خبرنامہ

الیکشن کا بروقت انعقاد وزیر داخلہ کا انتباہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

الیکشن کا بروقت انعقاد وزیر داخلہ کا انتباہ

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ عدلیہ کے حکم پر نئی مردم شماری ہو چکی۔ اسے فوج کی نگرانی میں مکمل کیا گیا، اب آئینی تقاضا ہے کہ اس مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیاں ہوں اور اگلے الیکشن ان کے مطابق اور بر وقت کروائے جائیں ۔ان کے خیال میں اگلا الیکشن اگست میں ہو سکے گا۔
ان دنوں ایک در فنطنی یہ چھوڑی گئی ہے کہ مردم شماری کو تو بھول جایئے مگر الیکشن فوری کروا دیں۔ اس شرارت کا اور کوئی مقصد نہیں سوائے ا س کے کہ مارچ میں سینیٹ کے جو الیکشن ہونے والے ہیں ، ان کے منطقی فوائد سے مسلم لیگ ن کو محروم کر دیا جائے اور اسے ایوان بالا میں اکثریت نہ حاصل ہو سکے۔
پاکستان کا نام تو سازشستان ہونا چاہئے تھا۔بانیان پاکستان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے جانشینوں کے لچھن کیا ہوں گے۔وہ کبھی آمروں کے بوٹ چاٹیں گے۔ کبھی امپورٹد وزیر اعظموں کے سامنے دم ہلائیں گے اور کبھی ایک دوسرے کے لتے لیں گے اور کسی کو آئینی جمہوری ٹرم پوری نہیں کرنے دیں گے، کبھی دھرنے دیں گے، کبھی لانگ مارچ کریں گے کبھی لاک ڈاؤن کی کوشش کریں گے اور کہیں دال نہ گلی تو رٹ بازی کے شوق سے جی بہلائیں گے۔
نواز شریف کو کسی جمہوری طریقے سے نہیں نکالا جا سکا تو عدلیہ کا سہارا لیا گیا۔ اب سازشوں کا نیا تانابانا بنا جا رہا ہے ، مگرنواز شریف ٹیڑھی کھیر ثابت ہو اہے، وہ ایسی ہڈی ہے جو سازشیوں کے گلے میں پھنس کر رہ گئی، نہ اگلی جا سکتی ہے، نہ نگلی جا سکتی ہے تو نئی سازش یہ ہے کہ کسی طرح قبل ا ز وقت الیکش کروا لو اور نواز شریف کی پارٹی کو بھی فارغ کر دو مگر نہ قبل از وقت الیکشن ہوں گے، نہ مسلم لیگ ن فارغ ہو سکے گی، بس سازشیوں کے ذہنوں میں حسرتوں کے مزار بنیں گے۔
بات یہ ہے کہ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاںنہ ہو ں تو اگلا الیکشن غیر آئینی ہو جائے گا، اس کے نتائج کو کوئی قبول نہیں کرے گا، نئی مردم شماری کے تحت چھوٹے صوبوں کو مزید نشستیں ملنے کا امکان ہے، وہ پہلے ہی احساس محرومی کا شور مچاتے رہتے ہیں، اگر نئی مردم شماری کوملحوظ رکھے بغیر نیا الیکشن ہو گیا تو ان کے نتائج کو کون تسلیم کرے گا۔مجھے خدشہ ہے اور میں اس کا بر ملا اظہار کرتا رہتا ہوں کہ ہم سترا ور اکہتر سے بدتر حالات میں جکڑے جا چکے ہیں۔ستر میں ایک الیکشن کرویا گیا، اس کے نتائج پر عمل درا ٓمد نہ کیا گیا، چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے الیکشن مینڈیٹ کی رو سے اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل نہ کیا، اقتدار تو تب منتقل ہوتا جب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا ، یہ اجلاس ڈھاکہ میں رکھا گیا ، بھٹو نے دھمکی دے ڈالی کہ جو اس اجلاس میں شریک ہو گا، واپسی پر اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اکیلا احمد رضا قصوری اس میں شامل ہوا اور اس کے باپ کو قتل کروا دیا گیا، نشانہ تو احمد رضا قصوری ہی تھے مگر نشانہ بازوں سے خطا ہو گئی ، وہ باپ بیٹے میں فرق نہ کر سکے اور اندھا دھند گولیاں داغ دیں۔، اس قتل میں بھٹو کو پھانسی ہو گئی، مگر پاکستان کو یہ سزا ملی کہ یہ دو لخت ہو گیا، قائد اعظم کا پاکستان ، میرے مرشد حمید نظامی ا ور مجید نظامی کا پاکستان دو لخت ہو گیا۔
