خبرنامہ

امریکہ کو آرمی چیف کا غیرت مند جوا…..اسداللہ غالب

امریکہ کو آرمی چیف کا غیرت مند جوا…..اسداللہ غالب

کوئٹہ چرچ

میرے قارئین کو یاد ہو گا کہ میںنے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ سے ایک ملاقات کے نتیجے میں تین کالم کا مواد اخذ کیا تھا جن میں سے ایک پاکستان کی سیکورٹی کو لاحق خطرات کی بابت تھا، میںنے جنرل مصطفی سے پوچھا تھا کہ آرمی چیف نے سینٹ کمیٹی کے خفیہ اجلاس میں پاکستان کے بارے میں کن سیکورٹی خطرات کی نشاندہی کی ہو گی تو ان کا جواب تھا کہ یہ بریفنگ خفیہ تھی ا ورا س کی بھنک عوام کو نہیںپڑی لیکن میں پاکستان کی دفاعی کمان کا بانی اورا س کے بعدمزید ایک ٹر م کے لئے سربراہ رہ چکا ہوں، اس لئے میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کن ممکنہ مشکلات میں گھرا ہوا ہے، ہمارا دشمن کون ہے اور ا س کے عزائم کیا ہو سکتے ہیں، یہ کہہ کر انہوںنے تفصیل سے سیکورٹی خدشات کی طرف اشارہ کیا تھا جن میں سے ایک یہ تھا کہ امریکہ اچا نک پاکستان پر یلغار کر سکتا ہے، اس کے دو اہداف ہوں گے ، ایک تو کسی مخصوص شخصیت کو نشانہ بنانا اور دوسرے پاکستان کو ایٹمی اسلحے سے محروم کرنا، مگر جنرل مصطفیٰ نے قوم کو حوصلہ دیا تھا کہ پاکستان نہ تو عراق ہے،، نہ افغانستان اور نہ شام ، نہ یمن کہ اس کے خلاف امریکہ کوئی مہم جوئی کرنے کاسوچ بھی سکے مگر یقین مانئے کہ پاکستانی قوم صدر ٹرمپ اور ان کے مشیروں کی ان گنت دھمکیوں سے سہمی ہوئی تھی ۔
میرا ارداہ تھا کہ میں جنرل مصطفی سے مزید چند ملاقاتیں کر کے پاکستان کی دفاعی تیاریوں پر بھی روشنی ڈالوں لیکن کبھی وہ مصروف اور کبھی میں لاچار، یہ دوسری ملاقات کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی نہیں ہو سکی مگر ا س دوران میں ایک نیک شگون یہ ہوا ہے کہ امریکی جرنیل ایک فون ہمارے آرمی چیف کو کر بیٹھے ہیں اور جواب میں انہیں وہ کچھ سنننا پڑا ہے جو امریکی جرنیل کسی دوسرے ملک سے سننے کے عادی نہیں ہیں، ، ہمارے آرمی چیف نے ایک تو امریکی جرنیل کو یہ کہہ دیا کہ امریکہ دھوکے باز ہے، اس نے بار بار پاکستان کو دھوکہ دیا ، دوسرے ا ٓرمی چیف نے امریکی جرنیل کو جتلایا کہ وہ ایک ایسی فوج کے سپاہ سالار ہیں جس نے اکیلے دہشت گردی کو ملیا میٹ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، تیسرا یہ نکتہ امریکی جرنیل کے سامنے رکھا کہ ہم کبھی آپ کی امداد کی بحالی کی درخواست نہیں کریں گے لیکن آپ کا یہ تو فرض ہے کہ پاکستان کی لازوال اور انمٹ قربانیوں کی قدر و منزلت کریں۔
یہ ہوتا ہے جیسے کو تیسا، جیسی ٹرمپ نے اپنے سال نو کے ٹویٹ میں پاکستان کو سنائی تھیں، ویسے سب کچھ ہمارے آرمی چیف نے اپنے جرات مند اور غیرت مند جواب میں امریکہ کوسنا دیا اور جب سب کچھ امریکہ کو سنا دیا توامریکی جرنیل کو کہنا پڑ اکہ ان کا ملک پاکستان میںکسی مہم جویانہ یلغار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا،اب فرمایئے کہ کیا جنرل مصطفی کے اندازے درست ثابت ہوئے یا نہیں ۔ ہوتے بھی کیوں نہ کیونکہ جنرل مصطفی کے پاس دفاعی اسٹریٹیجی کا وسیع تجربہ ہے اور منگلا کے کور کمانڈر کی حیثیت سے وہ پاکستان کی اس اسٹرائیک کور کی کمان بھی کر چکے ہیں جس نے کسی بھی ممکنہ صورت حال میں منگلا کی جھاڑیوںسے نکل کر مقبوضہ کشمیر کی چوٹیوں پر مورچہ بند بھارتی فوج کو روندنا ہوتا ہے۔
