خبرنامہ

امام ِ کالم نویساں کی تیسری برسی

امام ِ کالم نویساں کی تیسری برسی …اسد اللہ غالب
وقت گزرتے پتہ نہیں چلتا ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے میں کل پرسوں ہی ان سے ان کے گھر ملنے گیا تھا اور انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ا۱۲یک پرتکلف ناشتہ میرے سامنے ترتیب دے دیا ۔ چند روز پہلے ان کے بیٹے اطہر سے فون پر بات ہوئی اور انہوں نے کہا کہ میں اپنے ابو کی تیسری برسی منانے کی تیاری کررہا ہوں ۔ میں نے ٹھٹک کر رہ گیا ۔ میںنے جب کبھی ممتاز نعت گو حفیظ تائب پر کالم لکھا ہے ، تو یہ فقرہ ضرور لکھتا ہوں کہ خدا ہم سب کو عبدالمجید منہاس جیسا چھوٹا بھائی عطا کرے ۔ منہاس صاحب نے حفیظ تائب فاؤنڈیشن بناکر اپنے بڑے بھائی کا نام زندہ و جاوید کردیا ہے ۔محترم حفیظ تائب کا یوم پیدائش ہو یا یوم وصال، منہاس صاحب کا جھٹ فون آتا ہے کہ بھائی ، چند سطریں تائب صاحب کے لئے بھی لکھ دیں ۔ مجھے عبدالقادر حسن کے جواں سال بیٹے اطہر پر رشک آتا ہے کہ وہ اپنے والد کی ہوبہو تصویر ہیں ۔ وہی جان دار لب و لہجہ ، وہی دوسروں کی عزت ِ نفس کا خیال ، میں اطہر کی خوبیوں کا گرویدہ ہوں ۔ کہ مجھے اس کی شکل میں اپنے دوست عبدالقادر حسن کی تصویر نظر آتی ہے ۔ میں عبدالقادر حسن کو امام ِ کالم نویساں سمجھتا ہوں ، میں نے اپنے کئی کالموں میں انہیں اسی لقب سے پکارا ہے ۔ میری ان سے یاد اللہ بڑی پرانی ہے ۔ بہاولپور روڈ کے ایک چوبارے پر ان کی رہائش تھی ۔ میں آپا رفعت سے ملاقات کے لئے جاتا تھا۔ اور ان سے اردو ڈائجسٹ یا چلمن کے لئے افسانے کی فرمائش کرتا ، یہ قصہ بہت پرانا ہے ، اس لئے صحیح طور پر یاد نہیں کہ ہمارے گھریلو روابط کب اور کس موقع پر قائم ہوئے ؟
بہرحال میری بیگم صاحبہ بھی آپا رفعت سے ملاقاتیں کرنے لگیں ، کبھی میرے ساتھ چلی جاتیں ، کبھی تنہا ، آپا جی کا بھی ہمارے گھر آنا جانا شروع ہوگیا ، دوسری طرف ، عبدالقادر حسن صاحب سے میری دوستی گہری تر ہوتی چلی گئی ۔ میں نے ان کے ہفت روزہ ”افریشیا“ سے صحافت کے آداب سیکھے، ’نوائے وقت‘ میں ان کے روزانہ چھپنے والے کالم نے میرے شعور کو جلا بخشی ، ایک وقت آیا کہ ہم دونوں روزنامہ ”نوائے وقت“ میں اکٹھے ہوگئے ۔ میں اخبار کا ڈپٹی ایڈیٹر تھا اور وہ اخبار کے لئے قابل ِ فخر کالم نگار ۔ میں اکثر ان کے گلبرگ والے گھر میں بھی حاضری دیتا رہا ۔ ان کا گھر ڈھونڈنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی تھی ، ایک پارک کے سامنے تنگ سی سڑک پر ان کی مرسڈیز ان کے گھر کا پتہ بتادیتی تھی ۔ سنا ہے کہ یہ گاڑی میاں ممتاز دولتانہ نے انہیں تحفے میں عطا کی تھی ۔ ایک زمانہ تھا کہ ملک کے تمام اخبارات میں سیاست پر چھپنے والا واحد کالم عبدالقادر حسن کا ہی ہوتا ہے ۔ اس بناءپر تمام سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے وہ پسندیدہ کالم نگار تھے ۔ وہ اپنے کالم میں ہلکی پھلکی چٹکیاں بھرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ پھر یہی چٹکیاں زبان زد ِ عام ہوجاتیں ۔ شہر کے تھڑوں پر زیر بحث آتیں۔
