خبرنامہ

امن کا لاشہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

امن کا لاشہ

مجھے اپنے وزیراعظم کی عزت بے حد عزیز ہے۔
بھارتی انتہا پسند لیڈرنریندر مودی نے بھی اپنے وزیراعظم کا شدومد سے دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نواز شریف کو ان کا مذاق اڑانے کا حق نہیں دے سکتے۔ نریندر مودی کی منافقت ہے۔ انہوں نے رنجیت سنگھ کی خالہ والا لطیفہ دہرایا ہے جس نے شرط لگائی تھی کہ وہ سردار جی کے منہ پرانہیں کا ناکانا کہے گی مودی صاحب نے بھی اسی طرح من موہن کو درجنوں بار ایک دیہاتی گنوار عورت کہہ ڈالا۔
جس وزیراعظم کی اپنے ملک میں کوئی عزت نہیں، جس کی پارٹی کا نائب صدر اور شہزادہ راہول گاندھی وزیراعظم کے آرڈیننس کے بارے میں کہے کہ اسے کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا جائے، ہمارے وزیر اعظم سے ملنے کو بے تاب ہوئے جارہے تھے۔ ابھی الیکشن کا رزلٹ نہیں نکلا تھا کہ انہوں نے فرما دیا کہ وہ من موہن کو اپنی تقریب حلف برداری میں مہمان خصوصی کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ کوئی بلائے یا نہ بلائے، بھارت کا دورہ ضرور کروں گا اور پھر فرمایا کہ پاکستان کے ووٹروں نے انہیں بھارت سے قیام امن کا مینڈیٹ دیا ہے۔
جنرل مشرف کوئی بھارت کا دورہ کر نے کی بے تابی تھی مگر جب وہ آگرہ کے ہوٹل سے نکلے تو کوئی بھارتی لیڈررات کی تاریکی میں انہیں الوداع کہنے کے لیئے نہیں آیا۔
میں اپنے وزیراعظم کی بہت عزت کرتا ہوں مگر وہ خود بھی تو اپنی عزت کا خیال رکھتے، کیا یہی ملاقات تھی جس کے لیے وہ مہینوں سے ترس رہے تھے۔
ایک پھپھے کٹنی گنوار، دیہاتی عورت کی طرح امریکی صدر اوبامہ کو شکائتیں لگانے والے وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ نواز شریف نے مل کر دیکھ لیا، اپنا سارا شوق پورا کرلیا۔
مجھے افسوس ہے کہ وزیر اعظم کو حالیہ الیکشن میں عوام نے جس امن کے قیام کا مینڈیٹ دیا تھا وہ اس امن کالاشہ اٹھائے نیویارک سے واپس آرہے ہیں۔
ہمارے وزیراعظم کے اردگرد کوئی تو ایسا ہو جوان کو بتائے کہ بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کا یہ الزام غلط اور بے سروپا ہے کہ پاک فوج اور آئی ایس آئی امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ پاکستان کے سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز اس امن کے قیام کے دشمن نہیں، بلکہ پوری کی پوری بھارتی ذہنیت پاکستان سے امن نہیں چاہتی، بھارت کی فوج پاکستان سے امن نہیں چاہتی۔ ان دنوں پاک فوج سانحہ گیاری کے شہدا کی یاد منارہی ہے، نواز شریف نے ایک سال قبل کہا تھا کہ دونوں ملکوں کو سیا چین سے فوج واپس بلا لینی چاہئے تو کیا کسی کو یاد ہے کہ اس کی مخالفت میں کس نے آواز اٹھائی تھی،کسی اور نے نہیں بلکہ سابق بھارتی آرمی چیف جنرل سنگھ نے جوآج نریندر مودی کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے جلسوں میں کھڑے ہیں، جن کی ایکس سروس مین سوسائٹی نے اپنے ارکان پر زور دیا ہے کہ وہ بی جے پی کی حمایت میں آگے بڑھیں، جزل سنگھ نے انکشاف کیا ہے کہ کشمیری لیڈروں کا دل جیتنے کے لیئے بھارتی فوج1947 سے پیسہ بانٹ رہی ہے، اسی جنرل نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے ایک کشمیری وزیر کو گیارہ کروڑ روپے نوجوانوں میں بانٹنے کے لیئے دیئے، جس وقت میں یہ تحریرلکھ رہا ہوں، مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں اس جرنیل کے خلاف قرارداد استحقاق پیش ہو چکی ہے۔ جزل سنگھ کے انکشافات نے بھارت میں لرزہ طاری کر دیا ہے اور بھارتی ذہنیت کو ننگا کردیا ہے کہ کس طرح لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ محمدسعید کو شہید کرنے کے لیئے پاکستان میں بھارتی کمانڈ وداخل ہوگئے۔ ہمارا ایک عدالتی کمیشن بھارت سے ابھی ابھی واپس آیا ہے جسے بمبئی سانحے پرعدالتی جرح کے دوران یہ پتا چلا کہ نہ صرف بمبئی سانحہ بلکہ سمجھو تہ ایکسپریس دھماکہ مالی گاؤں قتل عام، دلی پارلیمنٹ حملہ اور امرناتھ یاتریوں پر حملوں میں بھارتی را ملوث تھی اور یہ سب حادثات بھارتی سٹیٹ ایکٹرز کی ذہنیت کا شاخسانہ تھے۔
میاں نواز شریف اگر یہ حقائق از بر کر لیتے تو وہ جنرل اسمبلی میں زیادہ زور دار تقریر کر سکتے تھے اور دیہاتی، گنوار، پھپھے کٹنی کو اوبامہ سے ملاقات کے باوجود جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران پاک فوج پر الزامات لگانے کی جرات نہ ہوتی۔ نہ بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید آئی ایس آئی پر برستے۔ میاں صاحب کی ٹیم میں شامل وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور وزیر ریلوے خواجہ آصف نے ان الزامات کا کیا جواب دینا تھا۔
رہی سہی کسر ناشتے کی میز پرنکل گئی، اور یہ ناشہ بھی نصیب میں نہیں لکھا تھا، دنیا کے ہر وزیراعظم کا دستر خوان میاں نواز شریف کی طرح وسیع نہیں ہوتا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کے وزیراعظم کا تو دل بھی بہت چھوٹا نکلا، انہوں نے تو مصافحہ بھی بے دلی سے کیا، اور پوری ملاقات کے دوران وہ اپنے مہمان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ جس وزیراعظم کی ساری سیاست اور سفارت کی بنیادی جھوٹ پر مبنی ہو، وہ اپنے ہمسایوں کا سامنا کیسے کر سکتا ہے۔
میاں صاحب، آپ نے دیکھ لیا کہ من موہن سنگھ کی اوقات کیا ہے۔ امن کی آشا کی جگہ امن کالاشہ تڑپ رہا ہے۔
بھارت کے لیئے موسٹ فیورڈنیشن کا مرتبہ واہگہ کے راستے تجارتی ٹرکوں اور کنٹینروں کی قطاریں، لاہور، اسلام آباد، پشاور موٹروے کی وسط ایشیا تک تجارتی راہداری، یہ تھے وہ خواب جو ہمارے وزیراعظم کے ذہن میں رچے بسے ہوئے تھے۔
مگر بھارت کو صرف ایک فکر ہے اور اس نے وزرائے اعظم ملاقات سے اگر کچھ حاصل کیا ہے تو صرف یہ کہ وہ کشمیرکو کیونکر غلام بنائے رکھ سکتا ہے۔ اس کے لیئے دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم او آپس میں بات کریں گے تا کہ سیز فایر پر مکمل عمل ہو اور بھارت کی چھ سات لاکھ فوج کو کشمیر میں جارحانہ کارروائیاں کرنے اور کروڑوں روپے بانٹنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔
میں پاک فوج پر تابڑ توڑ حملے کرنے والوں کے سامنے بھارتی فوج کی جمہوری روایات کی پاسداری کا ایک چھوٹا سا نمونہ پیش کرتا ہوں۔ بھارت کی ملٹری انٹیلی جنس کے پہلے سربراہ نے لندن میں متعین بھارتی ہائی کمشن کرشنا مینن کی جاسوسی میں برطانوی ایم آئی فائیو کی مدد کی۔ اس لیے کہ برطانوی حکومت کو کرشنا مینن کی سرگرمیوں پر اعتراض تھا۔ ایم آئی فائیواسے سکیور یٹی کے لیئے نگین خطرہ قرار دیتی تھی، اور یہ جاسوسی کسی اور نے نہیں، خود بھارتی فوج کے انٹیلی جنس ادارے نے کی، جو فوج اپنوں کو معاف نہیں کرتی، وہ پاکستان کے بارے میں کیا سوچتی ہوگی۔
ہمارے وزیراعظم کچھ دن مزید اقتدار میں گزاریں گے تو انہیں پتا چل جائے گا کہ صرف بلوچستان ہی میں نہیں، پاکستان میں ہر جگہ بھارتی فوج دہشت گردی میں ملوث ہے۔ (یکم اکتوبر 2013ء)