خبرنامہ

الیکشن امتحان۔۔۔ پرچہ بھی آؤٹ ، نتیجہ بھی آؤٹ…اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

الیکشن امتحان۔۔۔ پرچہ بھی آؤٹ ، نتیجہ بھی آؤٹ

ان سطور کولکھنے اور شائع ہونے تک کیا ہو سکتا ہے، اس پر کچھ حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ اس لئے کہ جام کو ہاتھوں میں تھامنے اور لبوں تک لے جانے کے درمیان بہت کچھ ہو سکتا ہے ا ور اگر یہ جام سقراط کے ہاتھوں میں ہو تو ایک تاریخی سانحہ بھی ہو سکتا ہے۔
تا دم تحریر پاکستان قائم ہے۔ ستر میں بھی الیکشن شروع ہونے تک پاکستان قائم تھا فرق اس وقت واقع ہوا جب الیکشن ہو گیا۔ اس لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔
عام محارہ ہے کہ زمین پھٹ جائے ، خواہ آسمان گر پڑے الیکشن ہو کے رہتا ہے۔ ملک کے کوئی دو سو کے قریب گھروں میں کہرام مچ گیا مگر الیکشن پھر بھی ہو رہا ہے ۔ الیکشن کا ہو جانا ایک اچھی علامت ہے، اس سے جمہوری عمل میں پیش رفت آتی ہے۔لیکن خرابی تب پڑتی ہے جب الیکشن میں دھاندلی کی کوشش کی جائے۔ ستر کے الیکشن میں دھاندلی الیکشن کے بعد کی گئی ا ور ایک بڑی پارٹی کے لیڈر کو قید میں ڈال دیا گیا، اس الیکشن میں بڑی پارٹی کے لیڈر کو الیکشن سے قبل ہی قید میں ڈال دیا گیا، اس کی بیٹی بھی جیل مں بند کر دی گئی، پنڈی میں شیخ رشید کے مقابے میں ن لیگی امیدوار حنیف عباسی کو بھی قید میں ڈال دیا گیا،دانیال عزیز کا تعلق بھی ن لیگ سے ہے، وہ بھی جیل میں ہے۔ میرے شہر قصور کے ن لیگی امیدوار شیخ وسیم اختر بھی جیل میں گل سڑ رہے ہیں، کئی ن لیگی امیدوار منحرف ہو کر پی ٹی آئی میں چلے گئے یا آزاد امیدوار کے طور پر جیپ پر سوار ہو گئے۔ ن لیگ نے شکوہ کیا کہ انہیں زبردستی پی ٹی آئی میں بھیجا گیا ہے۔یہ سب کچھ پری پول رگنگ کی زد میں آتا ہے، حتی کہ پیپلز پارٹی نے بھی شکوہ کیا کہ اسے دیوار سے لگایا جا رہا ہے، بلاول اور خورشید شاہ نے الزام لگایا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی کو کھلا میدان میسر ہے۔ مگر پی ٹی آئی کے جہانگیر تیرین کو نااہل کیا گیا اور ایک پی ٹی آئی کے امیدوار کو شہید بھی کیا گیا۔ پی ٹی آئی پر اس طرح مقدمے نہیں چلے جس طرح ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں پر چلے۔ جماعت ا سلامی کے امیر سراج الحق ایک نیک، متقی اور پارسا انسان ہیں، وہ الزام تراشی کے کھیل کا حصہ نہیں بنتے لیکن سچی بات کہنے میں ان پر کوئی قدغن نہیں ہے اور انہوں نے بھی کہا کہ کچھ کے ساتھ لاڈلوں کا ساسلوک کیا جارہا ہے ۔ حتی کہ میرے ساتھ خصوصی انٹرویو میں انہوں نے طنز کیا کہ عمران خان نے تو لگتا ہے کہ امام ضامن باندھا ہوا ہے ۔
