش میں نئے سرے سے سردی کے تھپیڑے سہنے پڑے، گھر پہنچنے تک کپکپی لگ چکی تھی اور دل متلا رہا تھا،، ظاہر ہے یہ سردی کی وجہ سے تھا، رات گئے الٹیاں شروع ہو گئیں اور پھر پیٹ کی خرابی نے آن لیا۔ بدن میں پانی کا ایک ایک قطرہ تک خارج ہو گیا ۔ یہ سلسلہ دو دن چلاا ور پھر بستر سے چپک کر رہ گیا، اس دوران امیر العظیم کے ساتھ گفتگو پر مبنی بڑی مشکل سے دو کالم لکھے اور پھر ہمت جواب دے گئی۔مزے کی بات یہ ہے کہ قبلہ امیر العظیم نے بھی مڑ کر نہ پوچھا کہ دیوانے پہ کیاگزری، بہر حال وہ سیاستدان ہیں۔ اور میں یہ لکھ چکا ہوں کی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ، مگر ان کے والد کی طرف سے جو رشتہ ہے، اس سے امید رکھتا ہوں کہ وہ برخوردار ہی بن کے رہیں گے۔ اللہ سیاست میں ان کو ترقی دے اور ان کی ایم ایم کے لئے میری ڈھیر ساری دعائیں ہیں۔ اللہ کرے ملی مسلم لیگ بھی رجسٹر ہو اور ایم ایم اے کے لئے نئی طاقت ثابت ہو۔ اتوار کو سراج الحق نے القدس پر خون کھولا دینے والی تقریر کی۔ حاصل گفتگو یہ تھا کہ القدس کے مسلمان اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں
القدس کے مسلمان واقعی نے تنہا نہیں ہیں۔میری توقعات کے برعکس او آئی سی نے انگڑائی لی، اس سے پہلے عرب لیگ کے تن مردہ میں بھی جان آگئی ، او آئی آئی سی کاا جلاس ترکی میں ہوا، ۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے ایک مئوثر وفد کے ساتھ اس میں شرکت کی، وہ شہباز شریف کو خاص طور پر ساتھ لے گئے تھے ۔صدراردوان اس کانفرنس کے میزبان تھے جو یہ کہہ چکے ہیں کہ مسجدوں کے مینار ہمارے میزائل ہیں اور ان کے محراب ہمارے مورچے، خدا کرے یہ شخص غازی صلاح الدین کی روایات کو آگے بڑھائے اور القدس کو اسرائیل کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کروائے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروق ؓ نے سب سے پہلے قبلہ ا ول کو آزاد کروایا تھا۔پھر مسلمان باہمی چپقلش کا شکار ہوتے چلے گئے اور دنیا بھر کے یہودیوںنے ارض فلسطیں میں خفیہ خفیہ آبادکاری شروع کر دی، مسلمانوں سے مکان، دکانیں اورزمینیں اونے پونے خرید لی گئیں، اس طرح اسرائیل کا ناجائز وجود عمل میں آ گیا جس نے بڑی تیزی سے پر پرزے نکالے ا ور فلسطین کے وسیع علاقوں پر جارحانہ قبضہ جما لیا ،۔ان میں القدس جیسا مقدس مقام بھی شامل تھا جو انبیا کی سرزمین اور مسلمانوں کے قبلہ اول کی حیثیت رکھتا تھا، اب اسرائیل نے یہ شرارت کی ہے کہ ا سے اپنا دارالحکومت بنانا چاہتا ہے اور امریکی صدر ٹرمپ نے ان کی یہ کہہ کر پیٹھ ٹھونکی ہے کہ وہ بھی اپنا سفارت خانہ القدس میں منتقل کر دے گا۔ اس سے عالم اسلام کا مردہ ضمیر جاگا اور کانگو سے مراکش تک مسلمان بپھر بپھر گئے، مسلم حکمرانوںنے دیکھا کہ وہ مصلحت سے کام لینے کے بجائے اپنے عوام کی خواہشات کی پیروی کے لئے مجبور ہیں تو عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس کے دھڑا دھڑ اجلاس ہوئے ا ور ہمارے وزیر اعظم نے تجویز دی کہ عالم ا سلام کی طرف سے متفقہ طور پر القدس کو فلسطین کا دارلحکومت قرار دیا جائے، یہ معقول تجویز تھی اورا سے منظور کر لیا گیا۔ دیگر لیڈروںنے بھی دھواں دار تقریریں کیں اور القدس کے لئے خون بہانے کا اعلان کیا۔ میرے خیال میں خون بہانے کی ضرورت ابھی نہیں ہے،اس وقت جیسا اعلان امریکہ نے کیا ہے، اسی طرح سے ستاون اسلامی ممالک کواعلان کرنا چاہئے کہ وہ القدس میں اپنا اپنا سفارت خانہ کھول رہے ہیں، اور اپنے ملکوںمیں فلسطین کو سفارت خانہ کھولنے کے لئے بلڈنگیں عطیہ کر رہے ہیں تواس اعلان سے ہی اسرائیل اور امریکہ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے اور انہیں اپنے اعلان پر نظرثانی کی حاجت محسوس ہوجائے گی۔
کس قدر ستم ظریفی ہے کہ اسرائیل شروع سے لے کر آج تک جارحیت اور دہشت گردی کے حربے آزما رہا ہے مگر الٹا مجبور فلسطینیوں کو طعنہ دیتا ہے کہ وہ دہشت گرد ہیں۔ امریکہ نے دنیا میں کہاں دہشت گردی ا ور جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا ، برس ہا ویت نامیوں کو مارا، لائوس اور کمبوڈیاکو مارا ، اب عراق، افغانستان ،لیبیا اور شام کو مار رہا ہے ا ور بیچ بیچ میں پاکستان کی بھی ٹھکائی کر دیتا ہے، پاکستان کا کھل کر سامنا کرنے سے اس لئے کتراتا ہے کہ یہ ملک ایٹمی اسلحے اور میزائلوں سے لیس ہے اور ترکی بہ ترکی جواب دے سکتا ہے۔
مگر پچھلے اسی نوے سال میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو مار مار کر ان کا وجود ختم کر دیا ہے ،کبھی ان پر ٹینک چڑھائے، کبھی توپ خانے کی گولہ باری، کبھی میزائلوں کی بارش ، کبھی زہریلی گیس اور کبھی جنگی طیاروں سے بمباری۔ فلسطینیوںنے لبنان میں پناہ لی، تواسرائیل نے انہیں وہاں مارا۔ اردن میں پناہ لی تو وہاںمارا،، شام میں پناہ لی تو وہاںمارا،، الجزائر اور مرکش تک پناہ لی تو وہاں بھی ان کا پیچھا کیا، ان پر ہر جگہ عرصہ حیات تنگ کئے رکھا، انسانی حقوق کا خیال کیا، نہ اقوام متحدہ چارٹر کی پروا کی، نہ کسی اخلاقیات کااحساس کیا، بس درندنگی کا شیوہ اپنایا اور فلسطینیوں کی چار نسلیں اب تک ختم کی جا چکی ہیں ، یہی کام اب بھارت نے کشمیر میں شروع کر رکھا ہے، یہاں بھی امریکہ، اور اقوام متحدہ نے بھارتی مظالم سے آنکھیںبند کر رکھی ہیں۔ کشمیری تو تنہا ہیںمگر شکر ہے کہ فلطینیوں کے لیے تمام اسلامی ملکوں کو احساس ہو گیا کہ ان کے خون کی بھی کوئی قدرو قیمت ہے، ان کوبھی جینے کا حق حاصل ہے اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو کچھ کہا گیا،ا س پر عمل کیا جائے اور فلسطین کو قبلہ اول سمیت ایک آزاد ملک کی شکل دلوائی جائے، مسلمان متحد ہو کر مطالبہ کریں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ان کے سامنے نہیں ٹھیر سکتی ا ور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ مسلمان اکیلے اکیلے زخم سہہ کر جان گئے ہیں کہ اکٹھے نہ ہوئے تو ان سب کی خیر نہیں، انہیں ایک ایک کر کے فلسطین بنا دیا جائے گا،ا سلئے وہ فلسطین کے لئے متحد ہو گئے ہیں اور قوی امید ہے کہ اپنا مطالبہ منوا کر ہی دم لیں گے۔