خبرنامہ

امن کی چتا

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

امن کی چتا
.
جمعرات کی صبح بہار اور مہاراشٹر میں پانچ چتاؤں کوآگ دکھائی گئی تو بھارت کے پانچ فوجیوں کی لاشوں کے ساتھ امن کی آشا اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی جل کر راکھ ہوگئی۔ مجھے پاکستان میں بھارتی شردھالوؤں اوری آئی اے کے کنٹریکٹر دانشوروں، صحافیوں،شاعروں اور اینکروں سے دلی ہمدردی ہے۔
بھارت میں بہت کچھ ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں حکمران زیادہ ہیں اور اپوزیشن بھی با افراط پائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں اگر کچھ نہیں ہوا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں گنے چنے حکمران ہیں اور وہ ملک میں موجود نہیں تھے، وزیراعظم عمرے کے لیے سعودیہ گئے ہوئے تھے اور پنجاب کے چیف منسٹر جو اپنے بڑے بھائی کے فرائض رضاکارانہ طور پر ادا کرتے ہیں، اپنے طبی معائنے کے لیئے لندن میں تھے۔ وزیر خزانہ بھی حرمین شریفین میں عبادت میں مصروف رہے۔ اس خلا میں ایک وزیر داخلہ باقی بچے تھے جنہوں نے وزیر دفاع اور وزیرخارجہ کے فرائض ادا کرنے کی کوشش کی۔
کنٹرول لائن پر ایک عرصے سے کشیدگی ہے۔ پیرکو رات گئے پو نچھ سیکٹر کے چھکن داباغ سیکٹر میں بھارت کے دسویں ڈویژن کے پانچ فوجی مارے گئے اور ایک زخمی ہوا۔ ان میں سے چارکا تعلق اکیسویں بہار رجمنٹ سے ہے جن کے تابوت، پاکستانیوں کے چہیتے، بہار کے چیف منسٹرستیش کمار کی راجدھانی میں اترے۔
بھارت میں جو منظر دیکھنے میں آیا، اس پر طوائف الملوکی کا گمان گزرتا ہے۔ بھارتی فوج نے حسب معمول اس سانحے کی ذمے داری پاک فوج پر عائد کی گر بھارتی وزیردفاع انتھونی نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ اس واردات میں بیس مسلح افراد ملوث ہیں جن کے ساتھ پاک فوج کی وردی میں ملبوس کچھ لوگ بھی تھے۔ بھارت میں اس بیان پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ راجیہ سبھا میں پاکستان مردہ باد(خدانخواستہ) کا نعرہ لگا۔ بی جے پی نے عوام کی ہمدردی جیتنے کے لیئے دوطرفہ محاذ کھول دیا، بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکمران کانگرس پارٹی، پاکستان کے عشق میں مبتلا ہے اور اس نے نہ صرف فوج کو اپنی ابتدائی بیان بدلنے کے لئے مجبور کیا بلکہ خودبھی پاکستان کو رعایت دینے کے لیئے ایک نرم سا بیان گھڑ لیا۔ بی جے پی کے ایک وفد نے وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کی، اس میں ایل کے ایڈوانی، راج ناتھ سنگھ، سشما سوراج اور ارون جیتلے شامل تھے، حکومت نے تنقید سے بچنے کے لیے بیچ کا رستہ نکالا اور یہ اعلان کیا کہ بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ، جموں میں حالات کا جائزہ لینے گئے ہیں، ان کی رپورٹ کی روشنی میں وزیردفاع اصل صورت حال بیان کریں گے۔