عدلیہ ا ور فوج کا کہنا ہے کہ انہوں نے آئینی حدود سے باہر قدم نہیں رکھا، ایک جج کے الزامات پر پاک فوج نے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ مجھے لگتا ہے یہ ایک ا ور ڈان لیکس کا قضیہ بن جائیگا۔ الیکشن میں مداخلت کی بات عمران خاں نے بھی کی اور ابہوں نے ا سکا الزام بیرونی قوتوں پر عاید کیا ہے، الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے بالکل شروع میں کہا تھا کہ انہیں شک ہے کہ بیرونی قوتیں الیکشن میں مداخلت کریں گی ، اس سلسلے میں وہ ان کیمرہ بریفنگ دینے کو تیار ہیں مگر سیاسیی جماعتوں نے سنی ان سنی کر دی، پاک فوج کے ترجمان نے بھی میڈیا بریفنگ میں یہ کہا کہ فوج نے کچھ بیروی قوتوں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ مگر یہ قصہ آگے نہیں بڑھا یعنی اس پر کسی نے بات نہیں کی ، مجھے شبہہ نہیں ،یقین ہے کہ افغانستان میں امریکی، نیٹو اور بھارتی افواج پاکستان میں ہر قسم کی مداخلت کر رہی ہیں اور جب میں فوجی مداخلت کی بات کرتا ہوں تو میری مراد انہی افواج سے ہے۔ مگر جن لوگوں کو پاک فوج سے شکایات ہیں ، وہ عدلیہ یا الیکشن کمیشن سے رجوع کریں تاکہ مکمل تحقیقات ہوں ۔ اور حقیقت اور افسانے کا فرق واضح ہو سکے۔
الیکشن کمیشن پر بھی سیلیکشن کمیشن کی پھبتی کسی جاتی ہے،اس لحاظ سے یار لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن فکس ہو چکا ہے،پاکستان میں امتحانی پرچے تو آؤٹ ہوتے ہیں مگر اس بار الیکشن کا تو نتیجہ بھی لگتا ہے کہ آؤٹ ہو چکا ہے۔ کوئی شخص خواہ کسی پارٹی کا ہو ، الیکشن کی ساکھ پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔
اس الیکشن میں الیکٹ ایبلز کی اصطلاح زیادہ استعمال ہورہی ہے، ستر کے الیکشن میں بھٹو نے کھمبوں کو ٹکٹیں دیں تو وہ جیت گئے مگر ستتر میں اس نے الیک ایبلز کو ٹکٹیں دیں اور جب پولنگ کے روز چودہ طبق روشن ہوئے کہ یہ گھوڑے جیتنے کے قابل نہیں ہیں تو بڑے پیمانے پر دھاندلی کر کے ایلکٹ ایبلز کو جتوانا پڑا جس پر پی این اے نے حشر کھڑا کر دیا اور صوبائی الیکن کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس روزپولنگ اسٹیشنوں پر ہو کا عالم تھا اور الو بول رہے تھے ، آج بھی میں شرطیہ کہتا ہوں کہ قومی اسمبلی کے الیکشن الگ کروائیں اور ان میں دھاندلی کر کے دیکھیں تو صوبائی ا سمبلیوں کے الیکشن کے روز ایسا بائیکاٹ ہو گا کہ پولنگ پوتھ خالی سائیں سائیں کر رہے ہوں گے،میں نے توتجویز پیش کی تھی کہ بائیو میٹرک تصدیق کے بعد بیلٹ پیپر جاری کیا جائے، پھر دیکھتا ہوں کہ کیسے دھاندلی ہوتی ہے، کوئی کمپیوٹر ریزلٹ نہیں بنا سکے گا، نہ انجینیئرڈ نتائج کا اعلان ہو سکے گا اور آخری بات یہ کہ پولنگ ختم ہونے کے پانچ منٹ کے اندر نتیجہ سب کے سا منے آ جائے گا مگر یہ ملک جہاں دھاندلی کے بغیر لوگ جیت ہی نہیں سکتے، وہ بائیو میٹرک نظام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
جوکچھ ہونا تھا وہ ہو چکا،ا س کے باوجود میرا تجزیہ ہے کہ پنجاب میں ن لیگ کو اتنا ہی نقصان ہو گا جتنے اس کے امیدوار کھسکا لئے گئے اور یہ نقصان اس قدر نہیں ہو گا کہ ن لیگ دوسرے نمبر پر دھکیلی جا سکے، مجھے خدشہ ہے کہ خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے سابق حکمران جماعت نقصان میں رہے گی اور ایم ایم اے کچھ نشستیں زیادہ لے جائے گی، سندھ میں پیلز پارٹی پہلے سے زیادہ سیٹیں لینے کی پوزیشن میں ہے، بلوچستان میں آج تک کوئی ایک پارٹی نہیں جیت سکی یہاں ہمیشہ کی طرح چوں چوں کا مربہ بنے گا۔ پنجاب میں اگر ن لیگ کوشش کرے تو آزاد امیدواروں اوورایم ایم اے کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو گی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی سے کوئی حکومت چھین نہیں سکتا، اور وفاق میں خود عمران خاں نے تسلیم کیا ہے کہ ہنگ پارلیمنٹ بنے گی، اس ہنگ پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے عمران حکومت بنا لے یاپیپلز پارٹی بنا لے تو یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کو سادہ اکثریت لینے میں دشواری ہو گی اورا س بارجماعت اسلامی ا س کی مدد نہیں کر سکے گی کیونکہ وہ ایم ایم اے کے ڈسپلن کی پابند ہو گی۔ پی ٹی آئی کو پشاور اور اسلام آباد میں حکومت سازی کے لئے ایم ایم اے دستیاب نہیں ہو گی۔ کیا پیپلز پارٹی کسی صورت میں پی ٹی آئی کو بیساکھی مہیا کر سکے گی۔ میرا جواب ہے کہ نہیں۔ تو عمران خان کیسے حکومت بنائے گا۔کیا وہ سادہ اکثریت لے سکے گا، کسی تجزئیے میں اس کا جواب ہاں میں نہیں۔
کچھ باتیں ریکارڈ پر لانا ضروری ہو گیا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز نے دلیرانہ کردار سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ن لیگ کی الیکشن مہم بے حد مؤثر رہی ، مریم نواز بھی ایک مسلمہ لیڈر کے طور پر سامنے آئیں۔ ن لیگ کو ہمدردی اور کارکردگی کا ووٹ ملنے کی توقع ہے،بلاول کے منہ میں اب چوسنی نہیں رہی، وہ ایک بڑے لیڈر کے رتبے کو پہنچ گیا ہے۔ اور اس کی انتخابی مہم کو سو میں سے سو نمبر دیئے جا سکتے ہیں۔ پاک فوج کو متنازعہ نہیں ہونا چاہئے تھا مگر اس کی ساکھ پر حرف آیا ہے، اور مجھے اس پر دلی افسوس ہے۔
نواز شریف ہمیشہ کہتے رہے کہ سیاست دانوں کے فیصلے الیکشن میں عوام کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کا نظریہ درست ثابت ہو گا ۔ مھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ پیپلز پارٹی بھی اس الیکشن میں بہر صورت جیتے گی۔ دونوں بڑی پارٹیوں کو صرف مصنوعی طور پر نقصان پہنچایا جاسکتا ہے اور یہ نقصان خدا نخواستہ پاکستان کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے ۔
میں نے کوشش کی ہے کہ غیر جانب داری سے کام لوں اور نیک نیتی کا مظاہرہ کروں مگر ایک بات جو مجھے غیر جانبداری پر مبنی لگتی ہے وہ کسی دوسرے کو جانبداری پر محمول نظر آئے گی۔ اس لئے میں ایسے قارئین سے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