آج سترا ور اکہتر سے زیادہ سنگین خطرات لاحق ہیں۔آج تو ایک پارٹی کو الیکشن سے قبل ہی واش آئوٹ کرنے کوشش جاری ہے، اس کے قائد کو نااہل کیا جاچکا ہے اور باقی اعلی قائدین کے خلاف عجوبہ قسم کے مقدمے قائم ہیں۔ ایسا کسی اور ملک میں نہیں ہوا ہو گا کہ ایک پارٹی حکومت میں ہو اورا سے یہ پتہ نہ ہو کہ اس کے خلاف انتقام کا ڈنڈا کون چلا رہا ہے۔ان کے خلاف مقدمے کون قائم کر رہا ہے، ان کے خلاف بلیم گیم کے پیچھے کون ہے اور کونسی اندروانی یا بیرونی طاقت ہے جو اسے تہس نہس کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔
سازشیوں کا حال یہ ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں۔ آصف علی زرداری نے اس بات کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے کہ نواز شریف نے ایک بار ان سے ملاقات سے انکار کر دیا تھاا ور وہ بھی کسی کو خوش کرنے کے لئے۔ وہ اس طاقت کا نام نہیں لیتے جسے نواز شریف مبینہ طور پر خوش کرنا چاہتے تھے۔ سیاست میں بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے جاتے، ہمیشہ کھلے رکھے جاتے ہیں۔ نواب زادہ نصراللہ خان تو اپنے حریفوں سے ملنے کے لئے ہر وقت مشتاق رہتے تھے، ان کا ڈیرہ سب کے لئے کھلا رہتا تھا۔ ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے لندن میں مذاکرات کئے ا ور ان کے نتیجے میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے گئے، اس میں باہمی تعاون پر زور دیا گیا تھا ور ماضی کی غلطیوں سے بچنے کا عہد کیا گیا تھا مگر ادھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی آ نکھیں بند ہوئیں، ادھر آصف علی زرداری نے اعلان کر دیا کہ معاہدے قرآن و حدیث کا درجہ نہیں رکھتے، اس سوچ والے لیڈر سے کسی بھی وقت کسی بھی رد عمل کی توقع کی جا سکتی ہے، زرداری جو کچھ کر رہے ہیں۔ وہ ان کی فطرت کے عین مطابق ہے مگر سیاستدانوںکو اس طرز عمل سے حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے اور باہمی میل میل ملاپ کی کوششیں جاری رکھنی چاہیئں۔اس لئے کہ جب دو فوجیں جنگ کرتی ہیں تو ان کے درمیان بھی جنگ بندی کے لئے مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھنا پڑتا ہے، زرداری آج نہیں تو کل ، اس میز پر ضرور بیٹھیں گے مگر وہ یہ سوچ لیں کہ تب تک ان کا اپنا ، یا سیاسی نظام کا یا ملک کا ناقابل تلافی نقصان نہ ہو جائے ۔
جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے ، اس سے نیکی کی توقع عبث ہے۔ وہ ہر سانس کے ساتھ کرکٹ کی گردان کرتا ہے، اسے نہیںمعلوم کہ کرکٹ ایک کھیل ہے اور سیاست ایک عبادت۔ اب تو تازہ تقریر میں اس نے اپنے سے پہلے کے نامور کھلاڑیوں کو بھی یہ کہہ کر رگیددیا ہے کہ وہ اپنے لئے کھیلتے تھے،ا س لئے کبھی بڑی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ عمران کو اپنے ورلڈ کپ پر ناز ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ اس ملک کو سیاستدانوںنے تخلیق کیا، اس ملک کو سیاست دانوںنے ایٹمی طاقت بنایا۔ اور سیاست دانوں نے ہی موٹر ویز بنائیں، میٹرو چلائیںا ور بجلی کی کمی دور کر نے کے لئے ناقابل تصور منصوبے مکمل کئے۔کسی کرکٹ کے کھلاڑی نے اس ملک کے لئے کچھ نہیں کیا۔
اب عمران خان کامشن زیرو زیرو سیون یہ ہے کہ فوری سے پیشتر اور چٹکی بجانے میں نئے الیکشن ہو جائیں، جو کہ ایک ناممکن عمل ہے۔ پاکستان عمران خان کی بچگانہ خواہشات کی تکمیل کے لئے نہیں بنا، یہ بیس کروڑ عوام کی امانت ہے ا ور وہی اس کی تقدیر کے حقیقی مالک ہیں جو وقت معینہ پر الیکشن کے عمل سے اپنے حکمرانوں کاا تخاب کرتے ہیں ، یہ الیکشن بقول وزیر داخلہ احسن اقبال اگلے برس اگست میں ہو سکیں گے۔ جلد بازوں کو اس تاریخ کاا تتظار کرنا پڑے گا۔بھیا ! آئینی مجبوری ہے۔