خبرنامہ

الیکشن کو بچوں کا کھیل نہ بنایا جائے…..کالم اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

الیکشن کو بچوں کا کھیل نہ بنایا جائے…..کالم اسد اللہ غالب

میں پہلے تو ایک اصولی بات کہتا ہوں۔ دنیا کے جمہوری ممالک میں الیکشن کرانا صرف اور صرف الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، اس کے کام میںکوئی ادارہ مداخلت نہیں کر سکتا نہ کسی ادارے کو اثر انداز ہونے کی جرات ہوتی ہے، الیکشن کے دوران عدلیہ کے رٹ کے اختیارات بھی سلب ہو جاتے ہیں۔میری ا س ایک بات سے کئی باتیں آپ کو سمجھ میں آ جائیں گی۔
مہذب دنیا میں الیکشن کے دوران اول تو پرانی حکومت موجود رہتی ہے لیکن اگر نگران ہی لانی ہو تو ا سکے لئے صاف ،شفاف، ستھرے کردارکے مالک اور غیر جانبدار افراد کو نامزد کیا جاتا ہے، پنجاب میں پچھلے الیکشن میں نجم سیٹھی کو نگران مقرر کیا گیا۔ اس شخص کا کیا انتظامی تجربہ تھا سوائے ا س کے کہ من پسند صورت حال پیدا کرے اور ن لیگ کو جیتنے کا موقع دے۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اسے کرکٹ بورڈ کی سربراہی کیوں دی گئی، اس کا کیا تعلق کرکٹ سے۔ یہ انعام و اکرام آخر کس لیے ملا۔میاں شہباز شریف دعوی کرتے ہیں کہ ان کی کرپشن کا کوئی ثبوت سامنے نہیں لا سکتا مگر کر کٹ بورڈ اور پی ایچ اے کی سربراہی کی بخشیش کو کیا کہا جائے گا۔
اس وقت تحریک انصاف بھی وہی کرنا چاہتی ہے جو برسوں سے ن لیگ کرتی چلی آ رہی ہے کہ الیکشن کے عمل کو چنگل میں لے لیا جائے۔ پنجاب میں ایاز امیر اور اوریا مقبول جان کے نام تجویز کرنے کا مطلب یہ تھا کہ الیکشن سے پہلے ہی پنجاب حکومت پر قبضہ جما لیا جائے۔ یہ دونوں افراد نہ تو غیر جانبدار تھے بلکہ باسٹھ تریسٹھ پر بھی پورا نہیں اترتے تھے کہ اپنی تحریروں اور ٹاک شوز میں انہوںنے الزام تراشی اور بہتان تراشی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ننگی گالیاں تو شاید نرم بات ہے جو ان کا وطیرہ رہا،میں داد دوں گا کہ شہباز شریف نے جسٹس ثائر علی اور پولیس افسرطارق سلیم ڈوگر کے نام دے کر نیک نامی کمائی، ان افراد پر انگلی تک نہیں اٹھائی جا سکتی۔ مگر پی ٹی آئی نے قدم قدم پر روڑے اٹکائے، ا س کا خیال تھا کہ نہ نگران حکومت بنے گی ، نہ الیکشن ہوں گے یا تاخیر سے ہوں گے جس کے لئے ا سکے پشاوری چیف منسٹر نے واضح طور پر خط بھی لکھ دیا تھا۔ مجھے صوبہ بلوچستان کے ارادوں کی سمجھ بھی نہیں آتی جس کی ا سمبلی نے الیکشن کے ایک ماہ کے التوا کی قرارداد منظور کر لی، عام طور پر ایسی قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں مگر اسی بلوچستان اسمبلی نے پہلے ن لیگ کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا پھر اپنی یہ بات منوائی کہ سینیٹ چیئر مین ان کے صوبے سے لایا جائے۔ پی ٹی آئی ا ور پییلز پارٹی جیسی جماعتیں اس صوبے کے ہاتھ میںکھلونا بن کر رہ گئیں ،اب بھی ان کی قراداد کیا گل کھلائے گی، خدا ہی جانے۔
