خبرنامہ

امریکی نتیجہ میرے لئے حیران کن نہیں۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

منگل کی شام کو ہم تین ووٹر تھے، دو میرے پوتے میاں عمرا ور میاں عبداللہ اور ایک میں ، دونوں پوتوں نے ہیلری کوو وٹ دیاا ور میں نے ٹرمپ کو۔ میاں عمر نے پوچھا کہ آپ ٹرمپ کے حامی کیوں ہیں، میں نے کہا کہ میں نے آپ سے تو نہیں پوچھا کہ آپ ہیلری کے حامی کیوں ہیں۔اسی دروان واہ کینٹ سے تنویر قیصر شاہد کا فون آیا ، کہنے لگے کہ ہیلری جیت رہی ہے، میں نے ٹرمپ کے حق میں آواز لگائی تو جواب ملا کہ آپ ہمیشہ دشمن قوتوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ میں ان کے تبصرے پر سوائے ہنسنے کے اور کیا کر سکتا تھا۔
رات بھر سکون سے سویا، صبح معمول کے مطابق اٹھ کرانٹر نیٹ اور ٹیوسی پر نظر ڈالی، سب کچھ الٹ چکا تھا، دنیا ششدر تھی کہ یہ کیا ہو گیا۔
یہ پہلا امریکی الیکشن ہے جس پر نظر رکھنے کی میں نے کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔کیونکہ نتیجہ صاف ظاہر تھا۔مجھے یوں لگتا تھا کہ محمد علی کلے کے سامنے رنگ میں کوئی خاتون ڈنڈ بیٹھکیں نکال رہی ہو۔مجھے کسی خاتون کے امید وار ہونے پر اعتراض نہیں تھا، مگر میں امریکیوں کی نفسیات تو نہیں بدل سکتا تھا، انہوں نے آج تک کسی خاتون کو صدر منتخب نہیں کیا،یہ بھی ان کی دریا دلی ہے کہ خاتون کو امیدوار بنا لیا مگر پہلی کوشش میں یہ خاتون اوبامہ کے سامنے ٹکٹ کے حصول میں بھی ناکامی سے دوچار ہو گئی تھی۔اسی خاتون کے شوہر بھی امریکہ کے صدر رہ چکے ہیں۔وہ دو ٹرموں کے لئے یعنی آٹھ سال صدر رہے، امرکی عوام ابھی بادشاہت کے عادی نہیں ہوئے ، ا سلئے وہ ایک ہی خاندان کے دوسرے فردکو مزید چار سال تک اپنی قسمت کا مالک نہیں بنا سکتے تھے۔ہیلری کی شکست کا تیسرا فیکٹر یہ تھا کہ ان کی پارٹی مسلسل آٹھ سال سے بر سرا قتدار تھی، امریکی عوام ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسے جانے کے بعد تیسری مرتبہ اس کو ڈسنے کا موقع نہیں دے سکتے تھے۔ملک کی قسمت کو بنانے یا بگاڑنے کے لئے کسی پارٹی یا صدر کے لئے دو ٹرمیں کافی ہوتی ہیں۔ہر مہذب ملک کے ووٹر تبدیلی کے لئے ووٹ دیتے ہیں، وہ اسٹیٹس کو سے اکتا جاتے ہیں ۔ ٹرمپ کالب ولہجہ تبدیلی کا غماز ہی نہیں ، ایک کھلی دھمکی کے مترادف تھا، امریکیوں نے شاید پہلی بار ایسی انتخابی مہم دیکھی تھی جس پر پاگل پن کا سایہ تھا۔ٹرمپ کی شکل میں امریکی ووٹروں کو ایک جرات مند قیادت نظر آئی جو ہر حد تک جانے کے لئے تیار تھا، امریکی اسے آزمانے کے لئے دل وجان سے تیار نظر آتے تھے۔امریکی سمجھتے تھے کہ ٹرمپ امریکہ کو خالص امریکہ بنا کر دم لے گاا ور امریکہ کو غیر امریکیوں سے پاک کر دے گا، ان میں صرف مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ ہسپانوی باشندے بھی شامل تھے جو بلا روک ٹوک امریکہ کی سرحد پا رکرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔انیس سو بانوے میں مجھے امریکہی انتخابہ مہم دیکھنے کا موقع ملا، سان فرانسسکو میں ہمارے وفد کو ہسپانوی تنظیم کے سربراہ سے ملوایا گیا، میں نے کہا کہ آپ یہاں وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو پاکستان مٰں ایم کیوایم کر