خبرنامہ

امن کی خواہش کمزوری نہیں….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

چند روز پہلے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پاک بحریہ کی ایک تقریب میں شرکت کی، صبح سویرے وزیراعظم بھی چاق و چوبند اور پاسنگ آﺅٹ پریڈ میں شرکت کرنے والے آفیسر بھی اجلے اجلے اور بااعتماد۔
اپنی تقریر میں وزیر اعظم نے ایک حوصلہ مند بات کی کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری نہ تصور کیا جائے۔ مسلح افواج کی تقریب میں یہ ریمارکس بھارت کے نام ایک کھلا پیغام ہیں ۔ بھارت اس وقت دیدہ دلیری پر اترا ہوا ہے اور پاکستان کو ہر محاذ پر اکسا رہا ہے، وہ شاید یہ ٹیسٹ کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان جب یہ کہتا ہے کہ وہ ہاٹ ا سٹارٹ یا کولڈ اسٹارٹ میں سے ہر امکان کے لئے تیار ہے تو پھر آگے کیوں نہیں بڑھتا اور بھارت کی شیطنت کا جواب کیوںنہیں دیتا ، بھارت آئے روز ورکنگ باﺅنڈری اور لائن آف کنٹرول پر بلاا شتعال گولہ باری کرتا ہے، ہمارے ٹروپس شہید ہوتے ہیں اور معصوم باشندے بھی جو گھروںمیں یا تو سوئے ہوتے ہیں، یا کھیتوںمیں کام کر رہے ہوتے ہیں یا اسکول میں تعلیم حاصل کرنے میںمصروف ہوتے ہیں، بھارت کی خواہش یہ ہے کہ پاکستان اس کی جارحیت کا جواب دے ا ور پھر بر صغیر جہنم میں تبدیل ہو جائے اور
تاریخ میں اس تباہی کی ذمے داری پاکستان کے کندھوں پر عائد کی جائے، اس عظیم تباہی کے خطرے کو ٹالنے کے لئے پاکستان ہر ممکن صبر سے کام لیتا ہے، اپنی لاشیں اٹھاتا ہے، جنازے پڑھتا ہے اور انہیں قبروںمیں دفن کر دیتا ہے۔
بھارت ایک اور محاذ پر بھی پاکستان کے درپے ہے، یہ ہے دہشت گردی کا محاذ، اس کے لیے اسے افغانستان کی زرخیز زمین میسر ہے جہاں اسے امریکہ استعمال کر رہا ہے اور پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے بھارت کو کھلی چھٹی اور ہلہ شیری ملی ہوئی ہے کہ وہ پاکستان میں کہیں بھی،کسی بھی نوع کی دہشت گردی کرے، بے گناہ لوگوں کا خون بہائے اور پاکستان کو عدم استحکام اور بے یقینی کا شکار بنائے، بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان معاشی طور پر گھٹنے ٹیک دے کیونکہ جس ملک میں دہشت گردی ہو رہی ہو گی، اور بے یقینی کا عالم ہو گا وہاںنہ ملکی سرمایہ کار پیسہ لگائے گا، نہ بیرونی سرمایہ کارا ٓئیں گے اور ایسا ملک معاشی طور پر بدحال ہو جائے گا، وزیر اعظم نے اپنی اسی تقریر میں کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں ایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا جاچکا ہے۔ اور ابھی یہ سلسلہ کہیں ختم ہونے میں نہیں آتا۔بھارتی وزیراعظم مودی جی کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ وہ بلوچستان، آزادکشمیرا ور گلگت بلتستان کے لوگوںکو ان کے حقوق اسی طرح دلوائیں گے جس طرح بھارت نے مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوائے تھے یعنی بنگلہ دیش بنوایا تھا،اب ظاہر ہے کہ بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کے خدا نخواستہ مزید تین ٹکڑے ہو جائیں ۔اس کے لئے بھارت ہر حربہ استعمال کر رہا ہے،ا س نے امریکہ کو اپنے ساتھ گانٹھ لیا ہے جس کے حکمران درجہ بدرجہ ایک ہی دھمکی دیتے ہیں کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہیں ختم نہ کیں تو اسے بہت کچھ کھونا پڑے گا، یہ دھمکی وہی ہے جو مودی دے چکا ہے، دونوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں اور امریکہ تو اس بھیڑیئے کاسا کردارا دا کر رہا ہے جو بلندی پر کھڑے ہو کر بے چارے میمنے پر غراتا ہے کہ تم پانی کیوں گدلا کرتے ہو، میمنا بے چارہ کہتا ہے کہ میں تو نیچے ہوں اورا ٓپ اوپر، اس پر بھیڑیا آپے سے باہر ہو جاتا ہے کہ اچھا، آگے سے بد تمیزی بھی کرتے ہواور ایک جست لگا کر میمنے کو چیر پھاڑ دیتا ہے، پاکستان بہر حال میمنا نہیں ، ایک ایٹمی طاقت ہے جس کے ساتھ ٹکرانا کسی طاقت کے بس میںنہیں، اس لئے اب ا مریکہ ایسے منصوبے بنا رہا ہے کہ کسی برق رفتار حملے میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اچک کر لے جائے۔ ایسے منصوبے چھپائے بھی نہیں چھپتے اور پاکستان کی چوکسی کی وجہ سے اور اللہ کے فضل سے ا یسی نوبت نہیں آنے پائی۔ اور خدا نہ کرے کہ آئندہ کبھی آئے، کیونکہ پاکستان کا ایٹمی اسلحہ صرف اسی کے تحفظ کا ضامن نہیں، پورے خطے کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے، پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ایسا ہے کہ وہ گلف کے علاقے کا بھی چوکیدار ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان چاروں طرف سے گوناں گوںخطرات میں گھرا ہوا ہے مگر ہماری مسلح افواج پوری طرح چوکس ہیں اور ملکی اورقوی دفاع کے لئے ہر لحظہ،ہر دم تیار۔پاکستان کی سیاسی قیادت بھی ضرورت پڑنے پر مسلح افواج کی پشت پر کھڑی نظر آتی ہے، آپریشن ضرب عضب میں دنیا دیکھ چکی ہے کہ کس طرح ملکی انتشار کو ایک دم ختم کر کے تمام سیاسی اورمذہبی پارٹیوںنے قومی ایکشن پلان پر دستخط کئے، اسی یک جہتی کی وجہ سے یہ آپریشن کامیاب ہوا اور پاکستان مین امن قائم ہو گیا، اب یہ بات امریکہ کو ہضم نہیں ہو پاتی کہ وہ تو اقوام عالم کی افواج کے ساتھ پندرہ برس میں افغانستان پرحاوی نہیں ہو سکا جبکہ پاکستان نے ایک مختصر عرصے میںمعجزہ کر دکھایا ہے، اب امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان کو افغان جنگ میں جھونکا جائے،اسی لئے وہ حقانی گروپ کی بات کر رہا ہے، یہ حقیقت ہے کہ حقانی گروپ نے امریکی ا ور اتحادی افواج کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں ، اور وہ افغانستان کے ساٹھ فیصد علاقے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔ امریکی افواج کابل تک محصور ہیں، امریکہ اپنی اس شکست کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے اور اس پر دباﺅ بڑھا رہا ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن پار کر کے حقانی گورپ ا ور طالبان سے الجھ جائے اور پھر یہیں الجھا رہے، پاکستان اس گیم کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور امریکی دباﺅ کو مسترد کئے چلے جا رہا ہے، پاکستان اس تنازعے کو وسیع نہیں کرنا چاہتا اور اس کی کوشش ہے کہ قابض افواج افغانی عوام سے مذاکرات کریں اور امن کے فار مولے پر متفق ہوں۔ پاکستان نہ صرف ا پنے لئے امن چاہتا ہے بلکہ افغانستان میں بھی قیام امن کا خواہاں ہے، یہی وہ پس منظر ہے جس میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ایک نیا بیانیہ سامنے لائے ہیں کہ پاکستان ایک پر امن ملک ہے اور امن کے ساتھ رہنا چاہتا ہے مگر اس کی امن کی ا س خواہش کو ہر گز ہر گز کمزوری نہ سمجھا جائے۔ یہ بات انہوںنے پاک بحریہ کی ایک تقریب میں کہی ہے، کسی کبڈی میچ کے دوران نہیں، اس لئے بھارت ا ور امریکہ کواس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور امن کی خواہش کا جواب امن سے دینا چاہئے، یاسر عرفات نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اس کے ایک ہاتھ میں شاخ زیتون ہے اور دوسرے میں کلاشنکوف، اب دنیا کا فرض ہے کہ وہ اس کے اس ہاتھ کو نہ جھٹک دے جس میں امن کی علامت شاخ زیتون تھامی ہوئی ہے۔ وزیراعظم پاکستان بھی آج وہی بات کر رہے ہیں اور امن کا ہاتھ دنیاکی طرف بڑھا رہے ہیں، دنیا کو چاہیئے کہ وہ اس ہاتھ کو تھام لے ، جھٹک نہ دے تاکہ خطے میں امن کے قیام کی راہ ہموار ہو، یہ امن پوری دنیا کی بھی ضرورت ہے۔