بھارتی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور وزیر اعظم پر دباؤ بڑھایا کہ وہ اگلے ماہ نواز شریف سے ہرگز ملاقات نہ کریں، میڈیا نے ایک ہی رٹ لگائی کہ جارحیت اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ بی جے پی نے الزام لگایا کہ وزیردفاع نے فوج کو اپنا ابتدائی بیان بدلنے پر مجبور کیا ہے۔ بی جے پی کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بیان بدلوایا ہے کسی نے بیان بدلنے میں قومی سلامتی کے مشیر شنکر مینن کو موردالزام ٹھہرایا۔ کسی نے کہا کہ ڈائر یکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے اپنی فوج کے ابتدائی بیان کی اصلاح کی ہے، کسی نے کہا کہ سیکرٹری خارجہ سوجاتھا سنگھ نے بیان میں نرمی پیدا کی ہے۔ ایڈوانی نے کہا کہ من موہن نے نواز شریف سے ملاقات کی تو بھارت کے طول و عرض میں اشتعال پھیلے گا۔ یہ بھی کہا گیا کہ کانگریس پارٹی پاکستان سے نرمی کا سلوک کر رہی ہے۔ جواب میں کانگرس نے طعنہ دیا کہ پاکستان کے ساتھ نرمی کس نے برتی، کیا واجپائی کا سفر لاہور یاد نہیں جس میں وہ امن اور دوستی کے گیت گاتے رہے اور پاکستان نے اس کا جواب کارگل میں دیا۔
حکومت اپنے سائز سے بڑی ہو اور بے قابواور شتر بے مہار بھی ہو تو ایساہی انتشار دیکھنے کوملتا ہے۔
ایک طرف اپوزیشن اور اس کی دیکھا دیکھی میڈیا نے شور و غوغامچارکھا تھا تو دوسری طرف حکمران کانگرس نے بھی اپنی حکمت عملی تشکیل دی، چنانچہ کانگرس کے یوتھ ونگ کو حرکت میں آنے کا اشارہ ملا اور اس کے مشتعل غنڈوں نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی عمارت پر ہلہ بول دیا۔ کانگریس کا یہ دوہرا طرزعمل پہلی بارسا منے نہیں آیا صدر زرداری بھارت کے دورے پر گئے تو سرکاری دعوت میں سونیا گاندھی نے شرکت نہیں کی۔ کانگرس نے کہا کہ سونیا کو سیاسی مائن فیلڈ سے بچ کر رہنا چاہئے۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں من موہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے بعد اعلان جاری ہوا جس میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا ذکر تھا حکمران کانگرس پارٹی نے اس بیان پر اپنے وزیراعظم کی حمایت نہ کی۔
آج بھی بھارت میں پاکستان دشمنی کی دوڑ گئی ہوئی ہے۔
لیکن تضادات ملاحظہ ہوں۔
پہلا بیان: پاک فوج نے لائن آف کنٹرول پر پانچ فوجیوں کو نشانہ بنایا۔
دوسرابیان: پاک فوج نے لائن آف کنٹرول پار کر کے کارروائی کی۔
تیسرا بیان:بیس مسلح افراد نے پاک فوج کی وردی میں ملبوں افراد کی حمایت سے ہلہ بولا۔
چوتھابیان: پاک فوج کے خصوصی دستوں نے قتل عام کیا۔
تازہ ترین حکم واشنگٹن سے جاری ہوا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کریں، جبکہ خود امریکی صدر نے ایک جاسوس سنوڈن کو پناہ دینے کی آڑ میں روسی صدر سے ملاقات منسوخ کر دی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف یکہ و تنہا ہیں، نہ کوئی وزیردفاع، نہ وزیر خارجہ، نہ سردست چھوٹے بھائی کی معاونت میسر، نہ قومی سلامتی کا کوئی مشیر، نئے آرمی چیف کی تلاش کا عمل جاری۔ ایوان صدر میں اپنا جیتنے والا امیدوار بھی کراچی کے سیلاب زدہ گھر میں۔
بھارت کا مسئلہ غیر ضروری طور پر پھیلی ہوئی اور بے قابو جمہوریت نے بگاڑا اور پاکستان میں سکڑی ہوئی، غیرمتحرک اور غیر فعال جمہوریت مسئلہ پیدا کر رہی ہے۔ حد سے زیادہ بے اعتنائی بحرانوں کی ماں ہے۔ وزیر اعظم حیران ہیں کہ بھارت سے دوستی کا سفر کیسے شروع ہو گا۔ بھارتی شردھالو بھی اس کی نیاڈ بونے کی فکر میں غلطاں ہیں۔ جان کیری آئے اور چلے گئے لیکن وہ ایک خون آلود برصغیر اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔
بھارت نے براہ راست پاک فوج پر جارحیت اور دہشت گردی کا الزام لگا دیا ہے۔ پاکستان میں اپنی فوج کا دفاع کون کرے گا۔ (10 اگست 2013ء)