رہی ہے کہ ہجرت کا عمل اس نے ختم ہی نہیں ہونے دیا حالانکہ پنجاب میں مہاجروں کی آمد ایک معین وقت تک ختم ہو گئی تھی، ہسپانوی بھی امریکہ میں اسی طرح فوج در فوج داخل ہوئے چلے جا رہے ہیں اور اگرا س سلسے کو کہیں روکا نہ گیا تو سفیدفام امریکی کچھ عرصے بعد اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے، ٹرمپ نے اس خطرے اور تشویش کو بھانپ لیااور ہسپانیوں کے داخلے کو روکنے کے لئے سرحد پر ایک دیوار کھڑی کرنے کا وعدہ کیا۔اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ووٹ ٹرمپ کو نہیں، اس دیوار کو پڑا ہے۔
ٹرمپ کی کامیابی کا مجھے کئی ماہ پہلے ا سوقت یقین ہو گیا تھا جب اس نے انتہا پسندی کی سوچ کا مظاہرہ کیا،پوری دنیا ا سوقت انتہا پسندی کے عشق میں مبتلا ہے ، بھارت میں مودی بھی ا سی سوچ کا مالک ہے، القاعدہ، داعش، طالبان اور اس قبیل کے گروہ بھی اسی سوچ کے مالک ہیں۔دنیا ایک بار انتہا پسندوں کو آزمانے کے موڈ میں ہے ، انہیں موقع دینے کے حق میں ہے کہ وہ جیسے چاہیں،مارا ماری کرتے پھریں۔تاریخ میں بخت نصر نے خون پیا، ہلاکو اور چنگیز نے خون پیا،ہٹلر نے خون پیا۔بش، اوبامہ کو خون پینے کا ڈھنگ نہیں آیا تو اب ٹرمپ صاحب ڈریکولا بن کر دیکھ لیں، اپنی تسلی کر لیں، اس میں ہرج کیا ہے۔یہ امریکیوں کی سوچ ہے۔اورا س سوچ کے نشے میں غرق ہو کر امریکی ووٹروں نے ٹرمپ کو تاریخی کامیابی سے ہمکنار کیا ہے، وہ ا یسا صدر ہے جسے کانگرس کے دونوں ایوانوں میں بھی بر تری حاصل ہے، یوں اسے اپنے ارادوں کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں ہو گی۔وہ من مانی کرنے میں آزاد ہو گا۔
میں ملکی میڈیا کے اس خیال کا حامی نہیں کہ امریکیوں نے تاجدار عالم کا انتخاب کیا ہے، پوٹن کے روس نے امریکہ کی طاقت کو بڑی حد تک پاؤں سکیڑنے پر مجبور کر دیا ہے، امرکہ شام پر یلغار کے لئے تلا ہوا تھا کہ پوٹن کا ایک کالم نیو یارک ٹائمز میں چھپاا ور اوبامہ کے ارادوں پر اوس پڑ گئی، چین کے ہمیں وہی دانت نظر آتے ہیں، جو وہ دکھانا پسند کرتا ہے حالانکہ اس کے منہ میں کھانے والے دانت الگ ہیں۔ برسہا برس کی جنگوں سے امریکی معیشت، چینی معیشت کے سامنے نحیف پڑ گئی ہے۔
ہمیں ٹرمپ سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں، وہ تو جو کرے گا ، سوکرے گا، ہم خود اپنا برا کرنے میں اس سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ جتنا عرصہ ہم نے دھرنوں ، اور پانامہ پر چیخ و پکار میں ضائع کیا،ا تنے عرصے میں امریکی قوم نے نئی قیادت کاانتخاب کر لیا، جو خوف غیر قانونی امریکی باشندوں کو ٹرمپ سے لاحق ہے، اس سے آدھا خوف ہمارے ملک میں دھڑلے سے مقیم ساری شربت گلاؤں اور ان کے اہالی موالی کولاحق ہو جائے تو ہمارے آدھے سر کی درد خود بخود ختم ہو جائے گی۔ ہم نے تو را کے اییجنٹوں کی میزبانی کا شرف بھی حاصل کر رکھا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ امریکہ میں تبدیلی نے نہ تو لالک چوک سے جنم لیا ہے، نہ پریڈ گراؤنڈ میں دھرنے سے، یہ تبدیلی ووٹ کے ذریعے آئی ہے، پاکستان کا قیام بھی ووٹ کے ذریعے عمل میں آیا ، تو کیا ووٹ پر ہمارا یمان پختہ ہو جائے گا یا ہم نے سڑکوں پر انقلاب کا بلڈوزر چلانا ہے۔