خبرنامہ

انتخابی رشوت کے بغیر بجٹ | اسد اللہ غالب….انداز جہاں

موجودہ حکومت کا یہ آخری بجٹ ہے، اگلا سال الیکشن کا ہے، اس حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ بجٹ میںمراعات کا ڈھیر لگا دیتی اور عوام کو نہال کر دیتی۔ماضی کی ہر حکومت ایسا کرتی رہی ہے۔ مگر اس حکومت نے تو ایسا نہیں کیا،اس لئے نہیں کیا کہ جو وزیر خزانہ بجٹ بنا رہے ہیں، وہ ایک حقیقت پسند اپروچ کے مالک ہیں،انہوں نے کوئی پہلا بجٹ نہیں بنایا، اس حکومت میں رہتے ہوئے یہ ان کا پانچواں بجٹ ہے، اور وہ کہتے ہیں چھٹا بجٹ بھی ہم بنائیں گے۔ انشااللہ !شاید زرداری دور میںبھی بنایا ہو گا ورنہ نواز شریف کی ددٹرموں کے دوران تین تین بجٹ تو بنائے ہی ہوں گے۔آٹھ دس بجٹ بنانے کااپنا ایک ریکارڈ ہے اور اتنے بجٹ بنانے والا اچھی طرح جانتا ہے کہ ا سکے پلے کیا ہے اور وہ اس میں سے کس قدر لٹا سکتا ہے،ا سے یہ بھی معلوم ہے کہ ملک کی حقیقی ضروریات کیا ہیں، وہ ان کو نظر انداز کر کے عوام کے ساتھ سخاوت کا سلوک نہیں کر سکتے۔ ملک میں بجلی نہیںہے۔سڑکیں نہیں ہیں، ریلوے کانظام مخدوش ہے،صحت کی سہولتیں تسلی بخش نہیں۔ سی پیک کا ہمالیائی اور جناتی کام بھی سر پہ ہے تو وزیر خزانہ نے ان ضروریات کو مقدم سمجھا ہے اور عام ا ٓدمی کا دل بہلانے کی طرف دھیان نہیں دیا، وزیر خزانہ کو علم ہے کہ الیکشن جیتنے کے لئے اگر عوام کو مراعات کی رشوت ضروری ہے تو وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر حکومت زیر عمل ترقیاتی منصوبے ایک سال میں مکمل کر لیتی ہے تو عوام کی خوشیاں دوبالا ہو جائیں گی اور وہ اپنا ووٹ پھر شیر ہی کو دیں گے۔گزشتہ الیکشن پنجاب میں تبدیلی کے نعرے کی تکمیل پر جیتا گیا، اب نعرہ یہ ہے کہ بدلا ہے پنجاب تو بدلیں گے پاکستان۔تو جب اگلے سال تک پاکستان وہ نہیںہو گا جو آج ہے اور اندھیروںمیں ڈوبا ہوا ہے اور جب اگلے سال روشنیاں ہوں گی، روزگار ہو گا،صنعت کا پہیہ تیزی سے گردش کر رہا ہو گا تو پھر عوام شیر کو چھوڑ کر کسی اور کو ووٹ کاہے کو دیں گے، بس یہی ہے وہ تھیم جو حالیہ بجٹ کے پیچھے کارفرما ہے۔

اسحق ڈار منجھے ہوئے وزیر خزانہ ہیں،ان کے پاس ایک تجربے کار ٹیم ہے جو بجٹ کو محض ہندسوں کا گورکھ دھندا بنانے کے بجائے ملک اور ا سکے عوام کے بنیادی تقاضوں کے پیش نظر بجٹ کا لے آئوٹ تیارکرتی ہے۔
پہلے کی طرح سرکاری ملازمین کو دس فی صد اور پنشنر کوبھی دس فی صد، پیپلز پارٹی کی طرح پچاس یا پچیس فی صد نہیں۔پیپلز پارٹی نے یہ کر دیکھا مگر اسے ووٹ پھر بھی نہ ملے، ووٹ صرف سرکاری ملازمین کی جیبیں بھرنے سے نہیںملتے بلکہ عوام کی جیبیں بھرنے سے ملتے ہیں اور عوام کی جیب بھر جائے تو وہ ووٹ کے بکسے بھر دیتے ہیں۔
مسلح افواج ایک چومکھی جنگ لڑ رہی ہیں۔ شہادتیں ان کا مقدر ہیں، ہر فوجی گھرانے کا دل زخموں سے چور ہے۔ وزیر خزانہ نے اپنا فرض نبھایا ہے، اور مسلح افواج کے لیے عوام کی طرف سے خصوصی دس فی صد کاہدیہ پیش کیا ہے۔عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ فوج اور نواز شریف کی نہیں بنتی، ابھی نیوز لیکس پر بھی ایک بھر پور لڑائی ہوئی ہے مگر بجٹ بتاتا ہے کہ نواز شریف کے دل میں فوج کی کس قدر، قدرو منزلت ہے۔فوج کے ساتھ معاملات طے کرانے میں وزیر خزانہ ہی پیش پیش رہتے ہیں، اس لئے بجٹ بناتے ہوئے وہ بھی فوج کو نہیں بھول پائے۔انہوں نے فوج کا قرض ادا کیا ہے۔
بجٹ پر ہر طرح کی تنقید ہو رہی ہے، اس میں کیڑے تلاش کئے جاسکتے ہیں، یہ کام اپوزیشن نے تو کرنا ہی ہوتا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ماہرین معیشت کی بجٹ کے بارے میں رائے کیا ہے، اس سے بھی پہلے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر قومی اسمبلی میں کی جسے ملک بھر میں براہ راست نشر کیا گیا، ان کی پوسٹ بجٹ کانفرنس بھی ٹیلی کاسٹ ہوئی، اب کونسی چیز ہے جو پوشیدہ رہ گئی ہو، اورا سے بجٹ دستاویزات میں سے تلاش کرنے کی سعی ناکام کی جائے۔وزیر خزانہ خود کہتے ہیں کہ دودوھ کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیااور انہوںنے اس عزم کا اعادہ بھی کیا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھانے والوں سے آہنی ہاتھ سے نبٹیں گے مگر ا س سے پہلے کہ حکومت کے آہنی ہاتھ حرکت میں آئیں، صارفین اپنی ذمے داری بھی تو پوری کریں،رمضان کامہینہ نیکیاں سمیٹنے کا مہینہ ہے، قسما قسم کی اشیا خرید کر کچن میں ذخیرہ کرنے کا مہینہ نہیں۔نہ رمضان کامطلب سموسے، کچوریاں، پکوڑے، دہی بھلے اور فروٹ چاٹ چاٹنے کا مہینہ ہے، ہم نے اسے کھانے کے مہینے میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہم سے مراد مسلمان صارفین ہیں۔اور مسلمان دکاندار ہی ان صارفین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔تو سوال یہ ہے کہ ہماری مسلمانی کہاں گئی، روزے کی فیوض و برکات کو ہم کیوں بھول گئے اور محض کھانے پینے کے شوق میں مبتلا ہو گئے۔حکومت بھی وعدے کے مطابق آہنی ہاتھ استعمال کرے اور اس منافع خوری اورا س کے ساتھ فضول خرچی کو روکے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ نان فائلرز کی زندگی اجیرن بنا دیں گے تو ان کے محکمہ انکم ٹیکس کا فرض ہے کہ وہ شام کے وقت اپنے انسپکٹر اور اعلی افسر مارکیٹوںمیں بھیجیں اور ٹکریاں بھر کر خریداری کرنے والوں سے این ٹی این تو دریافت کریں۔ ان دنوں صوبائی محکمہ ایکسائز کی ٹیمیں سڑکوں پر کھڑی ہیں، نمبر پلیٹ غلط ہو تو جرمانہ وصول کر لیتی ہیں، ٹوکن نہ دیا ہو تو بھی جرمانے کے ساتھ وصولی کر لی جاتی ہے، یہ محکمہ انکم ٹیکس والے اپنے ٹھنڈے دفاتر میںکیوں براجمان رہتے ہیںا ور یہ کیا منطق ہے کہ تمام سرکاری دفاتر رمضان کے دوران دو بجے بند ہو جائیں گے جبکہ منافع خور اور فضول خرچ سارا دن لٹنے اور لوٹنے کے لئے آزاد ہیں۔
ویسے بجٹ کے خلاف دھواں دھار تقریریں جھاڑنے والے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف کیوں خا موش ہیں۔ان کی زبانیں بھارت کی مذمت میں گنگ ہیں۔جس نے مقبول وانی شہید کے جانشین اور دیگر گیارہ کشمیری نوجوانوں کو گولیوں سے بھون دیا ہے۔ کیا پاکستان کے بجٹ کی چبھن اس بر بریت سے زیادہ شدید ہے۔
بجٹ کے ایک نکتے پر میں نظر ثانی کی اپیل کرتا ہوں میری دعا ہے کہ بجٹ بنانے والوں اور اسے منظور کرنے والوں کے گھر میںکوئی بیمار نہ ہو، کسی کو شوگر نہ ہو، کسی کو بلڈ پریشر نہ ہو، کسی کو دل کی تکلیف نہ ہو، کسی کے جوڑوںمیں درد نہ ہو، کوئی ستریا بہتریا ہذیان کاشکار نہ ہو، کسی کی آنکھوں کا نور ختم نہ ہو رہا ہو، کوئی حادثے کی نذر ہو کر اپنی ٹانگ یا اپنے ہاتھ نہ کٹو ابیٹھا ہو، یا کوئی کسی آئی سی یو میںوینٹی لیٹر پر نہ ہو، مگر عوام کی اکثریت ان بیماریوں میںمبتلا ہے اور انہیں ہر لمحے دوائوں کی ضرورت ہے، خدا کے لئے بجٹ میں دوائوں کی قیمت بڑھانے کی تجویز واپس لی جائے، ہو سکے تو دوائیں سستی کی جائیں۔ وزیر خزانہ خدا ترس انسان ہیں، وہ میری اپیل پرہمدردانہ غور فرمائیں تاکہ ان کا بجٹ لشکارے مارتا نظر آئے۔