مگر محترم قارئین ! میں تو امریکی جرنیل کی یقین دہانی پر آنکھیں بندکر کے اعتبار کرنے کو تیار نہیں کیونکہ اسی کے بھائی بند کوئی اور کہانیاں ہی سنا رہے ہیں، امریکی وزیر دفاع صاف کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان کے خلاف کچھ کرنے کی خود ضرورت نہیں، اسے بھارتی فوج کی اسٹریٹجک حمائت میسر ہے جو افغانستان میںموجود ہے اور جس کی سرپرستی میں امریکہ کا کھلا کردار ہے، یہ بھارتی فوج ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان کو منظم کرتی ہے، انہیں دہشت گردی کی ٹریننگ دیتی ہے، انہیں ضروری اسلحہ فراہم کرتی ہے اور بھاری معاوضہ بھی اور اسی ٹی ٹی پی کے ذریعے بھارت نے پاکستان بحریہ کے مہران ا ڈے پر کراچی میں حملہ کیا اور اورین طیاروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اب تو کل بھوشن کی گرفتاری کے بعد سے امریکہ یا بھارت کو اعترافی بیانات دینے کی ضرورت نہیں رہی، سارے ثبوت پاکستان کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔
ہمارے آرمی چیف نے امریکی جرنیل سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اب ڈو مور کی باری آپ کی ہے، ہماری طرف سے نو مور۔ ہم نے اپنا فرض نبھایا اور ان دہشتگردوںکو شکست فاش دی جن کی پیٹھ ٹھونکنے کے لئے افغانستان میں عالمی افواج پرے باندھی بیٹھی ہیں، امریکہ سے ڈو مور کے مطالبے کا مطلب یہ ہے کہ افغان سرزمین پر بھارت کی مددسے جو دہشت گرد تیار کئے جارہے ہیں، ان کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ پاکستان ہر گزان سرگرمیوںکوبرداشت نہیں کرے گا۔
پاکستان یہ بھی جانتا ہے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام ساری دنیا کو قابل قبول نہیں، پاکستان کو اس طاقت سے محروم کرنے کی سازشیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں اور جنرل مصطفیٰ کے بقول آئندہ بھی کئی قسم کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے، اسرائیلی طیارے رنگ بدل کر جموں ایئر پورٹ پر پہنچا دیئے گئے تھے مگر پاکستان نے اپنے ایف سولہ طیاروں کو دن رات اپنی فضائوں کی حفاظت کے لئے اڑنے کا حکم دے دیا تھا جس کے بعد اسرائیلی طیارے جس خاموشی سے جموں اترے تھے، اسی خاموشی سے جموں سے پرواز کر کے تل ابیب واپس پہنچ گئے۔ پاکستان یہ بھی جانتا ہے کہ ا مریکہ کی اسپیشل ٹاسک فورس چند ہی سال قبل پاکستان کے اندرونی انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اچانک یلغار کرنا چاہتی تھی۔ یہ ٹاسک فورس ابھی اڑنے بھی نہ پائی تھی کہ امریکہ کو خفیہ رپورٹ ملی کہ پاکستان نے اپنے داخلی انتشار پر قابو پا لیا ہے، یہ داخلی انتشار کیا تھا اور کس کی مدد سے اس پر قابو پایا گیا یہ کہانی بڑی سنسنی خیزہے۔ اسکی تفصیل پھر سہی!
آج الف لیلی کو دہرانے کا وقت نہیں، اس لئے وقت نہیں کہ ایک بار پھر ہم داخلی خلفشار کا شکار ہیں اور آج ہمیں پھر اسی طاقت کی مداخلت کی ضرورت ہے جو اس خلفشار سے نجات دلائے ا ور ملک میں سیاسی سکون واپس آئے ورنہ خدانخواستہ امریکی جرنیل کی یقین دہانیاں پانی کا بلبلہ ثابت ہوں گی اور وہ اپنی ہر منصوبہ بندی کو خدا نخواستہ بروئے کار لے آئے گا۔
پاکستان کے پاس جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے سپاہ سالار موجود ہوں تو اے میری قوم! گھبرانے کی ضرورت نہیں، اللہ بھی ایسے ہی مردان کار کی مدد کے لئے آسمانوں سے فرشتے قطار اندر قطار اتار دیا کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے،
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر آئیں گے گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی