خبرنامہ

امریکہ کے خلاف پاکستان کا محتاط مگر ٹھوس رد عمل…….اسداللہ غالب

امریکہ کے خلاف پاکستان کا محتاط مگر ٹھوس رد عمل……. …..اسداللہ غالب

امریکی صدر ٹرمپ کی نئی دھمکی پر پاکستان کا انتہائی محتاط ر د عمل سامنے آیا ہے مگر پاکستان کا لب و لہجہ انتہائی محکم ہے۔
حکومت نے صدر ٹرمپ کے بیان پر غورو خوض کے لئے دو اجلاس طلب کئے، ایک وفاقی کابینہ کا اور دوسرا قومی سلامتی کونسل کا۔ ابھی حکومت کی تجویز ہے کہ پارلیما نی راہنماﺅں کا اجلاس بھی بلایا جائے تاکہ انہیں بھی صلاح مشورے میں شا مل کیا جا سکے ا ور قومی یک جہتی کی راہ ہموار ہو سکے۔
حکومت نے بہتر سمجھا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بجائے قومی سلامتی کونسل کااجلاس پہلے طلب کر لیا۔ یہ اجلاس منگل کی شام منعقد ہوا ، اس سے قبل جی ایچ کیو میں کور کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس طرح حکومت اور اداروںنے میچورٹی کا ثبوت فراہم کیاا ور عجلت یا جلد بازی میں کسی ردعمل کے اظہار کے بجائے منہ کھولنے سے پہلے خوب سوچ بچار کی گئی۔
پاکستان واحد ملک نہیں جسے امریکی دھمکیاں موصول ہو رہی ہوں، ایران میں تو ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور صدر روحانی کاا لزام ہے کہ ان کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے جو ایران کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ امریکی دھمکیاں شمالی کوریاکو بھی سننے کو ملیں حتیٰ کہ چین کو بھی اور شام کے سربراہ بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے برسوں سے امریکی اور نیٹو افواج نے داعش کی مدد سے یلغار کر رکھی ہے، اس نیکی میں ترکی بھی شامل ہے مگر ہم نے دیکھا کہ جس جس ملک کو دھمکایا جارہا ہے یا اس پر جنگ مسلط کر دی گئی ہے وہ جواب میں صدر ٹرمپ کی طرح ہذیان میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ صبر ، سکون اور تحمل کے ساتھ امریکی چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ہم نے یہ بھی دیکھ لیا کہ امریکہ نے عراق اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دی مگر ان کا وجود برقرار ہے۔ کسی بھی ملک کوا مریکہ ابھی تک صفحہ ہستی سے نابود نہیں کر سکا۔
اس پس منظر میں پاکستانی حکومت، ریاستی ادارے اور قوم کے مختلف طبقات نے صدر ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیانات پر سراسیمگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ حد تو یہ ہے کہ ہم بدستور اپنی سیاسی اور عدالتی لڑائیوں میںمگن ہیں اور جو چال بے ڈھنگی تھی، وہ ویسے کی ویسے ہے، یہ صورت حال اپنی جگہ پر تشویشناک ہے مگر اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ ہم میں سے کسی کو امریکی دھمکیوں سے کوئی ڈر خوف محسوس نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر لوگ تو ٹرمپ کے بیانات پر قہقہے لگاتے ہیں، اوران سے لطف اندوز ہوتے ہیں، ٹرمپ کی دھمکیاں صرف غیروںکے خلاف نہیں، خود امریکی قوم بھی ان کے نشانے پر ہے اور ابھی کل ہی ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کی ایک مسلمان مشیر پر نشتر برسائے ہیں۔ٹرمپ کی لڑائی کس سے نہیں ہے، لوگ تو اب یہ کہنے لگے ہیں کہ ٹرمپ امریکی تاریخ کا گوربا چوف ثابت ہو گا ۔مگر یہ جملہ معترضہ ہے ۔
اب آیئے یہ دیکھیں کہ پاکستان کی قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد کیاا علامیہ جاری ہوا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے، وہ دوستوں کے ساتھ مل کر چلنے کا عادی ہے، اور کوئی ردعمل ظاہر کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرے گا، مگر اس اعلامئے میں یہ بھی محکم لہجے میں صراحت کر دی گئی ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی کا دفاع کرنا جانتا ہے۔ وزیر دفاع نے تو امریکہ کو چیلنج کیا ہے کہ اس نے اب تک جو بھی امداد دی ، اس کا آ ڈٹ کرا لے، اس آڈٹ کا خرچہ بھی پاکستان ہی برداشت کر لے گا۔ پاکستان نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے جن تینتیس ارب ڈالرز کی بات کی ہے، ان میں سے چودہ ارب ڈالر تو کولیشن سپورٹ فنڈ کا بل تھا یعنی پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے لئے جو اسلحہ درکار تھا، یہ اس کی قیمت تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ اسلحہ بھی امریکہ سے خریدنے کی شرط عائد کی گئی تھی۔