مرحوم عبدالقادر حسن کے کالموں میں ’بھولے‘ کا کردار تو ناقابل ِ فراموش ہے ۔ بھولے کی زبان میں طنزکی کاٹ تھی ۔ لیکن کبھی کبھار جو بات عبدالقادر حسن خود نہیں کرسکتے تھے، وہ اسے ’بھولے ‘کے منہ میں ڈال دیتے ، اس سے ان کے کالم کا لطف دوبالا ہوجاتا ۔
”بھولے “ نے کبھی مقصدیت کے بغیر کالم نہیں لکھا ۔ وہ اقبال اور قائداعظم کے شیدائی تھے ۔ پاکستان ان کا عشق تھا اور نظریہ پاکستان ان کا مذہب ۔ اس پر کبھی انہوں نے کمپرومائز نہیں کیا ۔ اور ان کے مخالفین کو انہوں نے ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیا ۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی جناب ڈاکٹر عبدالقدیر سے ان کی گہری وابستگی اور تعلق ِ خاطر تھا۔ عوام انہیں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کا ترجمان اور وکیل تصور کرتے تھے ۔ جنرل مشرف نے سینئرصحافیوں کے اعزازمیں افطاری کی ایک تقریب کے دوران جب یہ کہا کہ ایک زمانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر ان کے ہیرو تھے ، لیکن اب وہ انہیں اپنا ہیرو نہیں سمجھتے ۔ اس پر وہ کھڑے ہوئے ۔ اور کافی دیر تک ان کی جنرل پرویز مشرف سے نوک جھونک جاری رہی ۔ عبدالقادر حسن نے نہایت دبنگ لہجے میں کہا کہ ڈاکٹر قدیر آپ کے ہیرو نہیں ہونگے، لیکن میرے لئے وہ آج بھی ہیرو ہیں، اور ہمیشہ ہیرو رہیں گے ۔ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے ، جب ڈاکٹر عبدالقدیر کو مشرف حکومت نے مجبور کرکے سرکاری ٹی وی پر بٹھایا اور ان سے کہلوایا کہ وہ ایٹمی پروگرام کے اسکینڈل پر اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہیں اور عوام سے معافی کے طلب گار ہیں ۔
اس پس منظر میں عبدالقادر حسن نے جابر سلطان کے سامنے جس طرح کلمہ حق ادا کیا ، اس پر پورا ہال صحافیوں کی تالیوں سے گونج اٹھا ۔ 1998ءمیں بھارت نے پوکھران کے ایٹمی دھماکے کئے ، اور پاکستان اس مخمصے میں مبتلا ہوگیا کہ دھماکوں کا جواب دھماکوں سے دیا جائے یا امریکی صدر بل کلنٹن سے دو ، تین ارب ڈالر ہتھیاکر چپ سادھ لی جائے ۔اس وقت صرف دو صحافی تھے ،جو دھماکوں کا مطالبہ کررہے تھے۔ میرے مرشد جناب مجید نظامی نے وزیراعظم سے برملا کہا کہ آپ ایٹمی دھماکے نہیں کریں گے ، توپاکستان کے عوام سچ مچ آپ کی حکومت کا دھماکہ کردیں گے ۔ اور امام ِ کالم نویساں جناب عبدالقادر حسن نے قوم کی غیرت کو للکارتے ہوئے لکھا کہ اگر چند ارب کا لالچ ہے تو بازار حسن سجا لیتے ہیں۔ اتنی رقم تو ایک رات میں اکٹھی ہوجائے گی ۔ ایسی بات کرنے کے لئے بڑا حوصلہ چاہئے ۔ بلاشبہ عبدالقادر حسن ایسے بلند حوصلوں اور ولولوں سے لبریز تھے ۔ اب صحافت میں یہ تب و تاب کہاں ۔ لگتا ہے عبدالقادر حسن کی نہیں ، پاکستانی صحافت کی برسی منائی جارہی ہے ۔