بر وقت الیکشن کی یقین دہانی ہر کوئی کرا رہا ہے، فوج ایک طرف کہتی ہے کہ اسے الیکشن میں نہ گھسیٹا جائے مگر ساتھ ہی کہہ دیا ہے کہ یہ تبدیلی کا سال ہے۔ دوسری طرف آرمی چیف نئے نگران وزیر اعظم سے ملتے ہیں تو الیکشن کو سیکورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں ، یہ یقین دیہانی انہیں کرانی ہی ہے تو الیکشن کمیشن کوکرانی چاہئے۔پچھلے الیکشن میں آرمی چیف جنرل کیانی نادرا کے دفتر جا پہنچے تھے جہاں حسن اتفاق سے چیف الیکشن کمشنر بھی آ گئے ، انہوںنے وہاں فوجی وردی والے سے کہا کہ تمہارے چیف کی بڑی شہرت ہے، انہیں کہنا کہ ہماری مدد کریں،یا خدا ! دنیا میں ایسے بھی اتفاقات جنم لے سکتے ہیں۔
اس وقت ایک جھگڑا یہ پڑ گیا ہے کہ امیدوارکونسا فارم بھریں، عدلیہ نے کوئی حکم دیا،پھر اس حکم پر سٹے آرڈر ہو گیا مگر یہ کہا گیا کہ ہر امیدوار الگ سے ایک حلف نامہ داخل کرے کے وہ باسٹھ تریسٹھ وغیرہ وغیرہ پر پورا اترتا ہے۔ میرے جیسا ایک عام شہری بھی جانتا ہے کہ ا س ملک میں ایک آئین نافذ ہے اور کسی بھی پاکستانی شہری کے لئے اس کی پابندی کرنا لازم ہے صرف باسٹھ تریسٹھ کو الگ کیوں کر دیا گیا ، کیا ا س کامطلب یہ لیا جائے کہ امید وار آئین کی باقی شقوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ ویسے آئین پر حلف لینا ہی ہے تو ہر امیدوار سے کہا جائے کہ وہ آئین کی ایک مصدقہ کاپی پر دستخط ثبت کر دے اور یہ لکھ دے کہ وہ اس کی پابندی کرنے والا ہے۔ اس سے سارا قضیہ ختم ہو جائے گا کہ فارم کیساہونا چاہئے، محض اعتراض ہی کرنے ہوں تو بنی اسرائیل نے کئی سوالات اٹھائے تھے کہ بچھڑے کارنگ کیسا ہو، ا سکے سینگ کیسے ہوں ، ا سکی دم کیسی ہو، ا سکی عمر کتنی ہو، ہم تو اس قوم کے ریکارڈ کو بھی مات کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ الیکشن کے نتائج پر بیرونی قوتیں اثر انداز ہو سکتی ہیں ، اس کے لئے وہ سیاسی جماعتوں کو بند کمرے میں بریفنگ دینا چاہتے تھے، کسی جماعت نے ان کی وارننگ پر کان نہیں دھرے ۔ امریکہ جیسے ملک میں ٹرمپ کی جیت کو روس کی مداخلت کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ ہیلری کلنٹن اس پر بیان دیتے دیتے ہانپ گئیں، اگر امریکہ میں روس الیکشن پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو ہم کس باغ کی مولی ہیں، اگر کسی کو یاد ہو کہ پچھلے الیکشن میں یورپی یونین نے ہمارے الیکشن کمیشن پر یہ احسان کیا تھا کہ اسے الیکشن بھگتانے کے لئے کمپیوٹروں کا تحفہ دیا اور ساتھ ہی ایک سافٹ ویئر بھی بنا دیا جس سے الیکشن کے نتائج کو مرتب کیا جا سکے ۔ اب کئی روز سے میرے ایک دوست اور تحریک استقلال برطانیہ کے برسوں تک صدر رہنے والے چودھری محی الدین مجھے سے فون کر کے کہہ رہے ہیں کہ سافٹ ویئر دینے والوں نے ا س کاکنٹرول اپنے پاس رکھا تھا اور رات دس بجے کے بعد کمپیوٹر بند کر کے مرضی کے نتائج مرتب کئے۔ اس خدشے کا اظہار ہمارے ہاں بھی کئی حلقوںنے کیا تھا مگر اس پر کسی نے تحقیق آگے نہیں بڑھائی۔کہ سچ جھوٹ کی تمیز ہو سکے، ویسے یہ کام کوئی مشکل نہ تھا۔ میرے جیسا شخص بھی اپنے تیار کردہ سافٹ ویئر کو دنیا کے کسی بھی کونے سے کنٹرول کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ کمپیوٹرز اور سافٹ ویئر ابھی تک الیکشن کمیشن کے زیر استعمال ہے اور اگر ہے تو اس خدشے کے سد باب کے لئے اس نے کیا کیا ہے کہ الیکشن پر کوئی شب خون نہ مار سکے، سیکرٹری الیکشن کمیشن ایک وارننگ جاری کر کے اپنے فریضے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ اگر سیا سی جماعتوںنے ان کی بات پر دھیان نہیں دیا تو ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ملک کے چوٹی کے سافٹ ویئر انجینئرز کی میٹینگ بلائیں۔ اور ان سے مداواپوچھیں۔ وہ خود کوئی انی شیٹو نہ لے سکتے ہوں تو پلڈاٹ کے احمد بلا ل محبوب سے کہیں کہ وہ ماہرین سے مشاورت کر کے انہیں آگاہ کریں ۔ویسے میری خدمات بھی حاضر ہیں،
یہ تو نکتہ تھا غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کا مگر میں قارئین کو ملکی مداخلت کاروں کی ایک نشانی بتائے دیتا ہوں کہ جیسے ہی الیکشن ہوں اور نئی حکومت بنے تو ذرا نظر رکھئے کہ کس کو ریلوے کا میڈیا ایڈوائزر بنایا جاتا ہے ، کسے پی ٹی وی کا چیئر میںلگایا جاتا ہے، کسے پیمرا کا کنٹرول دیا جاتا ہے ۔ کسے کرکٹ بورڈ کی سربراہی نصیب ہوتی ہے ، کسے اکیڈیمی آف لیٹرز کا عہدہ بخشا جاتا ہے۔ درمیان میں ایک پر کشش منصب پنجاب ہارٹی کلچر کی سربراہی کا بھی ہے۔ ایساکوئی ادارہ پشاور میں بھی ہو گا جو ایک کروڑ درخت لگانے کا ریکارڈ بناتا ہے۔یہ سب مناصب ا ن لاڈلوں کو دیئے جائیں گے جنہوںنے الیکشن نتائج پر اثر انداز ہو کر نئی حکومت کے قیام کا رستہ ہموار کیا۔ پنجاب میں جس بزرگ کو نگران بنایا گیا ہے ، انہیں اپنی ملازمت سے ریٹائر منٹ کی تاریخ بھی یاد نہیں ہو گی اس سے پہلے بھی ایک بار یسا ہی تجربہ ہوا کہ منظور الہی شیخ کو نگران مقرر کیا گیا جنہوںنے گاڑی کا ہارن بجانے پر ڈرائیور کو ٹوکا تھا کہ میں ہارٹ کا مریض ہوں، یہ شور بند کرو۔ منظور الہی شیخ میرے محترم بزرگ تھے۔ پنجاب کے نئے نگران ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کی علمی صلاحیت کا بھی میں بے حد قائل ہوں مگر الیکشن بچوں یا بوڑھوں کا کھیل نہیں۔