فوج کے ترجمان نے تواس حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کیا ستم ظریفی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہے اور کیا عجب ہے کہ ایک اتحادی کو دھمکیاں سننے کو مل رہی ہیں۔
دوسری طرف عمران خان نے اپنی پرانی بات دُہرائی ہے کہ ہمیں امریکی جنگ میں الجھنے کا کیا فائدہ ہوا، بس یہ کہ طعنے سننے کو ملے ۔انہوںنے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ سے اس جنگ کو امریکی جنگ سمجھتے رہے اور اسے پاکستان کی جنگ نہیں کہہ سکتے، یہ جنگ ہمارے اوپرمسلط کی گئی اور اسے ہماری جنگ بنانے کے لئے ہمارا خون بہایا گیا، عمران خان نے بھی امریکی صدر کے بیان کو انتہائی افسوسناک قرار دیا ہے۔
میں تو یہ کہوں گا کہ ہمیں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنا چاہئے اور اس میں ملک کو لاحق سیکورٹی خطرات پر کھلی بحث کی جائے ، میں پہلے بھی مطالبہ کر چکا ہوں کہ سینٹ کی کمیٹی سے آرمی چیف کی سکیورٹی بریفنگ کا متن بھی منظر عام پر لایا جائے تاکہ بیس کروڑ پاکستانیوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ تو پتہ چلے۔ خدا نخواستہ کسی بھی خطرے کی صورت میں عوام ہی کو یک جہتی اور اتحاد کا ثبوت دینا ہو گااور اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا ہو گا۔
ویسے ملک کو لاحق خطرات اتنے بھی ڈھکے چھپے نہیں کہ چودھری نثار کہہ سکیں کہ خطرے کا علم ملک کے صرف چار افراد کو ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ کی دھمکیاں بڑی واضح ہیں، مودی کی دھمکیاں بھی بڑی واضح ہیں، امریکہ کہتا ہے کہ پاکستان کو بہت کچھ کھونا پڑے گا، بھارت کہتا ہے کہ وہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دلوا کر رہے گا، امریکہ یہ بھی کہتا ہے کہ و ہ سرجیکل سٹرائیک بھی کر سکتا ہے ، سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی اسامہ کو پکڑنے کے لئے بھی دی گئی تھی اور پھر ہماری آنکھوں کے سامنے یہ سرجیکل سٹرائیک ہوئی اور ہم دیکھتے رہ گئے، اور سکتے کا شکار ہو گئے ۔ پاکستان کی سلامتی کے ساتھ یہ مذاق شاید دوسری مرتبہ خود پاکستان کے لئے ناقابل برداشت ہو گا۔ جہاں تک بلوچستان کا مسئلہ ہے، وہاں سیاسی ا نتشار کے ا ٓثار صاف نظرا ٓ رہے ہیں، یہ تنازع شدت اختیار کر گیا تو جو بلوچ عناصر کابل ، قندھارا ور نئی دہلی میں بیٹھے ہیں ، وہ غیر ملکی مداخلت کو دعوت دے سکتے ہیں ، اکہتر میں بھی بدقسمتی سے مشرقی پاکستان میں یہی کھیل ہوا اور ہم دو لخت ہو گئے،اس ضمن میں ہمیں غیر ملکی دھمکیوں پر آنکھیںبند کر کے نہیں بیٹھ رہنا چاہئے بلکہ اپنی سلامتی، سکیورٹی، آزادی اور اقتداراعلیٰ کے تحفظ کے لئے پوری چوکسی کا ثبوت دینا چاہئے، اس کے لئے فوری طور پر ہمیں سیاسی انتشار کے ڈرامے کی بساط لپیٹنا ہو گی، ہم اس وقت انتشار کے متحمل نہیں ہوسکتے، یہ طرز عمل حد سے زیادہ خود اعتمادی کے مترادف ہو گا۔
بہر حال اس وقت تک حکومت اورقومی سلامتی کے اداروں نے چوکسی کا ثبوت دیا ہے اور بر وقت مشاورت کر کے امریکہ کو جواب دے دیا ہے ، امریکی سفیر کو بھی دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج کیا گیا ہے، ابھی کابینہ کا فیصلہ آنے کا انتظار ہے اور پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سیکورٹی خطرات پر کھلی بحث سے بہت کچھ عوام کے سامنے آ جائے گا او ر قوی امید یہ ہے کہ اس سے عوام اپنی بقا کو درپیش چیلنج کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے ا ور ممکنہ خطرات کا سامنا کرنے کے لئے بھی تیار ہو سکیںگے۔ قومی بقا کی جنگ بہرحال عوام ہی کو لڑنی ہے۔