خبرنامہ

الیکشن میں بھارت کی مداخلت…..اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

الیکشن میں بھارت کی مداخلت…..اسد اللہ غالب

الیکشن ڈے پر میں کالم نہیں لکھ سکا۔ اس غیر حاضری کی وجہ یہ نہیں کہ میرے الیکشن کے سارے تجزیئے غلط ثابت ہوئے اور میں شر مندگی کے باعث قلم نہ اٹھا سکا۔ میرا اب بھی دعویٰ ہے کہ میرے سارے تجزیئے سو فیصد درست تھے۔ یہ بحث پھر کسی وقت سہی، فی الحال یہ بتائے دیتا ہوں کہ کالم کی غیر حاضری کی اصل وجہ کیا تھی۔ الیکشن کی بجلی ن لیگ پر تو گرنا ہی تھی مگر میں بھی اس سے نہ بچ سکا، وہ یوں کہ دو پہر کو بارش ہوئی جس نے بجلی کے ترسیلی نظام میں خلل واقع ہو گیا۔ میرے تمام کمپیوٹرز، انٹرنیٹ آلات اور اے سی جل گئے اور پورا گھرانہ اس کے بعد تھڑے پر ہو گیا۔ الیکشن کی چھٹی کی وجہ سے کوئی مستری بھی دستیاب نہ ہو سکا، واپڈا کے ایکسیئن کوٹ لکھپت بات سن لیتے ہیں مگر وہ بھی الیکشن ڈیوٹی پر تھے، انہوںنے فراغت کے بعد ایک ٹیم بھجوا دی جس نے گھر کے میٹر تک بجلی ٹھیک کر دی مگر جو سامان جل چکا تھا، اسے ٹھیک کرنا ان کے لئے مشکل تھا، مجھے پاک عرب سکیم میں آئے دس برس ہو چلے ہیں اور اس دوران چار مرتبہ میرا الیکٹرانکس کا سامان ٹرانسفارمر کی کسی اندرونی مخفی خرابی کی وجہ سے جل چکا ہے۔ چلئے کالم نہ لکھنے کی کہانی ختم ہوئی۔
الیکشن میں بیرونی مداخلت کی بات میںنے ہر تجزیئے میں کی۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے شروع ہی میں خبردار کر دیا تھا کہ بیرونی مداخلت ہو سکتی ہے، فوج کے ترجمان نے بھی کہا کہ انہوں نے بعض بیرونی ملکوں پر نظر رکھی ہوئی ہے، الیکشن ختم ہو گیا اور نتائج کی موسلا دھار بارش ہونے لگی تو اس ہنگام میں پہلے ایک چینل نے بھارتی چینل تہلکہ کا کلپ چلایا، پھر چل سو چل، ہر ٹی وی چینل نے اسے اچک لیا، اس ویڈیو میں تہلکہ پر کوئی مہربان تجزیہ کار شکایت کر رہا تھا کہ پاکستان میں ان کے ایک دشمن عمران خان کو جتوا دیا گیا ہے۔ تو یہ تھی پاکستان کے الیکشن میں بھارتی مداخلت جوکھل کر سامنے آئی، کوئی خفیہ کاریگری بھی کی گئی ہو تو مجھے اس کا علم نہیں۔ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ نہ بھی کریں توکم از کم یہ بلیم گیم بڑے زور شور سے جاری رہتی ہے۔ پاکستان والے دعا کرتے رہتے ہیں کہ بھارت میں بی جے پی اقتدار میں نہ آ جائے۔ یہ دعا مانگنے والے خواہ مخواہ اس خوش فہمی میںمبتلا ہیں کہ انڈین کانگرس ہماری ہمدرد اور سگی ہے۔ ہم تو امریکی الیکشن میں بھی دعائیں کرتے ہیں کہ کہیں ڈیموکریٹس نہ آ جائیں مگر میرا تجربہ ہے کہ جس قدر ری پبلکنز نے پاکستان کو مارا ہے ، شاید دوسری پارٹی نے اتنا نہ مارا ہو۔ پاکستان جب دو لخت ہو ا تھا تو امریکہ پر ری پبلکنز کی حکومت تھی جو ہماری مدد کی پابند تھی، اس نے اپنی طرف سے مدد کی کوشش بھی کی مگر ان کا چھٹا یا ساتواں بحری بیڑہ آبنائے ملاکا میں پھنس کر رہ گیا، اس اثناءمیں بھارت نے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ اس وقت پاکستان میں سارا جھگڑا ایک الیکشن کے نتیجے میں پیدا ہوا، آج بھی اگر الیکشن نے جھگڑا کھڑا کر دیا تو اتفاق دیکھئے کہ امریکہ میں پھر ایک ری پبلکن صدر کی حکومت ہے، خدا سے دعا کریں کہ یا تو ٹرمپ کی حکومت گر جائے یا ہمارا جھگڑا نہ بگڑنے پائے۔
بھارت کا فیکٹر پاکستان کی سلامتی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ لوگ تو نواز شریف کو بھارت نواز سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کے چند بیانات ہیں، ایک یہ کہ واہگہ کی لکیر کیوں ہے، دوسرا یہ کہ ہم بھی دال بھات کھاتے ہیں، سرحد پار بھی لوگ دال بھات کھاتے ہیں، تیسرے یہ کہ ہم خدا کو اللہ کہتے ہیں اور سرحد پار والے اسے بھگوان کہتے ہیں۔ نواز شریف کی باقی حرکات ضمنی حیثیت رکھتی ہیں مثال کے طور پر بھارتی ٹائیکون جندال سے دوستی، مودی کو نواسی کی شادی میں مدعوکرنا۔ یہ سب کچھ اگر گناہ عظیم ہے اور اس کی سزا نواز شریف کو دینا لازم ہو جاتا ہے تو سن لیجئے کہ شہباز شریف نے بھی کہا تھا کہ وہ واہگہ کے دونوں طرف تجارتی ٹرکوں کی طویل قطاریں دیکھنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شہباز شریف کو اس گناہ آلود خواہش کی سزا ضرور ملے گی۔ مگر ایک لمحے کے لئے یہاں رک جایئے۔ میں عمران خان کی ایک تقریر یاد کرانا چاہتا ہوں جس میں وہ نواز شریف کو بھارت نوازی پر رگید رہے تھے، انہوں نے تمام الزامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت سے تجارت چاہتا ہے، اس پر خان کو کھانسی آ گئی اور انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا تھا کہ بھارت سے تجارت تو ہم بھی کریں گے۔ بھار ت کے ساتھ تعلقات رکھنا بری بات ہے تو یہ برائی عمران بھی کر چکا ہے، وہ بھارت جا کر بھی کرکٹ کھیلتا رہا اور بیرونی ملکوں میں بھی بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ کھیلتا رہا۔ اس کھیل میں اس نے پیسہ بھی خوب بنایا۔ کیا ہم عمران خان کے اس ماضی کو بھول جائیں گے۔ میں تو کہوں گا کہ ضرور بھول جانا چاہئے۔ اسلئے بھول جانا چاہئے کہ بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار خود بانی پاکستان حضرت قائداعظم نے نہرو کو ایک خط لکھ کر کیا تھا کہ میری خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت میں وہی تعلقات ہوں جو امریکہ اور کینیڈا کے مابین ہیں اور میں گرمیوں کی چھٹیاں بھارت میں اپنے گھر میں گزارنے آیا کروں۔
یہ تھی پاک بھارت تعلقات کی پالیسی جو قائداعظم کے ذہن میں تھی۔
پاک بھارت تعلقات میں بگاڑ کیوں اور کب آیا، اس پر کالم میں مکمل بحث نہیں کی جا سکتی۔ کتابوں کی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی، مگر جنرل ایوب خان وہ پہلا حکمران ہے جس نے بھارت سے سندھ طاس کا ایک بڑا اور قابل ذکر معاہدہ کیا تو دو دریاﺅں کے سو فی صد حقوق بھارت کو دے دیئے، باقی دو دریاﺅں پر بھارت بزور طاقت قبضہ کرتے چلے جا رہا ہے، ایوب خان ہی نے کشمیر میں بھارت سے چھیڑ چھاڑ کی۔ اسے تاریخ میں آپریشن جبرالٹر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، بھارت نے ایوب خان کی مہم جوئی کے جواب میں پاکستان پر یلغار کر دی۔ جنگ بندی کے لئے بھارت سے ایک معاہدہ بھی ایوب خان ہی نے کیا۔ اسے معاہدہ تاشقند کہتے ہیں۔ ایوب خان کی کابینہ کے ایک رکن بھٹو نے بغاوت کی اور حکومت چھوڑ دی اور یہ شور مچا دیا کہ ایوب خان نے تاشقند کی میز پر جیتی ہوئی بازی ہروا دی ہے۔ بھٹو نے تاشقند کے راز کھولنے کا ڈھنڈورا بھی پیٹا مگر اس پر کبھی لب کشائی نہیں کی۔ بھارت سے ایک معاہدہ بھٹو نے بھی کیا، اسے شملہ معاہدہ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں کشمیر کی سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن کا نام دے دیا گیا‘ یوں جو فوج جہاں بیٹھی تھی، وہیں بیٹھی رہی، اس سے دو نقصان ہوئے، ایک بھارت نے کنٹرول لائن کو مستقل حد کے طور پر لیا اور دوسرے کارگل کا جو علاقہ ہمارے پاس تھا، وہ بھارت کے قبضے میں چلا گیا، درمیان میں جنرل یحییٰ خان دوسرے فوجی حکمران تھے جنہوں نے تین دسمبر اکہتر کو بھارت سے دوسری جنگ چھیڑی۔ بھارت ضرور اس سے پہلے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی مدد کر رہا تھا۔ مگر بھارت کو سرحد پار کرنے کا موقع جنرل یحییٰ خان نے مہیا کیا۔ یوں یحییٰ خان قائداعظم کے پاکستان کو دولخت کرنے کا باعث بنا اور مسلح افواج کو بھی ذلت آمیز سرنڈر پر مجبور کیا۔ بھارت نے ایک جارحیت جنرل ضیا کے دور میں سیاچن پر قبضے کی صورت میں کی۔ اس پر جنرل ضیا کا کہنا تھا کہ سیاچن میں تو گھاس تک نہیں اگتی، جنرل مشرف تیسرے فوجی حکمران تھے جنہوں نے بھارت سے تیسری جنگ چھیڑی اور کارگل کی واپسی کی کوشش کی۔ اس مہم جوئی نے نواز شریف اور جنرل مشرف میں تصادم کروا دیا اور نواز شریف کو حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے۔
اب عمران خان نے اپنی وکٹری تقریر میں بھارت سے دوستانہ تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ بھارتی میڈیا اس پر کیا ردعمل دیتا ہے مگر میری دعا ہے کہ یہ خواہش عمران کا جرم نہ بن جائے۔ اے کاش! بھارت ہمارا ہمسایہ نہ ہوتا۔